تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     17-01-2021

رحمان ملک اور سنتھیا کی صلح صفائی

گو کہ 2020 میں ڈالر کی شرح تبادلہ اور سونے کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہوا‘ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ گزشتہ برس پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اگر کسی چیز میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا تھا وہ ہمارے پیارے رحمان ملک کی عزت کی قیمت تھی۔ آپ حیران ہوں گے کہ بھلا یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ آپ کی حیرانی اپنی جگہ درست لیکن عدالتی کارروائی کے دوران ان کی عزت کی قدروقیمت میں اضافہ تو یہی بتاتا ہے۔
امریکی بلاگر خاتون سنتھیا رچی نے جب ہمارے باعزت سابق وزیر داخلہ رحمان ملک پر ریپ کا الزام لگایا تو جواباً رحمان ملک نے سنتھیا رچی پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر دیا تھا۔ شروع شروع میں رحمان ملک نے اپنی عزت کی قدر و قیمت کا خود ہی غلط اندازہ لگایا‘ اس Self assessment میں اپنے بارے میں اندازہ لگاتے ہوئے خود کو Under estimate کر بیٹھے اور محض پچاس کروڑ روپے کا دعویٰ دائر کر دیا۔ شاہ جی ایک انتہائی شرپسند اور مفسد آدمی ہیں۔ وہ تبھی کہنے لگے کہ اتنے پیسوں میں تو ملک صاحب سے کئی گنا زیادہ عزت دار آدمی چار چھ دفعہ اپنی عزت خراب کروا سکتا ہے؛ تاہم ہمیں شاہ جی کی دیگر کئی باتوں کی طرح اس بات سے بھی اتفاق نہیں تھا‘ لیکن خیر چھوڑیں، اس کے بعد ہوا یوں کہ چند روز بعد ہی رحمان ملک نے سنتھیا رچی پر ایک اور دعویٰ دے مارا اور اب کی بار انہوں نے ہتک عزت کے دعوے میں پانچ ارب روپے ہرجانے کا یا غیر مشروط معافی کا مطالبہ کر دیا۔ غیر مشروط معافی پر تو چار حرف بھیجیں لیکن یہ دیکھیں کہ چند دن کے اندر اندر ہی رحمان ملک کو اندازہ ہوا کہ ان کی عزت پچاس کروڑ کی نہیں بلکہ پانچ ارب روپے کی ہے ‘ یعنی نہ ہینگ لگی نہ پھٹکڑی اور ملک صاحب کی عزت بیٹھے بٹھائے دس گنا زیادہ قیمتی ہو گئی۔
اللہ جانے کسی نے رحمان ملک کو مشورہ دیا یا پھر خود ہی انہوں نے اپنی عزت کے بارے میں ایک بار پھر خود تشخیصی نظام کو بروئے کار لاتے ہوئے نیب کے ضمنی ریفرنس کی طرز پر ایک ترمیم شدہ ضمنی خود تشخیصی اندازہ لگایا اور اپنی عزت کی قیمت میں مزید دس گنا اضافہ کرتے ہوئے ایک عدد دعویٰ ٹھوک دیا جس میں انہوں نے ہتک عزت کے عوض ہرجانے کی رقم پچاس ارب روپے کر دی۔ یہ بات تو طے ہے کہ چند روز کے اندر اندر کسی عزت کی قدر کا پچاس کروڑ سے پچاس ارب تک پہنچ جانا دنیا بھر کی عزت کی سٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہے۔ دنیا بھر کی تاریخ میں کسی بھی سٹاک ایکسچینج مارکیٹ میں کسی چیز کے حصص میں اس قدر تیزی کی کوئی مثال کم از کم اس عاجز کے علم میں تو ہرگز نہیں ہے۔
میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ قبلہ شاہ جی ایک شرپسند اور مفسد آدمی ہیں اور محض شوقیہ بنیادوں پر فساد فی الارض کی ترویج میں مصروف رہتے ہیں۔ تبھی کہنے لگے کہ آپ لوگ دیکھنا‘ ایک دن یہ سارا معاملہ باہمی صلح صفائی پر منتج ہو گا اور فریقین اپنی اپنی عزت کا سودا بلا معاوضہ اور غیر مشروط طور پر رضا کارانہ طور پر کر لیں گے۔ میں نے کہا: شاہ جی! تو پھر اس ساری دعوے بازی کی کیا ضرورت تھی؟ شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے: عزیزم! یہ سارا چکر محض مارکیٹ میں اپنی عزت کی قدر کو پکا کرنے کی غرض میں چلایا جا رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ شاہ جی! آپ ماشاء اللہ ایسے معاملات سے بہت زیادہ دلچسپی بھی رکھتے ہیں اور اس دلچسپی کے طفیل حاصل ہونے والی معلومات کے حوالے سے ہم جیسے کم علم لوگوں سے بہت زیادہ باخبر ہیں تو یہ بتائیں کہ سنتھیا رچی کے الزام میں کتنی حقیقت ہے؟ شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے: اعمش سے روایت ہے کہ ایک شخص امام شعبی کے پاس آیا اور پوچھا: ابلیس کی بیوی کا کیا نام ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں اس شادی میں شریک نہیں ہوا تھا۔ یہ کہہ کر شاہ جی مسکرائے اور کہنے لگے: میرا خیال ہے تمہیں میری بات کی سمجھ آ گئی ہو گی۔ میں نے اقرار میں سر ہلا دیا۔
پھر میں نے پوچھا‘ شاہ جی اگر ناگوار خاطر نہ ہو اور آپ کی طبیعت مکُدّر نہ ہو تو ایک سوال اور پوچھ سکتا ہوں؟ شاہ جی نے بہ کمال مہربانی اجازت عطا کر دی۔ میں نے کہا: شاہ جی یہ اپنے ملک صاحب نے اپنی عزت کی قدر میں اضافہ اس طرح بالاقساط کیوں کیا تھا؟ ایک دم سے اپنی عزت کی قدر کی تشخیص درست کیوں نہیں کی تھی؟ شاہ جی مسکرائے اور کہنے لگے: تم نے بڑے عرصے کے بعد کوئی معقول سوال کیا ہے اور کوئی عقل کی بات کی ہے۔ پھر کہنے لگے: پہلے پہل جب انہوں نے ہتک عزت کے دعوے میں رقم درج کی تو اپنی عزت کی قدر کا اندازہ انہوں نے رحمان ملک بطور ملازم پروٹیکٹوریٹ آف امیگرینٹس کے حساب سے لگایا۔ پھر اس کو مسترد کرتے ہوئے بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے میں ڈیپوٹیشن کے سٹیٹس کو بنیاد بنایا اور پھر چار چھ سے ضرب دے کر پچاس کروڑ روپے کا ہرجانہ ٹھوک دیا۔
پھر شاید انہیں یاد آیا کہ وہ تو ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل بھی رہے ہیں سو انہوں نے اپنے پہلے دعوے میں ترمیم کرتے ہوئے اپنی عزت کی قدرومنزلت میں اضافہ فرمایا اور ہرجانے کی رقم بڑھا کر پانچ ارب کر دی۔ پھر خیال آیا کہ میں نے مملکت خداداد پاکستان کا وزیر داخلہ رہا ہوں۔ لندن ایجوئر روڈ پر میرا وسیع و عریض فلیٹ ہے۔ لندن کی مصروف ترین سڑک پر میرا سب وے ہے اور پاکستان کا وزیر داخلہ بننے سے قبل برطانوی شہری رہا ہوں‘ لہٰذا پانچ ارب کی رقم اس سٹیٹس کے حامل شخص کے لیے کم ہے تو انہوں نے اسے بڑھا کر پچاس ارب کر دیا۔ بات مجھے سمجھ آ گئی تھی، لہٰذا میں نے مزید سوالات بند کر دیئے اور شاہ جی سے سلام دعا کرکے گھر آ گیا۔
تین روز قبل اخبارات میں پڑھا کہ رحمان ملک اور سنتھیا رچی نے باہم رضا مندی سے ایک دوسرے کے خلاف عدالتی دعویٰ جات ختم کرنے کی درخواستیں دے دی ہیں تو مجھے شاہ جی کی بات یاد آ گئی جو انہوں نے قریب چھ ماہ پہلے کہی تھی کہ ہر دو فریقین بالآخر بقائمیٔ ہوش و حواس، بلا جبروکراہ اپنی آزادانہ رضا مندی سے سارے کیسز واپس لے لیں گے۔ میں نے شاہ جی کو فون کرکے پوچھا: شاہ جی آپ کو کیسے پتا تھا کہ رحمان ملک اور سنتھیا رچی میں صلح ہو جائے گی؟ شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے : بھائی جان!ہر دو فریقین جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں وہاں ایسے معاملات عزت کا مسئلہ نہیں ہوتے۔ یہ آپ جیسے لوئر مڈل کلاس کے لوگوں کے مسائل ہیں۔ میں نے پوچھا: اب ہم کیا اندازہ لگائیں، سنتھیا رچی سچی تھی یا رحمان ملک بے گناہ تھے؟ جب معاملہ عدالت میں تھا تو کم از کم دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی تو ہونا چاہیے تھا۔ شاہ جی کہنے لگے یہ اس ملک میں سدا سے ہو رہا ہے اور آئندہ بھی اسی طرح چلتا رہے گا۔ جب جی چاہے الزام لگا دو اور جب دل چاہے واپس لے لو۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ میں نے پوچھا: اور وہ سنتھیا رچی اور یوسف رضا گیلانی کے آپس میں ہرجانوں کے دعووں کا کیا بنا؟ شاہ جی کہنے لگے: نتیجے کا تو پتا نہیں؛ البتہ ان دعووں سے ایک بات سامنے آئی تھی کہ سنتھیا رچی کی عزت بارہ کروڑ روپے کی تھی اور سید یوسف رضا گیلانی کی عزت کی قدر دس کروڑ روپے کی تھی۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: شاہ جی یہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں؟ شاہ جی کہنے لگے: یہ میں نہیں کہہ رہا۔ فریقین نے اپنی عزت کی خود تشخیصی نظام کے تحت ہی قیمت لگائی تھی اور اسی ہرجانے کا دعویٰ کیا تھا۔ میری کیا مجال کہ اتنے بڑے لوگوں کی عزت کی قیمت لگاتا پھروں۔ یہ کہہ کر شاہ جی نے فون بند کر دیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved