تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     15-01-2021

کیا ہم انسانیت سے بھی فارغ ہو چکے ہیں؟

گزشتہ چند روز کی دل دہلا دینے والی خبریں پڑھ کر تو مجھے یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ سیاست‘ معیشت اور اخلاقیات سے فارغ ہونے کے بعد اب ہم انسانیت سے بھی فارغ ہو چکے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں سے لے کر سیاست دانوں تک‘ عوام سے لے کر خواص تک اور صحافیوں سے لے کر علمائے کرام تک‘ سب کو سیاسی گفتگو کا ایسا چسکا پڑ چکا ہے کہ ہمیں اس بات کا ہوش ہی نہیں کہ ہمارے اردگرد کیا ہورہا ہے۔ جو واقعات دیگر مہذب ممالک میں کبھی کبھار ہوتے ہیں وہ اب ہمارے ہاں روزمرہ بن چکے ہیں۔ جو بات اس سے بھی بڑھ کر تشویشناک ہے وہ یہ ہے کہ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک کوئی بھی ان اندوہناک خبروں کا نوٹس لینے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔
لاہور میں بڑے بھائی نے آٹھ سالہ چھوٹے بھائی کے ساتھ نہ صرف برائی کی بلکہ بعد میں اس کے سر پر اینٹیں مار مار کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر اس کی لاش کو ایک ویرانے میں لے جا کر پھینک دیا۔ بڑے بھائی نے پولیس کو بتایا کہ چھوٹا بھائی اس کی گھر پر شکایتیں لگاتا تھا اس لیے میں نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ اس واقعے کی گہرائی میں جاکر تحقیق کریں گے تو آپ کو اپنی سوسائٹی کی زبوں حالی کے بارے میں سینکڑوں باتیں معلوم ہوں گی۔ اوپر سے لے کر نیچے تک اور بڑے سے لے کر چھوٹے تک ہمارے اندر نفرت کے آتش فشاں دہک رہے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر ہم نفرت زدہ شخص کو بھیانک ترین انجام سے دوچار کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ انہی دنوں کراچی میں ایک ہولناک واقعہ پیش آیا کہ جہاں کورنگی میں پانچویں جماعت کے طالب علم نے اپنے کلاس فیلو کو گھر بلا کر قتل کر دیا۔ قتل کرنے کی وجہ لڑکے نے یہ بتائی کہ اسے کسی ذریعے سے امتحانات میں آنے والے سوالات کے بارے میں معلوم ہوا تھا جو اس نے اپنے دوست کو بتا دیئے تھے۔ اب اسے شک ہوا کہ کہیں وہ اس راز کو فاش نہ کر دے اس لیے اس نے ایک تیز دھار آلے سے نہایت سفاکی کے ساتھ اُس دوست کو قتل کر دیا۔ میڈیکل رپورٹ آنے کے بعد معلوم ہوگا کہ قتل سے پہلے دوستوں نے مقتول کے ساتھ زیادتی بھی کی تھی یا نہیں۔ 
یہاں سب سے پہلے اس بات کی جستجو ہونی چاہئے کہ کسی کی جان لینا کبھی ایک ناقابل تصور خیال تھا اب اتنا آسان کیوں ہو گیا ہے؟ پولیس والوں سے لے کر بچوں تک کسی کو سبق سکھانے کیلئے اور اپنے اندر دہکتی ہوئی آتشِ انتقام کو ٹھنڈا کرنے کیلئے لوگ قتل سے کم کسی کارروائی سے مطمئن کیوں نہیں ہوتے؟ سارا معاشرہ ہی انتہائی سنگدل ہو چکا ہے۔ انہی تین چار روز کے دوران قتل کی لرزہ خیز وارداتوں کے علاوہ انسانی سنگدلی کے بھی بعض ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جنہیں پڑھ کر روح کانپ گئی اور دل ڈوبنے لگا۔ 
سیالکوٹ میں ایک چودہ سالہ بچی کی والدہ نے ایک شخص سے رقم ادھار لے رکھی تھی۔ پیسے واپس نہ کرنے پر اس نے اپنی بیٹی کو اُن کے ہاں بطور میڈ رکھوایا۔ اس معصوم بچی نے بتایا کہ ذرا ذرا سی بات پر اس پر بے تحاشا تشدد کیا جاتا تھا‘اسے کھانا نہیں دیا جاتا تھا اور ہڈیوں کو منجمد کرتی ہوئی اس سردی میں اسے سونے کے لیے ایک میٹرس اور ایک چادر دی گئی تھی۔ اہلِ علاقہ نے کوڑادان سے بچی کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھا تو اس کی تصاویر میڈیا کو دیں۔ میڈیا پر یہ خبریں آئیں تو پولیس حرکت میں آئی اور اس نے بچی کو بازیاب کرایا۔ شہرِ اقبال میں کبھی نرم خو اور انتہائی رقیق القلب لوگ بستے تھے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے آغازِ ایامِ شباب کا ایک واقعہ اپنے فارسی کلام رموزِ بے خودی میں منظوم کیا ہے۔ فرماتے ہیں؎
سائلے مثل قضائے مبرمے
بر درِ مازد صدائے پیہمے
از غضب چوبے شکستم برسرش
حاصل دریوزہ افتادِ از برش
کہ ایک نہ ٹلنے والی قضا کی طرح ہمارے دروازے پر ایک سائل مسلسل صدا لگائے جا رہا تھا۔ میں نے غصے میں آکر اس کے سر پر ایک چھڑی رسید کر دی۔ اس کے کاسۂ گدائی میں جو کچھ تھا وہ نیچے آن گرا۔ اس طویل نظم کا میں آگے اقبال لکھتے ہیں کہ عین اس وقت میرے والدِ گرامی گھر تشریف لے آئے۔ انہوں نے یہ منظر دیکھا تو بہت آزردہ خاطر ہوئے اور فرمایا کہ تم میری ریش کے سفید بالوں کی طرف دیکھو! اگر روزِ قیامت ربِّ ذوالجلال نے جناب مصطفیﷺ کی موجودگی میں پوچھ لیا کہ تمہیں ایک انبارِ خاک انسان بنانے کیلئے دیا تھا وہ کام تم سے نہ ہو سکا۔ تو میں کیا جواب دوں گا۔ 
آج اسی شہرِ اقبال میں کہ جہاں بڑے بڑے امیر کبیر صنعتکار بستے ہیں وہاں کے بارے میں اگر ربِّ ذوالجلال نے ساری بستی سے پوچھا کہ میرا حکم تو یہ ہے کہ ضرورت سے جو کچھ زیادہ ہے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جائے‘وہاں تم سے ایک معصوم بچی کو کھانا اور بچھونا تک نہ دیا گیا تو اس شہر کے رئوسا اور امرا کے پاس کیا جواب ہو گا؟ ایسے سنگدلی کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہتے تھے مگر انہیں کوئی قرارواقعی اور عبرتناک سزا دینے کے بجائے ''مک مکا‘‘ کروا دیا جاتا تھا۔ جبکہ دیگر کئی ممالک میں ایسے واقعات میں ریاست مدعی ہوتی ہے۔ 
کچھ عرصہ قبل میں قارئین کو یہ واقعہ سنا چکا ہوں کہ امریکہ میں مصر سے تعلق رکھنے والی ایک فیملی کے نو دس افراد کو امیگریشن دی گئی۔ مصری حیلہ جوئی اور نوسربازی میں ہم پاکستانیوں سے بھی کہیں آگے ہیں۔ یہ فیملی کاغذات میں ہیر پھیر کرکے اپنے ساتھ ایک خادمہ کو بھی امریکہ لے گئی۔ خادمہ سے مصری فیملی بدترین سلوک کرتی تھی۔ امریکہ کی سردی میں اسے بغیر ہیٹنگ کے گیراج میں جگہ دی گئی تھی۔ اس سے رات دن کام لیا جاتا تھا۔ یہ ظالمانہ سلوک دیکھ کر پڑوسیوں نے محکمہ انسانی حقوق کو اطلاع دے دی۔ وہ فی الفور آگئے۔ ابتدائی تحقیق کے بعد انہوں نے سوائے ملازمہ کے ساری فیملی کو گرفتار کر لیا۔ اُن پر مقدمہ چلا اور تمام افرادِ خانہ پر ہزاروں ڈالر جرمانہ ہوا۔ اس جرم کو امریکی میڈیا نے نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ انہیں دس دس سال کی قید بھی ہوئی اور اُن کی نیشنیلٹی کینسل کر کے انہیں امریکہ بدر کردیا گیا۔ صرف اس میڈ کی امیگریشن برقرار رکھی گئی اور اس کی کفالت اور تعلیم کی تمام تر ذمہ داری امریکی ریاست نے اٹھا لی۔ اسے کہتے ہیں قرارواقعی اور عبرتناک سزا۔
انہی دنوں کراچی کی ایک سنگدل سوتیلی ماں اور بے حس حقیقی والد کا واقعہ بھی سامنے آیا اور مجھے بے حد تڑپا گیا۔ اس عورت نے گھر میں کتے اور بلیاں پال رکھی تھیں جن کی وہ بہت نازبرداری کرتی تھی مگر سات سالہ سوتیلی بیٹی سے رات دن کام کرواتی‘ اسے برائے نام کھانا دیتی‘ بات بات پر اس پر وحشیانہ تشدد کرتی۔ پھول سی بچی ٹھنڈے فرش پر ''سوتی‘‘۔ اس کے جسم پر جگہ جگہ تشدد کے نشانات پائے گئے۔ اے ریاستِ مدینہ کے نام لیوائو! عنداللہ اپنا جواب سوچ لو۔ آپ نے کہا تھا کہ اڑھائی کروڑ بچوں کو تعلیم دیں گے۔ اُن کے لیے مناسب و متوازن خوراک کا بندوبست کریں گے۔ چائلڈ لیبر پر عائد پابندی پر سختی سے عملدرآمد کروائیں گے۔ مگر کوئی ایک وعدہ بھی آپ سے پورا نہیں ہوا۔
غریب اور بے وسیلہ مظلوم بچوں کے اندر اسی طرح تناور درخت بننے کے امکانات موجود ہوتے ہیں جیسے خوشحال گھرانوں کے بچوں میں۔ ان بچوں کی نگہداشت‘ اُن کی تعلیم و تربیت‘ اُن کیلئے مناسب خوراک کا بندوبست ریاست کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ مگر اس مقدس ریاست کی حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں۔ ہر صوبائی حکومت کو بلاتاخیر بلدیاتی انتخابات کروا کے ہر یونین کونسل کے ذریعے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کروانی چاہئے۔ دم توڑتی ہوئی انسانیت کی حفاظت کیلئے ہنگامی بنیادوں پر سخت سے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved