ٹرمپ نے 2016ء کے صدارتی انتخاب کے موقع پر سفید فام لوگوں میں عصبیت کو کمالِ مہارت سے ابھارا اور اپنی حریف ہلیری کلنٹن کے مقابلے میں پاپولر ووٹ کم ہونے کے باوجود الیکٹورل ووٹ زیادہ ہونے کے سبب صدارتی انتخاب جیت لیا۔ امریکا اور مغربی ممالک تیسری دنیا کے ملکوں میں مذہبی، قبائلی، لسانی اور صوبائی عصبیتوں کو ابھار کر انتشار پیدا کرکے ملکوں کو تقسیم بھی کرتے رہے ہیں۔ 1971ء میں ایسی ہی سازش کے ذریعے پاکستان کو دولخت کیا گیا، ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان کی علیحدگی بھی اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے ابتدائی دور میںاسلامک ٹیررازم کی اصطلاح نفرت و حقارت کے ساتھ بارہا استعمال کی، انہوں نے سفید فام نوجوانوں کوMAGA یعنی امریکہ کو عظیم بنائوکا نعرہ دیا، اس کا مقصد یہ تھا کہ امریکا کو ماضی کی طرف لے جایا جائے جب سفید فام نسل والوں کو سیاہ فام امریکیوں پر برتری حاصل تھی اور وہ اول درجے کے شہری سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے امیگریشن پر پابندیاں عائد کیں تاکہ تارکینِ وطن کی آمد رُک جائے اور سفید فام لوگوں کی عددی برتری قائم رہے، ان کے روزگار پر دوسرے لوگ قابض نہ ہوں، اس مقصد کے لیے انہوں نے چین کی درآمدات پر مختلف قسم کے ٹیکسز عائد کیے تاکہ امریکی مصنوعات کے لیے مسابقت ممکن ہو سکے۔ اس عصبیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدارتی انتخاب میں شکست کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کو جو بائیڈن81283485 کے ووٹوں کے مقابلے میں74223744 پاپولر وو ٹ ملے جو ماضی کے کئی جیتنے والے صدور سے زیادہ ہیں۔ یہ اس کے باوجود ہوا کہ انتخابات سے پہلے پولیس کے ہاتھوں ظالمانہ اندازمیں مارے جانے والے سیاہ فام جارج فلائیڈ کے قتل کے ردعمل میں ''سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی قدر و قیمت رکھتی ہیں‘‘ کی مؤثر تحریک چلی۔ ٹرمپ نے پہلے تو یہ کہا کہ وہ میکسیکوکو مجبورکریں گے کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنی سرحد پر دیوارتعمیر کرے، مگر میکسیکو کے انکار کے بعد ٹرمپ نے کانگریس سے بجٹ منظورکرا کے یہ کام خود انجام دیا۔ ''سب سے پہلے امریکا‘‘ کے نعرے پر ٹرمپ نے کسی حد تک عمل بھی کیا، امریکا کو کسی نئی جنگ میں نہیں جھونکا بلکہ شام کی جنگ سے نکالا اور افغانستان کی جنگ سے بھی امریکا کو نکالنے کا منصوبہ تھا، طالبان کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کیے، امریکی افواج کے انخلا کا وعدہ کیا اور اس کے تحت افواج کی تعداد بھی کم کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی سوچ پر بتدریج عمل بھی کر رہے تھے۔ انہوں نے اپناعہدِ صدارت غیر سنجیدہ اور جذباتی اندازمیں گزارا، اپنی ٹیم میں افراد کو لیتے بھی رہے اور برطرف بھی کرتے رہے، یعنی شخصی احترام اور وضع داری ان کے مزاج کا حصہ نہیں۔
تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ ایف بی آئی نے وارننگ جاری کی ہے کہ حلف برداری کے موقع پر کیپٹل ہل کے ساتھ ساتھ پچاس ریاستوں کے دارالحکومتوں اور واشنگٹن ڈی سی میں پُرتشدد مظاہرے ہو سکتے ہیں، یہ خدشہ بھی ظاہرکیا گیا ہے کہ کیپٹل ہل کے محاصرے نے بائیں بازو کے شد ت پسندوں کو بھی یہ موقع فراہم کیا ہے کہ دائیں بازو والوں کو تباہ کر دیں۔ اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں: ''خودکش فضائی حملہ یا ڈرون اٹیک وغیرہ‘‘، یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میںدو ہفتے کے لیے ہنگامی حالات کا نفاذ کر دیا گیا ہے، اس سے پہلے چند دنوں کے لیے رات کا کرفیو بھی نافذ کیا گیا تھا۔ واشنگٹن ڈی سی میں مختلف ریاستوں سے 20 ہزار نیشنل گارڈز طلب کیے گئے ہیں۔
امریکا کا دفاعی مرکز پینٹاگون 6 جنوری تک تو خاموش رہا، جبکہ کیپٹل ہل پر براہِ راست حملہ کیا جا چکا تھا، مگر 12جنوری کو پینٹاگون سے سات جنرلوں اور ایک ایڈمرل نے اپنی مسلح افواج کے لیے ایک مشترکہ داخلی میمو جاری کیا، اس میں کہا گیا ہے: ''6 جنوری کو واشنگٹن ڈی سی میں تشدد ہماری کانگریس، کیپٹل بلڈنگ اور ہمارے آئین پر براہِ راست حملہ تھا، مسلح افواج امریکی دستور کے تحفظ کی پابند ہیں۔ اظہارِ رائے اور اجتماع کی آزادی کی آڑمیں کسی شخص کو تشدد اور بغاوت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔20 جنوری کو منصوبے کے مطابق بائیڈن امریکا کے 46ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے، ہمارے کمانڈر انچیف ہوں گے۔ ہمارے دستوری طریقہ کار میں خلل ڈالنا ہماری روایات، اقدار، ہمارے حلف اور ہمارے قانون کے خلاف ہے‘‘۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس مارک ملی گزشتہ ہفتے سیاسی معاملات سے الگ تھلگ رہے، بلکہ وہ ٹرمپ کے ساتھ چرچ بھی گئے، یعنی انہیں اپنی منصبی اور آئینی ذمہ داریوں کا احساس دیر سے ہوا۔ 6جنوری کے واقعات سے پہلے ٹرمپ انتخابات کو بدلنے کے لیے وزارتِ دفاع کو مدد کے لیے دہائی دے چکے تھے۔ اب پینٹاگون نے یکسوئی اختیار کی ہے اور کہا ہے کہ ایف بی آئی کے ساتھ مل کر کیپٹل ہل کے حملہ آوروں کو تلاش کیا جائے گا اور انہیں قانون کے حوالے کیا جائے گا، نیز حلف برداری کے موقع پر وائٹ ہائوس پر مامور 10 ہزار جوانوں کی سکریننگ بھی کی جائے گی کہ کوئی شدت پسند اُن میں شامل نہ ہو۔
امریکی تجربے سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ محض دستوری دستاویز کسی ملک کے تحفظ، بقا، سلامتی اور استحکام کی ضمانت نہیں ہو سکتی، بلکہ روایات، اقدار اور اداروں کا استحکام ہی آزاد اور غیور قوموں کا افتخار اور آئینی تسلسل کی ضمانت ہوتا ہے،ورنہ دستور تو ہمارے ہاں بھی موجود ہے، لیکن اس کے ہوتے ہوئے ہمارے ہاں دستور سے انحراف کے ادوار آتے رہے اور آج تک اپنی اپنی آئینی حدود میں ادارے مستحکم نہ ہو سکے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جمہوری مَمالک اپنے ملک کے عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جُمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: ''Government of the people, for the people, by the people‘‘۔ یعنی عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے‘‘، مگر اسے اس طرح بدل دیا گیا ہے : ''Government off the people, far the people, buy the people یعنی عوام کو سائیڈ لائن پر رکھو، اپنے آپ سے دور رکھو اور مشکل پیش آئے تو بندے کی قیمت لگا دو‘‘۔ برطانوی عوام نے ریفرنڈم کے ذریعے یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو تین وزرائے اعظم (ڈیوڈکیمرون اور دو مرتبہ ٹریسا مے) کی قربانی دینے اور دو وسط مدتی انتخابات کی مشقت سے گزرنے کے بعد عوام کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے 31 دسمبر 2020ء کو بریگزٹ یعنی یورپی یونین سے برطانوی خروج کا عمل مکمل ہوا۔
امریکا کے انتخابی نظام کی پیچیدگی بہرحال قائم ہے، یہ طولانی عمل ہے اور ''ون مین ون ووٹ‘‘ کی بنیاد پر مکمل جُمہوری بھی نہیں ہے، کبھی بھی اسے سبوتاژ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ 50 امریکی ریاستوں کے الیکشن کمیشن الگ الگ ہیں، الیکٹورل کالج کے انتخابات بھی مرکزی سطح پر نہیں ہوتے بلکہ تمام ریاستوں میں الگ الگ ہوتے ہیں، پھر ہر ریاست کا سیکرٹری آف سٹیٹ وہ نتائج کانگریس کے پاس بھیجتا ہے اور کانگریس ایوان نمائندگان کے سپیکر اور نائب صدر، جو بالحاظ عہدہ سینیٹ کا صدر ہوتا ہے، کی صدارت میں الیکٹورل کالج کے انتخابات کی توثیق کی جاتی ہے۔ 3 نومبر 2020ء سے 6 جنوری 2021ء تک صدارتی انتخاب کے مراحل کی تکمیل ایک تکلیف دہ عمل تھا، اس نے نہ صرف اہل امریکا کی سانسیں روکے رکھیں بلکہ دیگر عالمی قوتوں کو بھی متاثر کیے رکھا، کیونکہ ٹرمپ کی غیر یقینی شخصیت کے بارے میں ہر ایک متفکر تھا کہ کسی بھی وقت وہ کوئی خطرناک اقدام کر سکتے ہیں۔ آخرکار 6 جنوری کو کیپٹل ہل یعنی کانگریس کے دفاتر پر حملہ ہو ہی گیا۔امریکا میں دستوری ترمیم ہمارے ملک کی طرح آسان کام نہیں ہے۔ 1789ء سے اب تک امریکی دستور میں کل 33 ترامیم ہوئی ہیں جبکہ 1973ء سے اب تک ہمارے دستور میں 26 ترامیم ہو چکی ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جدید جُمہوری ممالک میں دستور میں ترمیم کتنا مشکل کام ہے۔ جمعرات کی صبح تک صورت حال یہ ہے کہ 197 کے مقابلے میں 232 ووٹوں کی اکثریت سے ایوان نمائندگان نے ٹرمپ کی مواخذے کی تحریک منظورکر لی ہے اور اس کی مزید کارروائی سینیٹ میں ہو گی۔
ان کی مدتِ صدارت کے اختتام سے ایک ہفتہ پہلے پیش کی جانے والی اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ ٹرمپ کو 2024ء کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے، ورنہ وہ 4 سال تک سفید فا م لوگوں میں منظم طریقے سے نفرت اور عصبیت کو ابھاریں گے اور کوئی بعید نہیں کہ وہ اگلا انتخاب پھر جیت کر امریکا کے لیے نئے مسائل پیدا کریں، یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ مخالف ریپبلکن سینیٹر مچ مکولن نے کہا: ''مواخذے سے ریپبلکن پارٹی کو ٹرمپ سے نجات ملے گی‘‘۔ سینیٹر ٹیسٹر نے کہا: ''ارکانِ کانگریس کو بھی ذمہ دار قرار دینا چاہیے‘‘۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر ریپبلکن نے انہیں ردّ کر دیا تو وہ نئی پارٹی بھی بنا سکتے ہیں اور قانونی ماہرین سے اس پر بھی مشورہ کر رہے ہیں کہ صدارتی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو معاف کر دیں۔ مواخذے کی تحریک منظور ہونے کے بعد ٹرمپ نے وڈیو پیغام میں کہا: ''امریکی جذبات کو قابو میں رکھیں، تشدد سے گریز کریں اور متحد ہو کر آگے بڑھیں‘‘۔ اب تو پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے۔
مشہور جریدے ''فارن افیئرز‘‘میں لکھا ہے: ''امریکا کی داخلی صورت حال بھی سرد جنگ کے دور سے یکسرمختلف دکھائی دیتی ہے، امریکی سوسائٹی میں ووٹرز اس وقت بھی منقسم تھے، لیکن جو تقسیم، تعطل اور تعصب کی صورت حال اب امریکی سیاست میں ہے، ایسی سرد جنگ کے وقت بھی نہ تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نہ صرف اندرونی طور پر بلکہ بیرونی دنیا میں بھی اپنے مقاصد اور منزل سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ امریکا کا موقف اور اس کا قد کاٹھ اتنی تنزلی کا شکارکبھی نہیں ہوا تھا، جتنا کہ ٹرمپ دور میں ہوا ہے، حالت یہ ہو گئی ہے کہ واشنگٹن کے قریب ترین اتحادی بھی اسے قابل اعتماد شراکت دارسمجھنے کو تیار نہیں ہیں‘‘۔
ٹرمپ کے دور میں امریکا نے یورپی ممالک کے اعتماد کو بھی مجروح کیا۔ ٹرمپ نے عالمی ادارۂ صحت سے بھی علیحدگی اختیار کی۔ پیرس میں 2015ء میں جو عالمی ماحولیاتی معاہدہ ہوا تھا اور جسے 2020ء میں نافذ العمل ہونا تھا، ٹرمپ نے اس سے بھی یک طرفہ طور پر علیحدگی اختیار کر لی۔ اسی طرح عالمی قوتوں نے 2015ء میں ایران کے ساتھ جوہری عمل کو محدود کرنے کا جو جامع معاہدہ کیا تھا، اس سے بھی ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر علیحدگی اختیارکر کے ایران پر پابندیاں عائد کر دیں، جبکہ معاہدے کے دیگر شرکا مسلسل اصرارکرتے رہے کہ ہم اس پر قائم ہیں۔ اس سے یہ تاثر قائم ہوا کہ باقی دنیا تو چھوڑیے، امریکا اپنے قریبی اتحادیوں کے ساتھ بھی مل کر چلنے کے لیے تیار نہیں ہے،اگرچہ امریکا تاحال دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور حربی طاقت ہے، مگر عالمی قیادت کے لیے جس اعتبار اور اخلاقی برتری کی ضرورت ہوتی ہے، ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا اس سے محروم ہو چکا ہے۔ پس جو بائیڈن کو ایک طرف اپنے ملک و قوم کو داخلی انتشار سے نکالنا ہے تو دوسری طرف عالمی اعتماد کی بحالی کا اہم چیلنج بھی انہیں درپیش ہوگا۔ ٹرمپ روس کے ساتھ تخفیفِ اسلحہ کے معاہدے کو بھی یک طرفہ طور پر ختم کر چکے ہیں، چین کے ساتھ تنائو بھی انتہا پر ہے۔ ماضی کی سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین ایک طرح سے بند چار دیواری میں تھا، لیکن چین اور امریکا دونوں کا تجارتی میدان میں ایک دوسرے پر انحصار ہے اور یک طرفہ طور پر نکلنا کسی بھی فریق کے لیے آسان نہیں ہے، اس لیے چین کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کی بحالی کے لیے بھی بائیڈن کو از سر نو کام کرنا ہوگا۔