پی ڈی ایم کی صفوں میں مایوسی، کارکنوں
کو تسلی دینے کے لئے جلسے کر رہی ہے: شاہ محمود
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم میں مایوسی پھیل چکی ہے جو اب کارکنوں کو تسلی دینے کے لئے جلسے کر رہی ہے‘‘ اگرچہ حکومت میں بھی کافی مایوسی پھیل چکی تھی لیکن اس کے اسباب کچھ اور تھے کیونکہ مہنگائی کے ساتھ بجلی کے ریٹ میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا حتیٰ کہ اب''گھبرانا نہیں‘‘ کی تکرار بھی چھوڑ دی گئی ہے اور اس سے پی ڈی ایم کی امیدوں اور جوش و جذبہ میں اضافہ ہونا چاہیے تھا لیکن اُلٹا انہوں نے مایوس ہونا شروع کر دیا جس سے ان کے فہم و ادراک کا صحیح معنوں میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں وفود سے ملاقات اور مختلف یونین کونسلوں کا دورہ کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم کا مقصد حکومت گرانا نہیں: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ سعدرفیق نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم کا مقصد حکومت گرانا نہیں‘‘ کیونکہ جب سے ہمیں احساس ہوا ہے کہ اتنی خاک چھاننے کے بعد بھی ہم سے حکومت نہیں گر سکتی‘ ہم نے اپنا مقصد تبدیل کر لیا ہے اور اب پی ڈی ایم کا مقصد وہی ہے جو اس بلی کا ہوتا ہے جو کھمبا نوچ رہی ہوتی ہے اور جو کھمبے کوگرانے کے لئے زور لگا لگا کر ہلکان ہو کر اپنے پنجے بھی زخمی کر چکی ہوتی ہے حتیٰ کہ اب پی ڈی ایم کے مایوس و نامراد لیڈران بھی کوئی نیا لائحہ عمل بنانے کی سوچ رہے ہیں جبکہ اب چھیچھڑوں کے خواب آنا بھی بند ہو چکے ہیں۔ آپ اگلے روز سیالکوٹ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے: غفور حیدری
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ ''حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے‘‘ اور اس لئے ہم نے اسے گرانے کا خیال دل سے نکال دیا ہے کہ جوچیز موجود ہی نہیں اس کے حوالے سے پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے اور جلسے وغیرہ بھی محض کارکنوں وغیرہ کی دل پشوری کرنے کے لئے کر رہے ہیں کیونکہ انہیں حکومت کہیں نہ کہیں ضرور نظر آ رہی ہے جنہیں تسلی دینے کی بہت کوشش کی جاتی ہے لیکن اُلٹا وہ کوسنے لگ جاتے ہیں کہ آپ کو اچھی بھلی حکومت نظر ہی نہیں آ رہی؛ چنانچہ ہم دوبارہ آنکھیں مل مل کر دیکھنے لگ جاتے ہیں لیکن ہمیں یہ نظر نہیں آ رہی۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں اسلام آباد روانگی سے قبل گفتگو کر رہے تھے۔
اپوزیشن کی سیاست اب نہیں چلے گی: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کی سیاست اب نہیں چلے گی‘‘ کیونکہ اب ہماری باری ہے اور ہم بھی یہی کچھ کر رہے ہیں کیونکہ سیاست ہوتی ہی ایسی ہے کہ کوئی شریف آدمی اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ جبکہ سیاست اگر نہ بھی چل رہی ہو تو یہی لگتا ہے کہ ٹھیک ٹھاک رفتارسے چل رہی ہے کیونکہ اسے چلانے والے بھی کچھ زیادہ مختلف لوگ نہیں ہوتے جبکہ حکومت اور اپوزیشن ایک طرح سے نہلے پر دہلا ہی ہوتی ہیں۔ آپ اگلے روز چک جھمرہ میں ہونے والے تشدد کا نوٹس لے رہے تھے۔
الیکشن کمیشن کے سامنے اپوزیشن کا مظاہرہ
اسے دھمکانے کی ایک بھونڈی کوشش ہے: شبلی فراز
سابق وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''الیکشن کمیشن کے سامنے اپوزیشن کا مظاہرہ اسے دھمکانے کی ایک بھونڈی کوشش ہے‘‘ جبکہ دھمکایا اور ڈرایا اچھے اور عمدہ طریقے سے بھی جایا جا سکتا ہے جبکہ ہم دھمکاتے نہیں بلکہ سیدھا اندر کرا دیتے ہیں اور اسی سے مخالفین کو چپ لگ جاتی ہے۔ اس لئے اپوزیشن کو چاہیے کہ دن رات احتسابی عمل کو مطعون کرنے کے بجائے وہ اس کے ساتھ راہ و رسم پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اس لئے ہم سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتے ہیں اور نہ صرف بات کرتے ہیں بلکہ چلتے بھی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
جائیدادوں‘ معاہدے سے میرا کوئی تعلق نہیں: سلیم مانڈوی والا
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ ''جائیدادوں اور معاہدے سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے‘‘ اور اگر ایسا ثابت ہوبھی جائے تو بھی اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا کیونکہ احتساب سے ہاتھی کو گھوڑا اور گھوڑے کو ہاتھی بنایا جا سکتا ہے اور ویسے بھی ہمارے لیے یہ سارے کا سارا 'سیاسی انتقام‘ ہے جو دوسری جماعتوں کے لیڈروں کی طرح میرے ساتھ بھی روا رکھا جا رہا ہے اورمیں اس کی پُرزور مذمت کرتا ہوں کیونکہ اگر خاموش رہوں تو بھی یہ آ بیل مجھے مار ہی کے مترادف ہوگا جبکہ بیل اس قدر چست و توانا ہے کہ ہر وقت مرنے مارنے پر تیار نظر آتا ہے لہٰذا حکومت کو ایسے خطرناک بیل کا کوئی مناسب بندوبست کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز نیب ترجمان کے بیان پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
مکالمہ۔ کتابی سلسلہ 50
ہمارے دوست مبین مرزا کی ادارت میں شائع ہونے والے اس عمدہ کتابی سلسلے ''مکالمہ‘‘ کا یہ پچاسواں نمبر ہے جبکہ اس کی عمدگی سائز اور ضخامت میں بھی ہے۔ موجودہ شمارے کے لکھنے والوں میں شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر نجیبہ عارف، یاسمین حمید، محمد حمزہ فاروقی، فاروق خالد، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹربصیرہ عنبرین ، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر طارق ہاشمی، محمد عثمان جامعی اور ڈاکٹر فرید حسینی شامل ہیں۔ منظومات اس بار شامل نہیں کی گئیں تاہم حصۂ نثر نے یہ کمی بھی پوری کر دی ہے کہ ممتاز شاعرہ یاسمین حمید کا ''اردو میں مقبولِ عام شعری رویے‘‘ کے عنوان سے اور ''مضمون، معنی ،استعارہ‘‘ کے عنوان سے حال ہی میں وفات پانے والی نابغہ روزگار شخصیت کے مضمون کا مطالعہ قابلِ قدر اور خاصے کی چیز ہیں جبکہ ''کووڈ 19 کی دنیا میں ادب‘‘ کے عنوان سے مدیر کا ابتدائیہ اپنی جگہ خیال انگیز ہے۔
ضروری نوٹ
پنجابی کی ہماری محبوب شاعرہ انجم قریشی اور ان کے میاں کووڈ 19میں مبتلا ہو گئے ہیں، ان کی جلد صحت یابی کے لیے قارئین سے دعا کی اپیل ہے۔
اور‘ اب پشاور سے ڈاکٹر محمد اسحق وردگ کی یہ غزل:
خاک پر بے بسی بناتا ہوں
یعنی میں زندگی بناتا ہوں
باندھ دیتا ہوں دھوپ ساحل پر
کشتیاں موم کی بناتا ہوں
نیند سے اور کچھ نہیں بنتا
اس لئے خواب ہی بناتا ہوں
سانس ہوتا ہے زندگی کے لیے
اس سے میں خودکشی بناتا ہوں
یہ ضرورت ہے شہر والوں کی
اس لئے سادگی بناتا ہوں
میری تکمیل ہو نہ جائے کہیں
روز خود ہی کمی بناتا ہوں
حُسن مصرع اٹھانے آتا ہوں
عشق سے شاعری بناتا ہوں
اس میں سایہ کہاں سے بنتا ہے
میں تو دیوار ہی بناتا ہوں
ان اندھیروں سے دشمنی ہے مجھے
اس لئے روشنی بناتا ہوں
آج کا مطلع
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایا تھا