تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     19-01-2021

ہوا میں تیرتے تابوت

ہمارا پڑوسی ملک بھارت جنگی جنون میں مبتلا ہے اور اپنے دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ اس وقت کورونا کے سبب بھارتی معیشت سست روی کا شکار ہے مگر ان حالات میں بھی بھارت نے دفاعی بجٹ کو سات فیصد بڑھا دیا اور 2020-21ء کے دفاعی بجٹ میں 13 ہزار کروڑ کا اضافہ کیا گیا۔ یوں اس وقت بھارت کا دفاعی بجٹ 47کھرب بھارتی روپے (لگ بھگ 65بلین ڈالر) ہو گیا ہے۔ دنیا بھر میں بھارت وہ تیسرا ملک ہے جس نے 2019-20ء میں سب سے زیادہ فوجی اخراجات کئے۔ جنگی جنون میں مبتلا بھارت اسلحہ اور دفاعی سامان خریدتا چلا جا رہا ہے مگر دوسری طرف اس کی فوج شدید مایوسی کا شکار ہے۔ بھارتی فوجی اس وقت خوارک کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہے اور مسلسل ڈیوٹی، سینئرز کے ناروا سلوک اور چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے نچلے درجے کے فوجی خودکشیاں کررہے ہیں۔ بھارت یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ جدید اسلحہ‘ دفاعی سامان اور جنگی جہاز کسی کام کے نہیں اگر فوج مایوسی کا شکار ہو۔ بھارت میں وزراتِ دفاع اور عسکری شعبے میں بدعنوانی عروج پر ہے۔ سیاست دانوں اور فوج میں ایک خلیج حائل ہے اور دفاعی معاہدوں میں مسلسل کرپشن کے باعث عام بھارتی فوجیوں کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ خالی پیٹ بھارتی فوجی اسلحہ اٹھا کر جنگ لڑنے سے قاصر ہیں۔
2009ء سے 2014ء تک 598 بھارتی فوجیوں نے خودکشی کی۔ 2015ء میں 69 بھارتی فوجیوں نے خود کو موت کی نیند سلا یا۔ خاص طور پر مقبوضہ کشمیر بھارتی افواج کا شمشان گھاٹ ثابت ہو رہا ہے۔ ایک طرف کشمیری عوام میں ان کے لیے نفرت پائی جاتی ہے تو دوسری طرف حکومت فالس فلیگ آپریشن میں اپنے فوجیوں کو مروا رہی ہے۔ پلوامہ کے ڈرامے کے بے نقاب ہونے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بھارت کے لیے فوجیوں کی جان کی قیمت سیاسی مفادات کے برابر بھی نہیں۔ اگر مقبوضہ کشمیر کی بات کریں تو صرف اکتوبر 2020ء میں 7 اہلکاروں نے خود کو گولی مار کر خودکشی کی۔ دسمبر 2020ء میں بھارتی فوج کے ایک جونیئر کمیشنڈ آفسیر نے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کی۔
اگر انڈین ایئر فورس کی بات کریں وہ بھی شدید دبائو کا شکار ہے۔ 27 فروری 2019ء کو اس نے پاکستان کے ہاتھوں جو سبکی اٹھائی‘ اس کی وجہ سے اس کا مورال انتہائی ڈائون ہے۔ مگ 21 اور سُو تھرٹی کو پاک فضائیہ کی طرف سے نشانہ بنایا گیا اور ایک ہی دن میں دو جنگی جہاز تباہ ہوئے جبکہ ایک ہیلی مقبوضہ کشمیر میں اپنے ہی میزائل کا نشانہ بنا؛ تاہم ایک روایت جو برقرار رہی وہ جنگی طیاروں کی خریداری میں ہونے والی کرپشن ہے۔ انڈین ایئر فورس کا انحصار رافیل، مگ 21، مگ 29، سخوئی، تیجاس، میراج 2000 اور جیگوار طیاروں پر ہے۔ رافیل طیارے‘ جو حال ہی میں فرانس سے بھارت کو ملے ہیں‘ ابھی پوری طرح فعال نہیں ہو سکے ہیں۔ بھارت اس حوالے سے تکنیکی مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ دوسری جانب مگ طیاروں کی بھارتی عوام نے ''فلائنگ کوفین‘‘ یعنی اڑتے تابوتوں کا خطاب دے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ ان طیاروں کو ''دی کریش کنگ‘‘ اور ''سہاگنوں کو بیوہ کرنے والا ویوان (جنگی جہاز)‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
5 جنوری کو بھارت کا ایک مگ 21 راجستھان میں کریش ہوا۔ یہ ایک ٹریننگ پرواز تھی؛ تاہم فنی خرابی کے باعث طیارہ کریش کر گیا، البتہ پائلٹ حادثے میں محفوظ رہا۔ سال کی شروعات ہی اچھی نہیں ہوئی تو آگے کیا ہو گا‘ اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل بھی مگ طیاروں کے اتنے کریش ہو چکے ہیں کہ پائلٹس کے خاندانوں اور بیوہ ہو جانے والی خواتین نے متعدد بار احتجاج کیا ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو سکی۔ 
فروری 2019ء میں پاکستان نے بھارتی طیارے گرائے تو بھارت نے بہت شور مچایا کہ پاکستان کا ایک ایف سولہ طیارہ بھی تباہ ہوا ہے حالانکہ یہ جھوٹا دعویٰ تھا اور امریکی جریدے فارن پالیسی میگزین نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا کہ پاکستانی ایف سولہ طیاروں کی تعداد پوری ہے۔ بھارتی میڈیا جتنی بھی مہم چلاتا رہے کہ اسے خطے کے دیگر ممالک کی ایئر فورس پر برتری حاصل ہے‘ حقیقت سب جانتے ہیں۔ بھارتی وزیردفاع کے مطابق 872 روسی ساختہ مگ طیاروں میں سے اب تک آدھے کریش ہو چکے ہیں۔ اسی معاملے کو لے کر عامر خان نے ایک فلم ''رنگ دے بسنتی‘‘ بنائی تھی۔ اس میں بھی مگ طیاروں کے کریش کے معاملے کو اٹھایا گیا تھا کہ ان طیاروں کی خریداری میں گھپلا ہوا جس کے سبب ناقص طیارے خریدے گئے اور نتیجتاً بھارتی پائلٹس اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔
اگر ہم مگ طیاروں کا جائزہ لیں تو علم ہوتا ہے کہ روسی ساختہ مگ 27 طیارے نے اپنی پہلی پرواز 1955ء میں کی تھی اور یہ اس وقت روس، کروشیا، بھارت اور رومانیہ کے زیر استعمال ہیں۔ مگ 29 کو روس، بھارت اور یوکرائن استعمال کر رہے ہیں۔ اس نے اپنی پہلی اڑان 1977ء میں بھری تھی۔ مگ 29 کی سپیڈ 2400 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اور اس کی رینج 1430 کلومیٹر اور سروس سیلنگ 18000 ایم ہے۔ 
یہاں میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتی چلوں کہ گارگل کی جنگ میں پاک آرمی کے ایئر ڈیفنس نے بھارت کے ایک مگ 27 کو نشانہ بنایا اور پائلٹ فلائٹ لیفٹیننٹ نچکیتا کو زندہ گرفتار کیا گیا۔ اس کو بچانے کے لئے آنے والے مگ 21 کو پاک آرمی کے ایک فوجی نے کندھے پر رکھے میزائل سے مار گرایا‘ اس طیارے کے ساتھ سکواڈرن لیڈر اجے اہوجا بھی ہلاک ہوگیا۔ اس کے علاوہ ایک انڈین ہیلی کاپٹر ایم آئی 17 بھی نشانہ بنا تھا، جس میں چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
1970ء سے 2015ء تک 170 بھارتی پائلٹس مگ طیاروں کے کریش میں ہلاک ہوئے ہیں۔ 2016-17ء میں ایڈین ایئر فورس کے 6 فائٹر جیٹ، 2 ہیلی کاپٹر، 1 ٹرانسپورٹ ایئر کرافٹ اور 1 ٹرینر ایئر کرافٹ کریش ہوئے۔ 2017-18ء میں 2 فائٹر جیٹ اور 1 ٹرینر ایئر کرافٹ کریش ہوئے۔ 2018-19ء میں 7 فائٹر جیٹ، 2 ہیلی کاپٹر اور 2 تربیتی طیارے تباہ ہوئے۔ جنوری 2019ء میں بھارتی ایئر فورس کا جیگوار طیارہ اتر پردیش میں کریش ہوا۔ فروری 2019ء بھارتی فضائیہ پر کافی بھاری رہا۔ پہلے ایک میراج طیارہ بنگلور میں کریش ہوا۔ 12 فروری کو مگ 27 پوکھران میں کریش ہوا۔ 19 فروری کو 2 بھارتی طیارے ریہرسل کے دوران آپس میں ٹکرا کر تباہ ہوئے۔ 27 فروری کو بھارتی ایم آئی ہیلی سرینگر میں اپنے ہی ایئر میزائل کا نشانہ بنا جبکہ پاک فضائیہ کے شاہینوں کے ہاتھوں مگ 21 طیارہ تباہ ہوا اور پائلٹ ابھینندن زندہ گرفتار ہوا جبکہ سو تھرٹی مقبوضہ کشمیر میں گر کر تباہ ہوا اور پائلٹ بھی مارا گیا۔ 8 مارچ کو ایک مگ 21 اور 31 مارچ کو ایک مگ 27 راجستھان میں گر کر تباہ ہوئے۔ 8 اگست کو سخوئی سو 30 تباہ ہوا۔ نومبر 2019ء سے نومبر 2020ء کے دوران بھارتی نیوی کے 3 مگ 29 کریش ہوئے۔ یہ ایک طویل فہرست ہے جس کو شاید پورا لکھنا ممکن بھی نہ ہو لیکن کرپشن، دفاعی معاہدوں میں گھپلوں اور ناقص دفاعی ساز و سامان نے بھارتی افواج کا مورال انتہائی پست کر دیا ہے۔ بھارت‘ جس کے اپنے تمام پڑوسی ملکوں سے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں‘ کے جنگی طیارے واقعتاً ہوا میں تیرتے تابوت ثابت ہو رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھی ایک مگ 21 راجستھان کے علاقے جبکہ بھارتی نیوی کا ایک مگ 29 بحیرہ عرب میں کریش ہوا۔ 
تمام سرحدوں پر اشتعال انگیزیوں میں مشغول تھکی ہوئی مایوس بھارتی فوج ناقص سازو سامان کے ساتھ کہاں کہاں مقابلہ کرے گی؟ فروری 2019ء میں بھارت نے پاکستان سے مار کھائی، اس کے بعد 2020ء میں لداخ میں چین نے بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا۔ بھارت کا یہ جنگی جنون اس کے کتنے حصے بخرے کرے گا، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved