گاڑی کی بکنگ کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ شناختی کارڈ کے ساتھ مکمل رقم کا کچھ حصہ پے آرڈر کی کی صورت میں جمع کروایا جاتا ہے، یعنی جس شخص نے گاڑی خریدنی ہو اس کا شناختی کارڈ نمبر لازم ہوتا ہے۔ ابتدائی دنوں میں ایک شناختی کارڈ پر کئی گاڑیاں بک ہو جاتی تھیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک انویسٹر کئی سو گاڑیاں اپنے نام پر بک کروا لیتا تھا۔ زیادہ بکنگ سے ڈیمانڈ اور سپلائی کا ایشو پیدا ہو جاتا کیونکہ کمپنی اپنی کپیسٹی سے زیادہ گاڑیاں نہیں بنا سکتی، اس لیے گاڑیوں کی ڈیلیوری کا وقت بڑھ جاتا اور انویسٹرز اپنی گاڑیاں مارکیٹ میں لانچ کرکے منہ مانگا اون یا پریمیم وصول کرتے چونکہ اس اون منی سے سرکار کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا لہٰذا حکومت نے کار بنانے والی کمپنیوں کو ایک شناختی کارڈ پر ایک گاڑی بک کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ اصول یہ وضع ہوا کہ کوئی بھی شخص ایک سال میں ایک شناختی کارڈ پر ایک ہی گاڑی لے سکتا ہے۔ یاد رہے کہ جب ایف اے ٹی ایف نے پاکستان میں بلیک منی کی روک تھام کے لیے گاڑیوں کی خرید وفروخت پر چیک لگانے کی ہدایت کی تو کئی ایسے کیسز سامنے آئے کہ ایک ایک شناختی کارڈ پر دو سو سے زائد گاڑیاں بک کروائی گئی تھیں۔ حکومتی سختی کے بعد اب سرمایہ داروں نے اس کاروبار کا نیا طریقہ ڈھونڈ لیا۔ چھوٹے انویسٹرز نے ابتدائی طور پر اپنے بھائی، بیگم، بیٹے، بیٹی، ماں، باپ اور دوستوں کے شناختی کارڈ نمبروں پر گاڑیاں بُک کروانا شروع کر دیں۔ اگر دس بارہ قریبی رشتہ دار موجود ہوں تو ایک ماہ میں ایک گاڑی بہ آسانی بک ہو جاتی ہے اور اگلے سال مزید ایک گاڑی پرانے نام سے بک کروا لی جاتی ہے کیونکہ بندش ایک سال میں ایک شناختی کارڈ پر ایک گاڑی خریدنے کی ہے۔ خیر جیسے ہی گاڑی آتی ہے تو طے شدہ طریقہ کار کے مطابق سیلزمین گاڑی بیچ دیتا ہے۔ اب مسئلہ گاڑی ٹرانسفر کروانے کا ہوتا ہے۔ اس کا بھی حل نکال لیا گیا۔ ٹرانسفر لیٹر پر بھائی‘ بیٹے کے دستخط کروا کر گاڑی بہ آسانی نئے خریدار کو منتقل ہو جاتی تھی۔ اس پر حکومت نے گاڑی منتقل کرنے والے کا موجود ہونا لازمی قرار دے دیا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور دے دلا کر گاڑی صرف دستخط اور انگوٹھے لگوانے پر منتقل ہو جاتی ہے۔ آج بھی یہ کام ہو رہا ہے اور کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ یہ طریقہ کار چھوٹے انویسٹرز کا وضع کردہ ہے۔ آئیے اب بڑے انویسٹرز کے اون منی کمانے کے طریقہ کار پر نظر ڈالتے ہیں۔
جب سرمایہ زیادہ ہو تو کاروبار بڑھانے کے نت نئے طریقے نکال لیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص تین سو گاڑیاں بک کروانا چاہتا ہے تو تین سو شناختی کارڈ ڈھونڈنا اور ان پر گاڑیاں بُک کروانا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ اس مسئلے کا بہت خوبصورت حل نکالا گیا۔ کار بنانے والی کمپنیوں نے اصول وضع کیا کہ ایک شناختی کارڈ پر ایک گاڑی بک ہو گی لیکن ایک کمپنی جتنی چاہے گاڑیاں بُک کروا لے‘ اس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ بڑے انویسٹرز نے پہلے پروپرائٹر شپ کمپنیاں بنائیں‘ جن میں وہ خود کو مالک ظاہر کرتے، بعد ازاں ان کمپنیوں کے نام پر گاڑیاں بک کروانے لگے۔ طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ اپنے نیشنل ٹیکس نمبر میں ایک کمپنی کے نام کا اضافہ کروا لیا جاتا تھا۔ کچھ گاڑیاں اس طریقہ کار سے نکلیں لیکن جلد ہی اس پر بھی پابندی لگا دی گئی کیونکہ سنگل پرسن کمپنی میں کمپنی اور فرد کا نیشنل ٹیکس نمبر (این ٹی این) ایک ہی ہوتا ہے جو واضح ثبوت تھاکہ گاڑیاں کمپنی نہیں بلکہ ایک فرد خرید رہا ہے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ایسی کمپنی بنائی جائے جس کا آزادانہ نیشنل ٹیکس نمبر ہو۔ اس صورتحال میں ایسوسی ایشن اور پرسنز یعنی اے او پی، پارٹنرشپ اور پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بنائی گئیں۔ ان کا علیحدہ نیشنل ٹیکس نمبر حاصل کیا گیا اور اس نمبر پر ہزاروں گاڑیاں بُک کروائی گئیں۔
اس طریقہ کار میں گاڑی بُک کروانے کے لیے کمپنی کے لیٹر ہیڈ پر ایک درخواست دی جاتی ہے جو کسی بھی شخص کو کمپنی کا ایڈمن انچارج، چیف فنانشل آفیسر یا کوئی بھی عہدہ ظاہر کر کے ایک فرضی دستخط اور کمپنی کی مہر کے ساتھ ڈیلرشپ پر جمع کروائی جاتی ہے۔ اس لیٹر میں یہ لکھا جاتا ہے کہ کمپنی کے استعمال کے لیے گاڑیاں درکار ہیں اور پھر جتنی گاڑیاں بک کروائی جاتی ہیں‘ اتنے ہی پے آرڈرز جمع کروا دیے جاتے ہیں۔ یہاں یہ ضروری نہیں کہ پے آرڈر بھی اسی کمپنی کے بینک اکائونٹ کا ہو جس کے نام سے گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔ پے آرڈر کسی بھی شخص کے نام کا ہو سکتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے گاڑی کی بُکنگ کینسل کروانی پڑ جائے تو رقم اسی اکائونٹ میں منتقل ہوتی ہے جس نام سے پے آرڈر بنا ہوتا ہے۔ اس اصول نے پریمیم یا اون منی کمانے کے راستے مزید آسان کر دیے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ دو لوگ پارٹنرشپ پر کمپنی بناتے ہیں۔ کچھ گاڑیاں اپنے سرمائے سے بُک کرواتے ہیں اور زیادہ گاڑیاں دوسرے انویسٹرز کے سرمائے سے خریدی جاتی ہیں۔ زیادہ تر انویسٹرز اپنے بینک اکائونٹ سے پے آرڈر بنواتے ہیں۔ اس کے تین فائدے ہیں؛ ایک تو یہ کہ تفریق کرنے میں آسانی رہتی ہے کہ کس انویسٹر نے کتنی گاڑیوں میں سرمایہ کاری کی ہے، دوسرا یہ کہ اگر کسی وجہ سے بکنگ کینسل کروانی پڑ جائے یا ڈیلر شپ بکنگ کینسل کر دے تو رقم انویسٹر کے اسی بینک اکائونٹ میں جائے گی جہاں سے پے آرڈر بنا ہوتا ہے، تیسرا یہ کہ منافع کی تقسیم بھی آسانی سے ہو جاتی ہے۔
جب گاڑیوں کی فروخت کا وقت آتا ہے تو ایک مرتبہ پھر کمپنی کا لیٹر ہیڈ استعمال کیا جاتا ہے جس پر ممکنہ طور پر کسی بھی شخص کو کمپنی کا ملازم ظاہر کر کے دستخط کیے جاتے ہیں۔ اس لیٹر میں یہ لکھا جاتا ہے کہ کمپنی اپنی گاڑی فلاں شخص کو منتقل کر رہی ہے۔ لیٹر ہیڈ اور دیگر سرکاری کاغذات پر کمپنی کی مہر لگا دی جاتی ہے اور یوں گاڑی مطلوبہ شخص کے نام منتقل ہو جاتی ہے۔ کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ گاڑیاں تو کمپنی کے استعمال کے لیے خریدی گئی ہیں‘ استعمال سے پہلے ہی انہیں کیوں بیچا جا رہا ہے۔ کوئی حساب رکھنے والا بھی نہیں کہ کتنے فیصد گاڑیاں کمپنی نے استعمال کیں اور کتنی گاڑیاں بیچ دیں۔ نہ ہی یہ پوچھا جاتا ہے کہ کمپنی کے نام سے جنہیں گاڑیاں ٹرانسفر ہوئی ہیں‘ وہ واقعی کمپنی کے ملازم بھی ہیں یا نہیں۔ یہاں پر کار کمپنیوں اور حکومت نے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ سرکاری فائلوں کا پیٹ بھرنے کیلئے مختلف کاغذات جمع کیے جا رہے ہیں۔ حقیقت میں پریمیم یا اون منی کو روکنے میں کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔
میں یہاں بتاتا چلوں کہ پریمیم پرگاڑیوں کی فروخت میں سیلزمین کے علاوہ ڈیلرشپ بھی مکمل طور پر شامل ہوتی ہے۔ جن برانڈز کی گاڑیوں کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے‘ اس میں ڈیلر شپ کا شیئر بھی طے ہوتا ہے جو عمومی طور پر چالیس اور ساٹھ فیصد ہوتا ہے۔ یعنی اون منی کا چالیس فیصد ڈیلرشپ کو جائے گا اور ساٹھ فیصد انویسٹر کو ملے گا۔ یہ شرائط گاڑیاں بُک کرتے وقت طے کر لی جاتی ہیں۔ انہیں ضبطِ تحریر میں نہیں لایا جاتا البتہ زبانی کلامی طے کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے استعمال کے لیے گاڑی بُک کروائے اور گاڑی کی ڈیلیوری کے بعد اسے شو روم سے ہی بیچنے کی بات کرے تو اسے اجازت نہیں دی جاتی۔ اگر اجازت ملتی ہے تو اس ڈیل پر کہ اون منی چالیس‘ ساٹھ کے تناسب سے تقسیم ہو گی۔ اس کاروبار میں گاڑی شو روم سے نکالنا سب سے اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ کیسے کسٹمرز کو بتائے بغیر گاڑیاں شو روم سے نکال کر بیچ دی جاتی ہیں اور کس طرح ایک مہینہ رقم استعمال کرنے کے بعد کسٹمر کو آگاہ کیا جاتا ہے‘ اس کا ذکر میں اگلے کالم میں کروں گا۔(جاری)