پچھلے کالم میں ذکر کیا گیا تھا کہ اون منی کے کاروبار میں ہونے والے فراڈ اور بے ضابطگیوں پر بات کی جائے گی۔آئیے تفصیلی جائزہ لیتے ہیں:جب گاڑی ڈیلر شپ سے نکالی جاتی ہے تو سب سے پہلے ڈیلیوری چالان پر گاڑی مالک کے دستخط کروائے جاتے ہیں۔ اگر ایک شناختی کارڈ پر گاڑی بُک ہوئی ہے تو دستخط اور انگوٹھے لگوائے جاتے ہیں اور اگر کمپنی کے نام سے بکنگ ہے تو متعلقہ شخص کے دستخط اور کمپنی کی مہر لازمی ہوتی ہے۔بتایا یہ جاتا ہے کہ ان کاغذات کے بغیر گاڑی شو روم سے نہیں نکل سکتی۔ انویسٹر کو تسلی ہوتی ہے کوئی بھی سیلز مین یا ڈیلر شپ مالک ضرورت پڑنے پر میری گاڑی نہیں بیچے گا۔ اکثر اوقات اسی اصول کے تحت معاملات چل رہے ہوتے ہیں‘ لیکن اس اصول کی خلاف ورزی کے بھی بہت سے کیسز سامنے آتے ہیں۔اون منی کے لیے گاڑیوں میں سرمایہ کاری کرنے والے ایک شخص نے بتایا کہ اس نے ملک کی بڑی کمپنی کی ڈیلر شپ پر گاڑی بک کروائی‘جب گاڑی پہنچ گئی تو اس نے سیلز مین سے کہا کہ جب کوئی کسٹمر آئے تو پہلے میری گاڑی نکال دینا۔ عمومی طور پر ہر انویسٹر کی یہی کوشش ہوتی ہے اور سیلز مین بھی تسلیاں دینے کے ماہر ہو چکے ہوتے ہیں۔ دس دن گزر گئے لیکن گاڑی نہیں نکل رہی تھی۔ وہ چونکہ نیا انویسٹر تھا اس لیے گھبرا گیا کہ اگر گاڑی نہ بکی تو نقصان پر بیچنا پڑے گی۔ سیونگ اکاؤنٹ سے پیسہ نکلوا کر گاڑی میں انویسٹ کیا تھا۔ چار ماہ کا بینک منافع بھی نہیں ملا اور اگر کم قیمت پر بیچنا پڑ گئی تو نقصان علیحدہ۔
یاد رکھیے کہ گاڑی کی انوائس جتنی پرانی ہوتی جاتی ہے گاڑی کا اون اتنا کم ہوتا جاتا ہے۔سیلز مین اس کی حالت کو بھانپ گیا اور اسے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ابھی کسٹمر نہیں لگ رہا۔ اسی دوران سیلز مین نے وہ گاڑی بیچ دی۔ مالک کے دستخطوں کے بغیر گاڑی ڈیلر شپ سے نکال دی گئی۔ تقریباً ایک ماہ گزر جانے کے بعد سیلز مین نے کہا کہ گاڑی کی انوائس چونکہ پرانی ہو چکی ہے اس لیے اون بہت کم مل رہا ہے۔ اگر ابھی نہیں بیچوگے تو نقصان ہو جائے گا۔ انویسٹر مجبوراً سوچنے لگا کہ رقم تو واپس آئے لہٰذا سیلز مین کو گرین سگنل دے دیا۔ جب ڈیلر شپ پر جا کر اپنے چیسیز اور انجن نمبر والی گاڑی دیکھنے کی بات کی تو علم ہوا کہ وہ گاڑی تو کئی دن پہلے ہی نکل چکی ہے اور اس کی رقم بھی سیلز مین کو کیش میں موصول ہو چکی ہے۔
سیلز مین نے نہ صرف ایک ماہ تک اس کے پیسے استعمال کیے بلکہ جس شخص یا کمپنی کو گاڑی بیچی تھی اس سے ملاقات بھی نہیں کروائی‘ جو کہ اس معاملے کی طرف اشارہ تھا کہ سیلز مین نے گاڑی بھی زیادہ پریمیم لے کربیچی ہے اور مالک کو کم رقم بتائی گئی ہے۔ اگر ایسے معاملے کی تحقیق کی طرف جایا جائے تو سیلز مین آپ کا بائیکاٹ کر دے گا اور مستقبل میں گاڑیاں بیچنے میں مشکلات پیدا کرنے لگے گا‘ لہٰذا چُپ رہنے میں ہی غنیمت سمجھی جاتی ہے اور اگر گاڑی ایسی ڈیلر شپ سے بُک کروائی جائے جہاں مالک نے اس کاروبار پر پابندی لگائی ہو تو ایسے کیس میں شکایت بھی نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس بات کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کہ وہ اگلی مرتبہ آپ کی گاڑی بک نہیں کریں گے۔غیر قانونی ہونے کی وجہ سے اس طرح کے معاملات پولیس سٹیشن اور عدالتوں میں بھی کم رپورٹ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا پر بھی ایسے معاملات نہیں آ پاتے۔ کھربوں روپے کی اس مارکیٹ کی طرف میڈیا کی عدم توجہ نے کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دیتی ہے۔
میں یہاں ایک انتہائی اہم پہلو بھی آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔ یہ کاروبار پے آرڈرز پر ہوتا ہے لیکن سیلز مین آپ کو کیش ٹرانزیکشن کرنے پر زور دیتے ہیں جو کہ فراڈ کا ذریعہ بنتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ سیلز مین کیش وصول کر کے بکنگ کے کاغذ جاری کر دیتا ہے لیکن بکنگ فائل کئی دنوں تک اس کی میز میں پڑی رہتی ہے‘ یعنی کیش کمپنی میں جمع ہی نہیں کروایا جاتا۔ وہ کیش ذاتی استعمال میں لے آتا ہے اور تاخیر سے بکنگ بھیجو اتا ہے‘ جس کے نتیجے میں گاڑیوں کی ڈیلیوری میں تاخیر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سیلز مین کے پاس کئی پے آرڈرز آتے ہیں اورایک پارٹی کا پے آرڈر دوسری پارٹی کی کیش ڈیل کے عوض چپکا دیا جاتا ہے اور کیش کو کئی دن تک ذاتی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر اس کیش سے دوسری پارٹی کی بکنگ کر دی جاتی ہے‘ پھر نئی پارٹی آ جاتی ہے اور اس کا پیسہ گھمایا جاتا ہے جو کہ بالآخر فراڈ کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر تمام گاڑیاں پے آرڈرز پر بُک کروائی جائیں تو اس طرح کے فراڈ ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
سرمایہ کار کو سب سے بڑی سہولت یہ ہوتی ہے کہ اس کی گاڑی جب تک بیچی نہیں جاتی وہ ڈیلر شپ پر کھڑی رہتی ہے۔ اسے اس کی حفاظت کے لیے علیحدہ جگہ کاانتظام نہیں کرنا پڑتا۔ جن ڈیلر شپس کے مالک کمیشن نہیں لیتے وہ اکثر زور دیتے ہیں کہ گاڑی زیادہ دیر کھڑی نہ رہے اور آتے ہی نکال دی جائے۔ یہاں سیلز مین کی فیور کام آتی ہے اور وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال کر گاڑی کئی مہینوں تک بھی ڈیلر شپ پر رکھوا لیتا ہے‘ لیکن کمیشن زیادہ لیتا ہے۔ سیلز مین اپنا ریٹ بڑھانے کے لیے اون کا کاروبار شروع کرنے سے پہلے بہت سے اصول وضع کرتے ہیں جن میں سے ایک اصول یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ڈیلر شپ کی اپنی گاڑیاں پہلے بیچی جائیں گی۔ اس کے بعد انویسٹرز کی گاڑیوں کا نمبر آئے گا نتیجتاً کمیشن ریٹ بڑھایا جاتا ہے اور ڈیلر شپ کی گاڑیوں سے پہلے انویسٹرز کی گاڑیاں بکنے لگتی ہیں۔ ایک اصول یہ بھی وضع کیا جاتا ہے کہ خریدار اور انویسٹر کی ملاقات نہیں کروائی جائے گی۔ کچھ سیلز مین یہ شرط نہیں رکھتے لیکن لاکھ اصرار کرنے کے باوجود بھی ملاقات نہیں کرواتے۔ اگر کروا بھی دیں تو اگلی مرتبہ گاڑی بیچنے میں تاخیری حربے شروع کر دیے جاتے ہیں۔ اس سارے پراسس میں سب سے زیادہ بااختیار اور پیسے کمانے والا فرد سیلز مین ہوتا ہے۔ وہ انویسٹر سے کمیشن لیتا ہے‘ پریمیم کم کروانے کا لالچ دے کر خریدار سے کمیشن لیتا ہے‘ انویسٹر اور خریدار کی ملاقات نہ کروا کر پریمیم میں سے پیسہ کھاتا ہے اور گاڑی بیچ کر کمپنی سے بھی کمیشن وصول کرتا ہے۔ اس لیے سارے چور راستے بھی وہی دکھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اون منی کا کام بڑھ رہا ہے۔
سیلز مین یہ فائدہ بھی گنواتا ہے کہ اس کاروبار میں انویسٹر ہی گاڑی کا پہلا خریدار ہوتا ہے‘ اس لیے گاڑیوں پر کٹے ہوئے ایڈوانس ٹیکس کا فائدہ بھی انویسٹر کو ہی ہو گا جو کہ بلیک منی کو وائٹ کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ اگر دس کروڑ کی گاڑیاں خریدی جائیں تو اس پر سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی ادائیگی رقم کو وائٹ کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے جبکہ یہ ٹیکس وہ خریدار سے وصول بھی کر چکا ہوتا ہے۔ دوسری طرف سیلز مین خریدار کو یہ نہیں بتاتا کہ جو ٹیکس آپ ادا کر رہے ہیں وہ آپ اپنی ریٹرنز میں ظاہر نہیں کر سکتے بلکہ یوں سمجھیے کہ آپ نے ٹیکس ادا ہی نہیں کیا۔ یہ سچائی چونکہ سیل میں فرق ڈالتی ہے اس لیے چھپائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جو گاڑیاں بیچنے کے لیے بُک کروائی جاتی ہیں وہ ڈیلر شپ وقت سے پہلے بھی منگوالیتی ہے اور جو گاڑیاں استعمال کے لیے بُک کروائی جاتی ہیں ان میں جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس اصول نے بھی ڈیلر شپس کے زیادہ اون کمانے کی راہ ہموار کی ہے۔ (جاری)