لندن ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کو 28.7 ملین ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑا ہے۔ جرمانہ آف شور فرم براڈ شیٹ ایل ایل سی کو احتساب کے ادارے کی طرف سے معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے پر کیا گیا ہے۔ تقریباً 20 سال قبل جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں درجنوں پاکستانیوں کے مبینہ غیرملکی اثاثوں کی تلاش کے لیے براڈ شیٹ فرم کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ براڈ شیٹ اور احتساب کے ادارے نے 20 جون 2000ء کو دو سو پاکستانیوں کے غیرملکی اثاثوں کا سراغ لگانے کے لیے معاہدہ کیا تھا۔ معاہدے کے تحت براڈشیٹ کو پتا لگائے گئے اثاثوں کی مالیت کا 20 فیصد ادا کیا جانا تھا۔ 2003ء میں احتساب کے ادارے نے معاہدہ یہ کہہ کر ختم کردیا کہ فرم کی جانب سے کوئی قابل عمل اطلاعات فراہم نہیں کی گئیں۔ دوسری جانب براڈ شیٹ کے مطابق انہوں نے معاہدے کے مطابق پاکستان کو قابل ذکر معلومات فراہم کی تھیں اور احتساب کے ادارے نے انہی معلومات کی بنیاد پر ہی معلومات سے متعلقہ افراد سے ڈیل کر لی تھی۔
براڈ شیٹ سکینڈل کے بارے میں دو تناظر میں بات کی جا سکتی ہے۔ پہلا‘ پاکستان کے سیاسی نظام میں نظریہ ضرورت کے تحت ہونے والے احتساب کی، اور دوسرا‘ پاکستان کو ہونے والے مالی نقصان کی۔ سیاسی پہلو کی بات کریں تو اس سکینڈل کے بعد ہمارے ہاں احتساب اور سیاسی نظام کا گند سامنے آرہا ہے۔ عجیب و غریب صورتحال بن گئی ہے۔ آدھی باتوں کو نون لیگ سچ مان کر حکومت پر تنقید کر رہی ہے لیکن آدھی باتوں کو جھوٹ قرار دے رہی ہے۔ دوسری جانب حکومت بھی ایسا ہی کررہی ہے۔ حکومتی وزرا اور ترجمان بھی اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔ دونوں جانب سے میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو کرکے‘ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ موسوی کے انکشافات کے اس حصے کو‘ جس سے آپ سیاسی فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ تو آپ سچ مانیں اور دوسرے جس میں خود آپ پر سوال اٹھ رہے ہیں، اس سے انکار کر دیں۔ اب یا تو دونوں ہی گندے ہیں یا پھر دونوں ہی صاف ہیں۔ بنظرِ غائر جائزہ لیں تو کاوے موسوی نے پاکستان کے نظامِ حکومت پر سوال اٹھا دئیے ہیں۔ ایک ایسا شخص جس کو لندن میں کوئی پوچھتا نہیں، جس کی اپنی کمپنی لیکوڈیشن میں ہے یوں کہیں کہ دیوالیہ ہو چکی ہے، وہ پورے پاکستان کو نچا رہا ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ فائدہ خود کاوے موسوی اٹھا رہا ہے، جس نے ناصرف تقریباً 29 ملین ڈالر کما لیے ہیں بلکہ خود کو پاکستانیوں کے نظروں میں ہیرو بھی بنایا ہوا ہے، اور پاکستانی سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں اور احتساب کے ادارے تینوں کو چارج شیٹ کر کے بددیانت بھی قرار دے رہا ہے۔
یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اتنی خطیر رقم کیوں ادا کرنا پڑی۔ میں یہ بھی واضح کر دوں کہ 2008ء سے اب تک پاکستانی حکومتوں اور احتساب کے ادارے کی جانب سے براڈشیٹ کیس میں مختلف کمپنیوں کو 32 ملین ڈالرز کی ادائیگیاں کی گئی ہیں اور ان 32 ملین ڈالرز کے علاوہ کئی ملین ڈالرز فیس کی مد میں ادا کیے گئے ہیں۔ بعض ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ براڈشیٹ کے تعلقات پاکستان کی کئی اہم شخصیات سے ہیں۔ اس بار جرمانے کی رقم‘ جو 29 ملین ڈالرز بنتی ہے‘ کی ادائیگی دسمبر 2020ء میں کی گئی جب ملک میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ ادھر ایک تحقیقاتی صحافی کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے صاف ہدایت تھی کہ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکائونٹ میں کم سے کم رقم رکھی جائے، اس ہدایت کے باوجود پاکستانی ہائی کمیشن کے اکائونٹ میں اتنی بڑی رقم کیوں رکھی گئی جبکہ کیس چل رہا تھا۔ دوسری جانب سفارت خانوں اور ہائی کمیشنوں کے اکاؤنٹس میں اتنی خطیر رقم پڑی ہونا تعجب کی بات ہے اور لازمی اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا یہ سب ایک ملی بھگت تو نہیں تھی؟
لندن کی عدالت نے براڈ شیٹ کو نیب کی جانب سے واجب الادا جرمانے کی عدم ادائیگی پر لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے اکاؤنٹس سے 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز ڈیبٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے 2018 میں نیب کے خلاف 2 کروڑ ڈالر جرمانہ عائد کیا اور امریکی کمپنی کو جرمانہ ادا نہ کرنے پر دو سال میں 90 لاکھ ڈالر سود بھی شامل ہو گیا۔ پاکستانی حکومت اب تک اس مقدمے میں 50 ملین ڈالرز سے زائد کی رقم ادا کر چکی ہے‘ جس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ براڈ شیٹ کے 550 ملین ڈالرز کے دعوے کے مقابلے میں 290 ملین ڈالرز جرمانہ عائد ہوا۔ احتساب کے ادارے کی جانب سے رقم ادا نہ کیے جانے کے بعد عدالتی حکم پر پاکستان ہائی کمیشن کا اکائونٹ بھی منجمد کر دیا گیا۔ اگر ہم اب تک ادا کی گئی اربوں روپے کی رقم کا جائزہ لیں تو ان اربوں روپوں سے ملک میں 4 یونیورسٹیاں، درجنوں کالج، سینکڑوں سکول، 100 بیڈز کے کئی ہسپتال اور یا پھر کئی کلومیٹرز لمبی سڑکیں بن سکتی تھیں۔
برطانوی ماہرین قانون کے مطابق براڈ شیٹ کے مقدمے میں غفلت نہیں بلکہ مجرمانہ نااہلی ثابت ہوئی ہے‘ جس کی وجہ نیب کے معاملات میں پارلیمانی، عدالتی و ادارہ جاتی نگرانی کا نہ ہونا ہے۔ احتساب کے ادارے نے یہ معاہدہ کرتے وقت نہ تو اٹارنی جنرل آفس سے مشاورت کی اور نہ ہی دفتر خارجہ یا ہائی کمیشن سے مدد لی گئی، بلکہ پیپرا قواعد کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ اس ضمن میں پہلے رائج قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے غیرملکی فرم سے معاہدہ کیا گیا اور پھر اسے یکطرفہ طور ختم کردیا گیا۔ عدالتی حکم نہ ماننے کے باعث پاکستان کو اب عائد جرمانے اور ساتھ سود کی رقم ادا کرنا پڑی ہے۔
اب اگر اس سارے معاملے کے سیاسی پہلو پر واپس آئیں تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ احتساب کے ادارے کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔ بقول کاوے موسوی ان کی فرم نے نیب کو لاکھوں ڈالرز مالیت کے بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگاکر ثبوت فراہم کیے اور ان سے کہاکہ وہ اس رقم کو واپس لانے کیلئے متعلقہ حکومتوں کو قانونی چارہ جوئی کی درخواست دیں اور درخواست تحریر بھی کرکے فراہم کی لیکن سیاسی اور دیگر مصلحتوں کے تحت ایسا نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے وہ آفتاب شیرپاؤ صاحب کے مبینہ اکاؤنٹ کی مثال دیتے ہیں کہ انہوں نے شیرپاؤ کے ایک لاکھوں ڈالر مالیت کے اکاؤنٹ کا سراغ نیو جرسی میں لگایا۔ نیب کو آگاہ کیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ آپ نیو جرسی میں حکام کو لکھیں تاکہ یہ رقم پاکستان لائی جا سکے ‘ لیکن ادارے نے متعلقہ حکام کو لکھا کہ ہمیں اس اکاؤنٹ سے مسئلہ نہیں ہے‘ لہٰذا اسے کھول دیا جائے ۔ اس کے بعد اس میں سے رقم نکلوا لی گئی اور بعد میں انہی شیرپاؤ صاحب کو وزیرِ داخلہ بنا دیا گیا۔ اب اگر وہ اس حوالے سے غلط بیانی کررہے ہیں تو نیب انہیں عدالت کیوں نہیں لے کر جاتی؟ اور اگر یہ سچ ہے تو سارے کرداروں کو کٹہرے میں لایا جانا چاہیے کیونکہ پاکستانیوں کے اربوں روپے ضائع کیے گئے ہیں۔
لوٹی ہوئی دولت کا ہم راگ تو بہت سنتے آئے ہیں لیکن اس حوالے سے اب اصل امتحان جناب وزیر اعظم کا ہے کہ کیا وہ واقعی کرپشن کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہتے ہیں یا صرف باتیں ہی کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ فوری طور پر لندن کی کورٹ کا فیصلہ پبلک کروائیں کیونکہ اس فیصلے میں بہت اہم تفصیلات ہیں۔ اگر مصلحت کا مظاہرہ کیا گیا کہ اس فیصلے کو پبلک کرنے سے ان کے کچھ اپنے لوگ بھی رگڑے جائیں گے اس لیے چپ ہو جانا ہی بہتر ہے تو میرے خیال میں ایسا کرکے وزیر اعظم"Mother of all NROs" دیں گے۔