تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     15-01-2021

سرحدی باڑ اور ہٹ دھرمی

بھکر، میانوالی، اٹک، جلال آباد، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں پر مشتمل افغانیہ ریاست قائم کرنے کا ببانگ دہل اعلان کرنے والا شخص اب پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کا سہارا لے کر ایک مرتبہ پھر ریاستی مفادات کے خلاف بیان بازی کر رہا ہے۔ مالاکنڈ کی ریلی میں حکومت کو دھمکی اور وارننگ دیتے ہوئے اس نے کہا کہ اگر تم لوگوں نے پاکستان افغان بارڈر پر لگائی گئی آہنی باڑ جلد از جلد نہ ہٹائی تو پھر افغانستان، بلوچستان اور کے پی سمیت وزیرستان کے پشتونوں کو کہوں گا کہ وہ خود یہ باڑ اکھاڑ کر پھینک دیں۔ کہا جاتا ہے کہ '' انسان ہمیشہ اپنے دوستوں سے پہچاناجاتا ہے اور انگریزی میں اس حوالے سے ''A man is known by the company he keeps‘‘ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔
میرے آج کے اس کالم کا مخاطب ہر وہ پاکستانی ہے جوا س ملک کی وحدت اور سالمیت کیلئے اپنی جان قربان کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ مذکورہ سوچ اور جذبے کا حامل کوئی فرد کسی بھی جماعت یا سیا سی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو‘ اس سے کوئی غرض نہیں، اس شخص کو حکومت یا موجودہ برسر اقتدار جماعت سے جتنی بھی نفرت ہو‘ اس میں بھی کوئی برائی نہیں لیکن اگر وہ فرد، جماعت یا گروہ وطن کی حفاظت کے لیے لگائی گئی باڑ کو دونوں جانب کے افراد کو اشتعال دلا کر کاٹنا یا اکھاڑنا چاہے، قائدا عظم محمد علی جناحؒ کی کوششوں‘ لاکھوں مسلمانوں کی زندگیوں، پچاس ہزار سے زائد مسلم بیٹیوں کی عصمتوں کی قربانیوں سے حاصل کئے گئے ملک کی وحدت کو نقصان پہنچانے کا اعلان کرے، اور پھر اس شخص کو اپنے کندھوں پر اٹھایا جائے، اس کے ناز نخرے برداشت کیے جائیں تو ایسے افراد کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟کیا یہ سب اس کے در پردہ حمایتی نہیں کہلائیں گے؟ آج سب کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ ان کی لڑائی موجودہ حکومت اور برسر اقتدار جماعت سے ہے یا ریاست سے؟ اس کا فیصلہ کر نا ہو گاکہ جس ملک میں ہم سب بستے ہیں‘ جس کی آن اور شان ہماری آن اور شان ہے‘ اگر کوئی اس کی وحدت کو نقصان پہنچانے کی بات کرتا ہے اور کچھ لوگ جو اس کا ساتھ دیتے ہیں‘ وہ ہماری نظروں میں کس مقام کے حامل ہوں گے؟ 
جلسوں اور ہر ریلیوں میں ایسی متنازع باتیں جن کا مقصد قوم کو نفرت اور تقسیم کی دلدل میں دھکیلنا لگتا ہے‘ کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں ہو سکتیں، کراچی کے جلسے میں قومی زبان اردو کے خلاف بات کی جاتی ہے تو لاہور میں کھڑے ہو کر پنجابیوں کی حب الوطنی کی توہین کی جاتی ہے، کبھی اپوزیشن کے جلسوں سے آزاد بلوچستان کے نعرے لگائے جاتے ہیں تو کبھی آہنی باڑ اکھاڑ پھینکے کے سبق دیے جاتے ہیں ۔اورپتا نہیں کیوں ان سب کے لیے کندھا استعمال ہورہا ہے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا! '' افغانیہ‘‘ کی ترغیب دینے والوں، سرحدوں پر لگی حفاظتی باڑ کو بزورِ طاقت اکھاڑ پھینکنے والوں کے متعلق سکیورٹی ادارے یقینا خبر رکھتے ہوں گے۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ کہتا ہے کہ باجوڑ اور مہمند ایجنسی اس وقت ملک میں موت بانٹنے کے رستے بن چکے ہیں چنانچہ سب سے پہلے ان دو ایجنسیوں کی حدود پر کڑی نظر رکھتے ہوئے مضبوط اور مکمل آہنی باڑ کے ذریعے انہیں بند کرناانتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ باڑ کی تنصیب مکمل ہونے کے بعد رات کے وقت ان میں برقی رو بھی چھوڑنی چاہیے اور باڑ کی نگرانی کے لیے فلڈ لائٹس کا استعمال بھی لازمی کرنا ہو گا۔بعض اطلاعات کے مطابق افغانستان سے دشمن کے ایجنٹوں اور ان کیلئے کام کرنے والے دہشت گرد وں کیلئے گولہ بارود سمیت ہر قسم کی کمک سب سے زیا دہ باجوڑ اور مہمند ایجنسی کے راستوں سے سرحد کے اِس پار پہنچ رہی ہے ۔ پاکستان نے کچھ ہفتے قبل جب چند روز کیلئے پاک افغان بارڈر بند کیا تو چاروں جانب ایک ہا ہا کار مچ گئی تھی جبکہ بھارت نے اپنی ملکی سلامتی کو تمام چیزوں سے مقدم سمجھتے ہوئے پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کی سرحدوں کو آہنی باڑ یں لگا کر مکمل بند کیا ہوا ہے پھر کچھ لوگوں کو ان باڑوں سے تکلیف کیوں پہنچ رہی ہے؟ 
ماضی میں پاکستان افغانستان سے ملنے والی اپنی اُن سرحدوں کو آہنی باڑ لگانے سے ہچکچاتا رہا جہاں سے ہماری اولاد اور سلامتی آئے دن نشانہ بن رہی ہے۔ مختلف گروہوں اور مختلف گروپوں کی صورت میں افغانستان کے چپے چپے میں بکھرے بھارتی تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان کو اپنا سافٹ ٹارگٹ بنانے کیلئے اپنے سدھائے ہوئے لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں، وہی لوگ جن کے بارے میں سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے بھی اپنے دورۂ پاکستان میں بتا دیا تھا۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے ایک ہجوم سے گفتگو کرتے ہوئے رابرٹ گیٹس کا کہنا تھا ''افغان فوج کی تربیت کے لیے بھارتی فوج کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں‘‘۔ امریکی چھتری کے نیچے حامد کرزئی کے دس سال دور میں افغان فوجیوں کو جو تربیت ملتی رہی‘ یہ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ بھارت افغانستان کی فوج، سکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کا ہمراز بننے کے ساتھ ساتھ پاکستان مخالف ٹولے کا دم ساز بھی بن گیا۔
امریکی وزیر دفاع چیک ہیگل کا وہ مقالہ دنیا بھر کے علم میں ہے کہ ''بھارتی خفیہ ایجنسیاں افغانستان سے پاکستان میں دہشت گرد داخل کرکے دہشت گردی کراتی چلی آ رہی ہیں‘‘۔ افغانستان کی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو حیرت ہو گی کہ بھارت سے میڈیا کے نام پر ایک پوری فوج کابل، قندھار، جلال آباد، پکتیا اور خوست سمیت متعدد صوبوں میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ ہمارے اداروں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ افغانستان میں بے چینی اور قتل و غارت سے سینکڑوں میل دور بیٹھا بھارت خود تو محفوظ ہے‘ اسے تو جلتے افغانستان اور وہاں بھڑکتی آگ سے کوئی نقصان نہیں ہو رہا، اس کی تو کوئی عمارت تباہ نہیں ہو رہی، اس کے تو افسر اور جوان نہیں مارے جا رہے، اس کا تو کوئی شہری دہشت گردی کا شکار نہیں ہو رہا، اصل نقصان تو افغانستان اور پاکستان کا ہو رہا ہے۔ دونوں جانب سے مارے تو مسلمان ہی جا رہے ہیں، اس لئے اب افغان عوام کو بھی یقین ہو جانا چاہئے کہ پاکستان کسی صورت بھی نہیں چاہے گا کہ ہمسایہ مسلم ملک افغانستان میں قتل و غارت اور بے چینی کا راج ہو۔ افغانستان کا سرکاری ریکارڈ گواہ ہے کہ کرزئی اور دوستم نے افغان پولیس، فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی تربیت کیلئے بھارت کی خدمات حاصل کیں اور اس مقصد کی آڑ میں دوستم کی ذاتی ملیشیا کو بھی بھارتی فوج سے گوریلا اور جنگی تربیت دلوائی گئی۔ بے شمار بھارتی عملہ‘ جس میں بھارت کی بری اور فضائی فوج اور را سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے‘ افغانستان میں اہم جگہوں پر تعینات کرایا گیا۔ اسی عملے نے سابق حکومت کے دور میں چن چن کر کمیونسٹوں کو افغان فوج اور این ڈی ایس جیسے خفیہ اداروں میں بھرتی کیا۔ آج اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ سرحد پار سے پاکستان کی چوکیوں پر حملے معمول بن چکے ہیں جبکہ اندرونِ ملک ہونے والی دہشت گردی کے ڈانڈے بھی افغانستان میں کام کرنے والے بھارتی قونصل خانوں سے جا کر ملتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو اپنے عوام کی سلامتی کا پورا پورا حق حاصل ہے اور یہ گزشتہ دس برسوں سے بھارت نواز دہشت گردوں سے حالت جنگ میں ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی کے 70ویں اجلاس میں سب کے سامنے برملا کہا تھا ''ہمیں اپنے ملک پر گرائی جانے والی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا حق ہے اور اسرائیل کو غزہ اور دوسرے علا قوں میں باڑ لگانے کا حق حاصل ہے‘‘۔ اگر میکسیکو اور امریکا کے درمیان باڑ لگ سکتی ہے تو پاک افغان سرحد پر کیوں نہیں؟ کاش پی ڈی ایم قیادت اور اس کا ہمنوا میڈیائی گروہ کبھی یہ بھی کہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے مابین حائل باڑ کو نہیں مانتا اور اسے اکھاڑ پھینکے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved