تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     26-06-2013

اک نعرۂ مستانہ کی گونج

جس حکمران نے ملک وقوم کے نام پر قرضہ لیا اور اسے اپنے اللّوں تللّوں ، عیش و عشرت، کرپشن اور اپنے ذہن میں بسے خوابوں کی تعبیر پر خرچ کیا، اس کی جائداد اور کاروبار بیچ کر اس سے قرضہ وصول کرنے کا مطالبہ پوری دنیا میں زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اس تصور کے ساتھ ساتھ دنیا آج جس معاشی بحران کا شکار ہے اُس کا ذمہ دار بھی وہ بینکاری نظام اور سود کو سمجھتی ہے۔ دنیا کا بڑے سے بڑا معیشت دان دو سو سال تک عوام کا مالی خون چوسنے والی اس بینکاری کی اصل حقیقت سے آشنا ہو چکا ہے۔ سیاسی مفکرین بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ فرسودہ جمہوری نظام‘ جسے بینکوں کے پیدا کردہ سود پر پل کر خونخوار بلائوں کی صورت دنیا کی معیشت پر قابض سرمایہ داروں نے خرید کر یرغمال بنا رکھا ہے، کبھی ان سرمایہ دار بلائوں پر ہاتھ نہیں ڈالے گا‘ جنہوں نے اس نظام کو سرمائے کا خون دے کر پالا ہے۔ ان معیشت دانوں کا یہ نعرہ‘ جو مشہور معیشت دانSteve Keenنے بلند کیا ہے، تمام معاشی پنڈتوں میں مقبول ہو چکا ہے۔ وہ اسے’’ قرض سے انکار ‘‘ یعنی(Debt Jubilee) کہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے‘ (\"We should write the debt off, bankrupt the banks, Nationalise financial system and start all over again\")یعنی ’’ہم قرض کی ادائیگی سے انکار کریں، بنکوں کو دیوالیہ کریں‘ معیشت کو اپنے ہاتھ میں لیں اور ازسرِ نو زندگی شروع کریں‘‘۔ ساری دنیا کے معیشت دان متفق ہیں کہ اگر اب ایک فیصد بھی سود نافذ کیا گیا تو معیشت تباہ و برباد ہو جائے گی۔ انہیں اس بات پر بھی غصہ ہے کہ سود کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو حکومتیں عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے امداد دے کر مضبوط کر رہی ہیں اور دنیا کی ہر پارلیمنٹ میں بیٹھے سودی مافیا کے غلام ممبران پارلیمنٹ یہ کردار ادا کرتے ہیں۔ اس نظام کے تحت سود خور لوگوں کا ایک گروہ ہوتا ہے جو انتہائی مختصر ہوتا ہے لیکن اس کی تجوریاں روز بروز بھرتی جاتی ہیں اور عام آدمی دن بدن غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا چلا جاتا ہے۔ پاکستان بھی گزشتہ دس سال ایسی ہی صورتحال کی زد میں رہا‘ بینکوں کی عمارات میں اضافہ ہوا اور ان کے سودی کاروبار میں بھی۔ بینکوں نے‘ جن کے پاس عوام کی جمع پونجی تھی‘ اس رقم سے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو نے والی حکومتوں کو دل کھول کر سود پر قرض دیا۔ نوے فیصد سے زیادہ سرمایہ کاری حکومت کو قرض دینے کی صورت میں کی گئی۔ یہ میرا اور آپ کا پیسہ تھا۔ پہلے میرا اور آپ کا پیسہ حکمرانوں کو دے کر کرپشن اور عیاشی میں اُجاڑا گیا اور پھر میرا ہی پیسہ سود کے ساتھ مجھے واپس کرنے کے بہانے مجھ پر ہی بھاری ٹیکس عائد کر دیے گئے۔ کہا جاتا ہے: خزانہ خالی ہے، اس کو تمہاری ہڈیاں نچوڑ کر بھریں گے۔ لیکن جمہوریت کے سرمایہ دارانہ نظام کے گماشتے ان لوگوں پر ٹیکس نہیں لگائیں گے جنہوں نے ان کے الیکشن کا خرچہ اٹھایا اور جو آج بھی ان کے ناز نخرے اٹھاتے ہیں۔ پاکستان کے اس سود خور مافیا نے جس طرح عوام کا سرمایہ لوٹا اور خون نچوڑا‘ اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی۔ بینک کے کھاتہ داروں یا بینک میں رقم جمع کروانے والوں کے یوں تو بہت درجات ہیں لیکن سب سے بلند وہ درجہ ہے جس کے کھاتوں میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ رقم ہے۔ اور ایک آخری درجہ ہے جس میں ایسے کھاتہ دار ہیں جن کے اکائونٹ میں دس ہزار روپے سے بھی کم رقم ہے۔ پاکستان کے تمام بینکوں میں2000ء میں کل دو کروڑ چوراسی لاکھ کھاتہ دار تھے۔ 2008ء میں یہ تعداد بڑھ کر دو کروڑ پچاس لاکھ ہوگئی لیکن 2012ء کے آخرمیں اس ملک کے لوگ اس قدر مفلس ونادار ہو گئے کہ ان کے پاس بینکوں میں رکھنے کے لیے دس ہزار روپے بھی نہ تھے۔ اس وقت ملک کے بینکوں کے کل کھاتہ دار بیانوے لاکھ چوالیس ہزار کے لگ بھگ رہ گئے ہیں۔ ایسے کون سے لوگ تھے جن کو اس سودی نظام نے اپنے دروازوں سے باہر دھکیل دیا۔ 2000ء میں دس ہزار سے کم رقم والے کھاتہ دار ایک کروڑ بیس لاکھ سات سو بیاسی تھے۔ ان کے پاس کل رقم 6800کروڑ تھی۔2008ء میں ایسے لوگ43لاکھ پچپن ہزار رہ گئے اور ان کے پاس مجموعی رقم صرف ایک ہزار نو سو اٹھارہ(1918) کروڑ روپے رہ گئی تھی۔ 2012ء میں ان کی تعداد صرف 16لاکھ 17ہزار کے قریب اور ان کی جمع پونجی 8600 کروڑ ہے۔ لیکن اس ملک میں وہ طبقہ بھی ہے جس نے لوٹا، جس نے تجوریاں بھریں، جس نے اس ملک کے عوام کو سرکاری قرضوں کے بوجھ تلے پیس کر، گھر بیٹھے سود کمایا۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کے کھاتہ داروں کے اکائونٹ میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ رقم ہے۔ یہ لوگ2008 ء میں صرف5542تھے اور ان کے پاس32ہزار دو سو نو کروڑ روپے تھے 2008ء میں یہ ایک دم پانچ گنا ہو گئے۔ ان کی تعداد 24ہزار چار سو تیس ہوگئی اور ان کے کھاتوں میں ایک لاکھ بتیس ہزار تین سواکہتر کروڑ روپے آگئے۔ لیکن آج یہ سرمایہ دار، سود خور چوبیس ہزار چار سو ننانوے یعنی پچیس ہزار کے قریب ہیں اور ان کے پاس ایک لاکھ ستاسی ہزار تین سو ترانوے کروڑ روپے ہیں۔ یہ وہ 25000 لوگ ہیں جن میں سے بیس ہزار اس ملک میں گذشتہ بارہ سالوں میں پیدا ہوئے ہیں بلکہ سود کے درخت پر کڑوے پھل کی طرح اُگے ہیں۔ جس ملک میں بجلی کی وجہ سے کارخانے نہ چلتے ہوں، دہشت گردی کی وجہ سے سرمایہ کاری ختم ہو گئی ہو، کرپشن کی وجہ سے لوگ سرمایہ منتقل کر رہے ہوں، ایسے ملک میں یہ بیس ہزار کھاتہ دار کہاں سے آگئے جن کے پاس اس ملک کے ایک لاکھ تیس ہزار تین سو اکہتر کروڑ روپے ہیں۔ یہ لوگ کسی حفیظ شیخ یا کسی اسحاق ڈار کو نظر کیوں نہیں آتے۔ اس لیے کہ یہ سیاسی پارٹیوں کے خرچے اٹھانے والے لوگ ہیں۔ ان کے سود سے کمائے ہوئے پیسوں سے اس ملک کی جمہوریت کی گاڑی چلتی ہے۔ سود کے اس گھن چکر کی وجہ سے جہاں ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ دس سالوں میں دو کروڑ افراد نے بینکوں کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا اور میرے اللہ نے انہیں اس عذاب سے بچالیا‘ وہاں انہی غریب لوگوں کو ٹیکسوں کی صورت میں روز مجبوراً سود ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سب غریب لوگ ہیں۔ پاکستان کا ہر شہری58ہزار روپے کا مقروض ہے اور اس سال اس غریب عوام نے ایک ہزار دو سو پینتالیس ارب روپے سود اور قرض کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ عوام کے نمائندہ ادارے اس سود اور قرض کو ادا کرنے میں تو بہت پھرتیلے ہیں لیکن اس کو یہ 25ہزار کھاتے دار نظر نہیں آتے جن سے صرف اگر ایک سوال کیا جائے کہ تم نے یہ رقم کہاں سے کمائی تو ان کی سٹی گم ہوجائے۔ لیکن یہ سوال کون کرے گا؟ ایسا سوال تو امریکہ کی کانگریس کو بھی کرنے کی جرأت نہیں جہاں کے سرمایہ داروں نے32ہزار ارب ڈالر اپنے ملک سے باہر منتقل کر رکھے ہیں۔ سرمایہ داروں اور سود خوروں کے پیسے پر پلنے والی پارٹیاں اور چلنے والے جمہوری نظام میں یہ جرأت کہاں۔ ہاں ایک نعرہ مستانہ، کہ جس حکمران نے قرض لیا ہے، اسی کی جائداد بیچو اور قرض پورا کرو، عوام کا اس قرض سے کوئی تعلق نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved