یہ سوال توبحث طلب ہی نہیں کہ آئین توڑنے کی غداری کا ملزم کس سلوک کا مستحق ہے؟ اس کی سزا آئین میں وضاحت سے درج ہے۔انصاف اور قانون کا تقاضا ہے کہ یہ جرم کرنے والے کو موت کی سزا دی جائے۔ لیکن اس معاملے میں وہ سوال بڑی اہمیت رکھتا ہے‘ جو ولی خان نے ضیاء الحق سے کیا تھا۔ وہ بھٹو کو سزائے موت دینے پر غور کر رہے تھے۔ ولی خان نے کہا ’’قبر ایک ہے اور بندے دو۔ یہ طے کرنا آپ کا کام ہے کہ اس قبر میں کون جائے گا؟ آپ یا بھٹو؟‘‘ ضیاء الحق فوج کا سربراہ تھا اور ذوالفقار علی بھٹو آئینی طور سے منتخب وزیراعظم‘ جسے ناجائز طریقے سے توڑی گئی اسمبلی میں دوتہائی سے زیادہ اکثریت حاصل تھی۔ لیکن عوامی طاقت پر‘ فوجی طاقت غالب آئی اور سیاستدانوں کی صفوں میں انتشار نے اپنا کردار ادا کیا۔آخری چیز وہ ہے‘ جس نے ہمیشہ آمروں کو آئین شکنی کی ترغیب دی اور ابھی تک ان میں سے‘ کوئی بھی ناکام نہیں رہا۔ ناکامی سیاستدانوں کے حصے میں آئی۔ 1999ء میں کیا ہوا تھا؟ پرویزمشرف فوج میں قطعی طور پر پسندیدہ شخص نہیں تھا۔ سربراہی کے لئے علی قلی خان کی باری تھی اور انہیں سپاہی سے لے کر جنرل تک سب کی حمایت بھی حاصل تھی۔ نوازشریف نے ایک غیرمقبول شخص کو اٹھا کر چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا۔ اگر میاں صاحب اس کے خلاف کھاریاں کے ایک شرمناک واقعہ میں ملوث ہونے کی بنا پر کی گئی محکمانہ کارروائی کا ریکارڈ دیکھ لیتے‘ تو ان کی خاندانی تربیت اور اخلاقی معیار ‘ انہیں نہ صرف مشرف کے انتخاب سے روکتے بلکہ ہو سکتا ہے وہ اسے سزا کا حق دار بھی ٹھہراتے۔ میں نہیں جانتا‘ نوازشریف نے تقرری کرتے وقت اس کا ریکارڈ دیکھا تھا یا نہیں۔ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مشرف کی تقرری پر فوج میں تعجب ہی نہیں‘ اضطراب بھی پیدا ہوا تھا۔ لیکن ڈسپلن کی پابند فورس حسب روایت خاموش رہی۔ مشرف اپنے کارنامے دکھانے سے پھر بھی باز نہ آیا۔اس نے کارگل کی واردات کر کے‘ نہ صرف برصغیر کے ڈیڑھ ارب عوام کو امن کی چھائوں سے محروم کر دیا‘ جو نوازاور واجپائی کے درمیان طے پانے والے معاملات کے نتیجے میں‘ اس خطے کو نصیب ہونے والی تھی بلکہ امن کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کو جنگ کے کنارے تک پہنچا دیا۔کارگل میں ہونے والی بے عزتی پر نوازشریف نے وہ قدم نہیں اٹھایا‘ جو بطور وزیراعظم ان کا فرض تھا۔ جس طرح کارگل پر پاکستانی فوج کو ہزیمت اٹھانا پڑی‘ ہمارے جوانوں اور جونیئر افسروں کو بھارت کے نرغے میں آ کر جس بھوک‘ پیاس اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اور پھر جس طرح سے پرویزمشرف نے اپنے سپاہیوں کو‘ جو فوجی روایت کے مطابق‘ اس کے بیٹے تھے‘ دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑا‘ ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور ان کی میتیں لینے سے بھی انکار کر دیا‘ کیا یہ جرم قابل معافی تھا؟ یہ تھا وقت ‘ جب نوازشریف اسے برطرف کر کے‘ قوم کو اعتماد میں لے سکتے تھے اور جب اسے سزا دی جاتی‘ تو پاکستانی عوام اور فوج دونوں سیسہ پلائی دیوار کی طرح نوازشریف کے پیچھے کھڑے ہو جاتے اور پرویزمشرف کیفرکردار کو پہنچ جاتا۔ مگر وہ لمحہ ضائع کر دیا گیا۔ 12 اکتوبر کے بعد جو حیرت انگیز واقعات میرے علم میں آئے‘ ان سے نواز شریف یقینا باخبر ہوں گے۔ پرویزمشرف نے اپنی نوکری بچانے کے لئے سازش کی تھی‘ تاہم 12اکتوبر تک اس کا تانابانا ابھی پوری طرح بنا نہیں گیا تھا۔ لیکن اس نے کراچی اور اسلام آباد کے فوجی کمانڈروں کو اپنا ساتھی بنا لیا تھا۔ کراچی میں جنرل عثمانی اور راولپنڈی میں جنرل محمود اور مقامی کمانڈرزسازش کا حصہ بن چکے تھے۔ جنرل عثمانی اور بریگیڈیئر صلاح الدین ستی نے نواز شریف کو محصور کرنے اور پرویزمشرف کو بچانے کی ڈیوٹی انجام دی۔ یہی پوزیشنیں بغاوت کی کامیابی کی بنیاد بنیں۔ وزیراعظم گرفتار ہو گئے۔ ان کے مقررکردہ چیف آف آرمی سٹاف اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے میں کامیاب نہ ہوئے اور جنرل عثمانی نے پرویزمشرف کو کراچی میں اتار کے تحفظ دے دیا اور اس کے بعد سازش کا باقی حصہ مکمل ہوا۔ مشرف‘ پاکستان میں آنے کے چارساڑھے چار گھنٹے بعد تک‘ پورا کنٹرول نہیں سنبھال سکا تھا۔ اس کے ساتھی جنرلوں نے ‘ دیگر تمام جنرلوں کو جو سازش میں شامل نہیں تھے‘ جھوٹ بول کر اپنے ساتھ ملایا کہ ’’پرویزمشرف ملک پر اپنا کنٹرول قائم کر چکا ہے۔ اب اس کا ساتھ دیئے بغیر کوئی چارہ نہیں‘‘۔ باخبر لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دیگر تمام جنرلوں کو یہ جھوٹ بول کر خاموش رہنے پر مجبور کیا گیا کہ ’’اب آپ کے پاس یہی راستہ ہے کہ اپنا اپنا کام کرتے رہیں‘‘ اور میرا خیال ہے کہ ان جنرلوں نے اچھا ہی کیا۔ اگر خدانخواستہ وہ مشرف کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے‘ تو پاک فوج کے اندر تصادم کی صورتحال پیدا ہو جاتی اور پھر خداجانے ملک پر کیا گزرتی؟ مقدمہ عدالت میں جا رہا ہے۔ 12 اکتوبر کی بغاوت کرنے والوں کے چہرے سامنے آ جائیں گے۔ خدا کرے کہ نوازشریف کی جرأت رندانہ کا نتیجہ ملک‘ عوام اور فوج کے حق میں نکلے۔ مگر یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد موجودہ پاکستان کا اقتدار سنبھالا‘ تو آئین توڑنے والے دو فوجی سربراہ ان کے رحم و کرم پر تھے۔ ایک فیلڈ مارشل ایوب خان اور دوسرے جنرل یحییٰ خان۔ ایوب خان کو عوام نے بھرپور احتجاجی تحریک چلا کر ‘ اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا تھا اور یحییٰ خان نے فوج اور ملک‘ دونوں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کر کے‘ اتنا بڑا جرم کیا تھا کہ عوام بلاتفریق اس سے نفرت کرتے تھے۔ اس نے آئین ہی نہیں‘ ملک بھی توڑا تھا۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے پھانسی سے نہیں بچا سکتی تھی۔ خود فوج کے اندر بھی یحییٰ کی حمایت کرنے والا کوئی نہ تھا۔ سچ پوچھئے تو یحییٰ خان کو ایوان اقتدار سے نکالنے والے بھی فوجی تھے۔ ورنہ یہ شخص ذلت آمیز شکست کے بعد بھی برسراقتدار رہنے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔ اس نے اپنا ایک عبوری آئین بھی جاری کر دیا تھا‘ جسے اس وقت کی جماعت اسلامی نے ‘پڑھے بغیر ہی اسلامی قرار دے کر تسلیم کر لیا تھا اور ہمارے ملک کے ایک بزرگ سیاستدان کو تیار کیا جا چکا تھا کہ وہ یحییٰ آمریت کا حصہ بن کر وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ مگر اللہ بھلا کرے ‘ان جونیئر فوجی افسروں کا‘ جنہوں نے راولپنڈی میں جمع ہو کر فیصلہ کیا کہ وہ غدار یحییٰ خان کو اقتدار میں نہیں رہنے دیں گے۔ یہ وہی جونیئر فوجی افسر تھے‘ جنہوں نے یحییٰ خان کو بے بس کر کے اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ورنہ کچھ پتہ نہیں تھا کہ یحییٰ خان ملک توڑنے کے بعد بھی ہم پر مسلط رہتا اور وہ سیاستدان‘ جو ہر وقت بوٹوں کی آہٹوں پر کان لگائے بیٹھے رہتے ہیںاور ہر آمر کی ٹیم میں شامل ہو جاتے ہیں‘ یحییٰ خان کے ساتھ بھی چلے جاتے۔ مگر وقت ان کا ساتھ چھوڑ چکا تھا۔ پاکستانی عوام کی قسمت نے یاوری کی اور اقتدار مغربی پاکستان میں اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کر دیا گیا۔ اس وقت بھٹو صاحب کو اپوزیشن سمیت تمام سیاسی طاقتوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ فوج کے اندر یحییٰ خان کے خلاف بے اندازہ نفرت پیدا ہو چکی تھی۔ عوام اسے سزا دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ مشتعل نوجوانوں نے پشاور میں اس کا گھر بھی جلا دیا تھا۔ کیا یہ موقع نہیں تھا کہ یحییٰ خان کو پھانسی لگا دی جاتی اور ایوب خان پر مقدمہ قائم کر کے آئین تورنے کی سزا کا حقدار قرار دیا جاتا؟ مگر بھٹو نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے دونوں کو تاریخ کے اندھیروں میں دھکیل کر ایک ٹوٹے ہوئے‘ شکست خوردہ ملک کو سنبھالنے اور اسے دوبارہ قوموں کی برادری میں کھڑا کرنے کے لئے مستقبل کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ بھٹو صاحب چاہتے‘ تو وہ طاقتوں کے توازن میں فوج پر بھاری تھے۔ خود فوج کے اندر ان دونوں آمروںکے لئے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ اس کے برعکس فوج خود بھی ان دونوں کی حرکات اور جرائم پر سیخ پا تھی۔ اس کے باوجود بھٹو صاحب نے ایسا کیوں نہ کیا؟ اور یہ سب کچھ کر کے بھی انہیں پھانسی کے تختے پر کیوں چڑھنا پڑا؟ یہ بڑے ہی تکلیف دہ سوال ہیں اور ان کا جواب تلاش کرنا‘ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ قدم اٹھا لیا گیا ہے اور ہم سب کے پاس یہ دعا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نوازشریف اور پاکستانی عوام کی مدد فرمائے اور انہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved