تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     15-01-2021

پانچ ارب کی واردات کی داستان… (2)

اٹک قلعے میں قید نواز شریف اور مسلم لیگ کے لیڈر ظفر علی شاہ کے درمیان ملاقات جاری تھی۔نواز شریف اس بات پر دل برداشتہ تھے کہ قوم نے ان کی قدر نہیں کی ۔ نواز شریف یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ لوگ مشرف کے خلاف مظاہرے کریں گے کیونکہ انہوں نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے مقابلے پر دھماکے کیے تھے ‘ پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا تھا‘ جب پوری دنیا ان پر دبائو ڈال رہی تھی کہ وہ دھماکے مت کریں‘انہوں نے بل کلنٹن کی پانچ ارب ڈالرز کی پیش کش ٹھکرا دی تھی اور پاکستان کو دھماکوں کی مدد سے بھارت کے برابر لا کھڑا کیاتھا ۔ یہ کام ایسا تھا جو اُن کے خیال میں قوم کو نہیں بھولنا چاہیے تھا۔ اس طرح انہوں نے بھارتی وزیراعظم واجپائی کو بس پر پاکستان بلایا اور پہلی دفعہ کوئی بھارتی وزیراعظم مینار پاکستان آیا اور اس نے کہا کہ وہ قیام پاکستان کو دل سے مانتا ہے ۔ کشمیر پر بھی مذاکرات کا حوصلہ افزا اعلان ہوا۔ یوں نواز شریف کے خیال میں ان کے قوم پر وہ احسانات تھے کہ ان کے بدلے لوگ پرویز مشرف کے خلاف احتجاج کرتے۔ نواز شریف کو زیادہ گلہ عوام سے تھا جو اُن کے خیال میں سڑکوں پر نہیں نکلے اور یوں جنرل مشرف کو یہ سب کرنے کا موقع ملا۔اس پر ظفر علی شاہ سے وہ یہ پوچھنا چاہ رہے تھے کہ اب کیا کریں کہ پرویز مشرف پر کچھ دبائو ڈالا جا سکے ۔ یہ سوچا گیا کہ ظفر علی شاہ ان تمام سیاسی قوتوں کو اکٹھا کریں اور کوئی نیا سیاسی الائنس بنایا جائے جس کی مدد سے پرویز مشرف کو مجبور کیا جائے کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں۔ امید کی ایک ہی کرن نظر آتی تھی کہ کسی طرح بینظیر بھٹو کو منایا جائے اور یہ کام ظفر علی شاہ کے ذمے لگایا گیا ۔
ظفر علی شاہ اٹک قلعے سے سوچوں میں گم اسلام آباد اپنے گھر لوٹے تو انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ دبئی میں بینظیر بھٹو سے کیسے رابطہ کریں‘ ملاقات کا وقت لے کر جائیں اور انہیں نواز شریف کا پیغام پہنچا کر نئے سیاسی الائنس پر راضی کریں۔ یہ ناممکن کام لگ رہا تھا‘ مگر ظفر علی شاہ کا کام اس وقت آسان ہوگیا جب ان کے داماد عسکری حسن سید کا ایک دوست ریاض چوہدری نکل آیا جس کی بینظیر بھٹو بہت عزت کرتی تھیں۔ ریاض چوہدری اس وقت دبئی میں ہر وقت بینظیر بھٹو کے قریب رہتے تھے اور بینظیر بھٹو ان پر بہت بھروسا کرتی تھیں۔عسکری حسن سید نے اپنے اس پرانے دوست سے رابطہ کیا کہ وہ ظفر علی شاہ کی کسی طرح ملاقات بینظیر بھٹو سے کرادیں۔ ریاض چوہدری نے کہا کہ وہ کوشش کرتے ہیں لیکن مشکل کام ہے کیونکہ بینظیر بھٹو نواز شریف کی وجہ سے ان حالات تک پہنچی تھیں‘ لہٰذا ان کے کسی پیغام رساں اور پارٹی کے بندے سے ملنا مشکل کام تھا‘ بہرحال انہوں نے وعدہ کر لیا۔اس دوران ظفر علی شاہ نے نوابزادہ نصراللہ خان اور دیگر سیاسی رہنمائوں سے رابطے شروع کر دیے تاکہ نئے سیاسی الائنس کی کوئی شکل بنائی جاسکے اور نواز شریف کو کوئی ریلیف ملنے کی صورت نکل سکے۔
ظفر علی شاہ کو ان سیاسی لیڈروں کو قائل کرنے میں بہت مشکلات پیش آرہی تھیں کیونکہ نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں پیپلز پارٹی سمیت تمام پارٹیوں کے لوگوں کو بہت تنگ کیا تھا۔ دو تہائی اکثریت نے نواز شریف کی پارٹی کا دماغ آسمان پر پہنچا دیا تھا۔میڈیا بھی نواز شریف کے خلاف تھا کیونکہ انہوں نے اُسی دور میں ایک اخباری گروپ پر بغاوت کے مقدمے درج کرائے تھے اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو نوکریوں سے فارغ کرانا چاہتے تھے ۔مگر وہی نواز شریف جنہوں نے صحافیوں اور ایڈیٹروں پر بغاوت کے مقدمات درج کرائے تھے‘ خود دہشت گردی کے مقدمے میں بند تھے اور سڑک پر ایک بندہ بھی نہیں نکلا تھا اور آ جا کے اسی بے نظیر سے سیاسی تعاون کی ضرورت پیش آئی جن پر نواز شریف نے کئی مقدمے درج کرائے تھے۔
اس دوران حکومت کو یہ بھنک پڑ گئی کہ ظفر علی شاہ کو اٹک قلعے میں ملاقات کے دوران کوئی اہم ٹاسک دیا گیا ہے‘ کیونکہ اچانک ہی سب سیاسی طور پر ایکٹو ہوگئے تھے‘ لہٰذا پہلایہ حکم صادر کیا گیا کہ نوازشریف سے کسی کو ملاقات کی اجازت نہیں ہوگی۔ ساتھ ہی ظفر علی شاہ کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھی جانے لگی۔ظفر علی شاہ کی کوششوں کے باجود سیاسی لوگ نواز شریف پر اعتبار کرنے کو تیار نہ تھے ۔اس موقع پر فیصلہ کیا گیا کہ فوری طور پر بیگم کلثوم نواز کو سیاسی طور پر ایکٹو کیا جائے تاکہ عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے میں آسانی رہے اور سیاسی لیڈروں کو بھی یقین دلایا جا سکے کہ شریف خاندان کی ایک خاتون اس جدوجہد میں شامل ہے۔ پورا شریف خاندان جیل میں تھا اور ایک اکیلی عورت جنرل مشرف سے لڑ رہی تھی۔یوں بیگم کلثوم نواز نے سیاسی مقاصد کے لیے وہی کردار ادا کیا جو کبھی نصرت بھٹو نے کیا تھا جب ذوالفقار علی بھٹو قید خانے میں تھے اور وہ ان کی جان بچانے کے لیے اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کے ساتھ سڑکوں پر ماری ماری پھر رہی تھیں۔یوں سمجھا گیا کہ بیگم کلثوم نواز کو سیاست میں لانچ کرنے سے لوگوں کی بے پناہ ہمدردیاں ملیں گی کہ دیکھیں شریف خاندان کی خواتین کو بھی اب باہر نکلنا پڑ گیا ہے۔اس طرح شریف خاندان کو بھی وہی سٹیٹس اور ہمدردیاں ملیں گی جو ان سے پہلے بھٹو خاندان کو ملی تھیں اوراس طو یل جدوجہد کے بعد بے نظیربھٹو وزیراعظم بن گئی تھیں۔
بیگم کلثوم نواز کی انٹری نے نواز شریف کے لیے بازی پلٹ دی۔ سب کو ضیا دور کے یاد آنا شروع ہوگئے جہاں بیگم نصرت بھٹو موجود ہوتی تھیں اور MRDتحریک کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ نصرت بھٹو اگر اپنے شوہر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاسے بچانے کی کوشش کر رہی تھیں تو یہاں بیگم کلثوم نواز اپنے شوہروزیراعظم نواز شریف کو مشرف کے چنگل سے نکالنے کے لیے کوشش کر رہی تھی۔ لوگوں کو کلثوم نواز اور نصرت بھٹو میں بہت سی مماثلت نظر آنا شروع ہو گئی۔ اگرچہ لوگوں کو اب بھی کوئی شک تھا تو وہ اس دن ختم ہوگیا جب لاہور میں کلثوم نواز اور تہمینہ دولتانہ کے ساتھ احتجاج کا فیصلہ کیا گیا تو انہیں روک دیا گیا اور ان کی گاڑی کو کرین سے گھنٹوں ہوا میں معلق رکھاگیا۔ اُن دنوں یہ لطیفہ مشہور ہوگیا تھا کہ نواز لیگ میں صرف دو مرد بچے ہیں کلثوم نواز اور تہمینہ دولتانہ۔
یوں نواز شریف جو چاہتے تھے بیگم کلثوم کی عملی جدوجہد سے جو وہ آسان ہوتا چلا گیا۔ نوابزادہ نصراللہ خاں کو منانا تو ویسے ہی آسان تھا کہ ایسے کاموں کے لیے وہ ہمیشہ تیار رہتے تھے ۔مسئلہ یہ تھا کہ جب تک بے نظیر بھٹو اس الائنس میں شامل نہ ہوں گی بات نہیں بنے گی چاہے باقی سب پارٹیاں الائنس کیوں نہ بنا لیں ‘ اس سے پرویز مشرف کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔بے نظیربھٹو کو راضی کرنے کے لیے اس وقت دبئی میں ظفر علی شاہ ان کے سامنے بیٹھے تھے ۔بے نظیربھٹو نے ظفر علی شاہ سے چھوٹتے ہی پوچھا :آپ بتائیں میں نواز شریف کا ساتھ کیوں دوں جس نے میرا پاکستان میں جینا حرام کر دیا تھا اور اب میں اپنے بچوں کے ساتھ یہاں دبئی میں جلاوطن ہوں اور میرا خاوند وہاں پاکستان میں قید ہے ‘اسی نواز شریف کی وجہ سے ۔ظفر علی شاہ خاموش بیٹھے سب سن رہے تھے ۔ ظفر علی شاہ کو محسوس ہوا کہ وہ آج تک بڑے بڑے مقدمات میں دلائل دیتے آئے ہیں لیکن ان کی وکالت کا اصل امتحان آج ہے۔بے نظیر بھٹو مسلسل بول رہی تھیں اور شاہ جی سوچ رہے تھے کہ وہ اس ذہین اور نواز شریف کی ڈسی خاتون لیڈر کو کیسے قائل کریں کہ وہ سب کچھ بھول کر نواز شریف کا ساتھ دیں۔بے نظیر بھٹو اور ظفرعلی شاہ کے درمیان ماحول ٹینس ہوچکا تھا۔(جاری )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved