بعض قانون اور ضابطے اتنے لایعنی اور بے معنی ہوتے ہیں کہ بنیادی انسانی قدریں بھی شرمندگی محسوس کرتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال53 سالہ پاکستانی شہری غضنفر علی خان کی موت ہے۔ان کا گزشتہ دنوں دہلی میں انتقال ہوگیا۔ وہ وسنت کنج میں انسٹی ٹیوٹ آف لیور اینڈ بائلری سائنسز (آئی ایل بی ایس) میں جگر کی پیوند کاری کے لیے زیر علاج تھے۔ دہلی میں رہنے والے ان کے ایک قریبی رشتہ دار نے انہیں اپنا جگر عطیہ کرنے کی پیش کش کی تھی لیکن ہسپتال نے قانون کاحوالہ دیتے ہوئے پیوند کاری سے انکار کردیا کہ عطیہ کرنے والا بھارتی شہری ہے جب کہ مریض ایک غیرملکی۔ یہ معاملہ حکومت کی میڈیکل کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا لیکن کمیٹی نے بھی اجازت دینے سے منع کردیا۔ ان کے گھر والے اجازت کے لیے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے ہی والے تھے کہ غضنفر علی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس معاملے نے اعضا کی پیوند کاری کے قانون پر نظر ثانی کی ضرورت ایک بار پھر اجاگر کردی ہے ۔بالخصوص بھارت اور پاکستان کے ارباب حل و عقد کومل بیٹھ کر اس حوالے سے اپنے قوانین پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ غضنفر اپنی اہلیہ اور چھوٹے بھائی کے ساتھ بھارت آئے تھے۔ یکم مئی کو انہیں آئی ایل بی ایس میںداخل کرایاگیا۔ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے کئی طرح کے ٹیسٹوں کے بعد ان کی بیوی اور بھائی کے جگر کو غضنفر کی پیوندکاری کے لیے نامناسب قرار دے دیا۔ چونکہ غضنفرعلی کی کوئی اولاد نہیں تھی اور ان کے تمام رشتہ داردہلی میں رہتے تھے اس لیے انہوںنے اپنے ایک چچازاد بھائی راشد علی خان سے رابطہ کیا۔ راشد علی انہیں اپنا جگر عطیہ کرنے کے لیے رضامند ہوگئے اور انہوں نے ہسپتال کی متعلقہ کمیٹی سے رجوع کیا۔ ایک عدالتی حکم کے مطابق اب تمام ہسپتال رشتہ داروں کی طرف سے اعضا کا عطیہ کرنے کی پیش کش کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیتے ہیں تاکہ اعضاکی غیر قانونی خریدوفروخت کے معاملے کو روکا جاسکے۔ چونکہ یہ قانون کافی پیچیدہ اور مبہم ہے اس لیے غضنفر نے 15 مئی کو دہلی ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ انہیں پیوندکاری کی اجازت دی جائے۔ ان کی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے عدالت عالیہ کی یک رکنی بنچ نے حکومت کی متعلقہ کمیٹی کو دو دن کے اندر اس معاملے پر اپنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا؛ تاہم کمیٹی نے عدالت کی درخواست ٹھکرادی ۔قبل اس کے کہ غضنفر علی ہسپتال کے فیصلے کے خلاف عدالت سے دوبار ہ رجوع کرتے ان کی حالت زیادہ بگڑ گئی اوراس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ غضنفر کی موت سے دل گرفتہ ان کے ایک چچا زاد بھائی ماجد خان بتاتے ہیںکہ ’’غضنفر کا کراچی کے ایک ہسپتال میں جگر کی بیماری کا علاج چل رہا تھا ۔ڈاکٹروںنے انہیں پیوند کاری کا مشورہ دیا تھا۔پاکستان میں صرف لاہور کے چند ہسپتالوں میں پیوندکاری کی سہولت دستیاب ہے اور وہ بھی کافی مہنگی، اس لیے ہم سب نے انہیں دہلی لانے کا فیصلہ کیا ۔ہائی کورٹ انہیں پیوند کاری کرانے کی اجازت دینے کے معاملے میں کافی ہمدرد تھی اور ہم کافی پُرامید تھے۔ لیکن اس طرح کے معاملات میں عدالت کوئی بھی فیصلہ ہسپتال کی متعلقہ کمیٹی کی رپورٹ پر ہی کرتی ہے اور ہم جب تک ہسپتال کے فیصلے کے خلاف چیلنج کرتے غضنفر علی کی موت ہوگئی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جگر کا عطیہ کرنے کے لیے ان کے ایک بھائی تیار ہوگئے تھے لیکن مبہم قانون کے سبب سب ہاتھ ملتے رہ گئے۔ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اس واقعہ نے اعضاکی پیوند کاری کے سلسلے میں قانونی ضابطوں پر نظر ثانی کی ضرورت ایک بار پھر اجاگر کردی ہے۔ متوفی کے وکیل طارق صدیقی کا کہنا ہے کہ موجودہ قانون کافی مبہم ہے اور ضرورت ہے کہ اس کو واضح کیا جائے تاکہ غضنفر علی جیسے لوگوں کی قیمتی جان قانونی پیچیدگیوںکا شکار بننے سے بچ سکے۔ بھارت میں اعضا کی پیوند کاری کا معاملہ ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹیشن ایکٹ1994ء کے تحت آتا ہے۔ اس قانون میں قریبی رشتہ داروں جیسے والد‘ والدہ‘ بھائی‘ بہن‘اولاد یا زوج کی طرف سے اعضا کا عطیہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔اگر کوئی دوسرا اعضا کا عطیہ کرنے کی پیش کش کرتا ہے تو ایک متعلقہ کمیٹی اس پر غور کرتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اعضا کا عطیہ مریض کے ساتھ صرف اور صرف’’ تعلق اور محبت‘‘ کی بنیاد پر کیا جارہا ہے اور اس میں کسی طرح کا مالی مفاد پوشیدہ نہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے ستمبر 1994ء میں اس قانون کے ضابطوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک جائزہ کمیٹی قائم کی تھی۔ وزارتِ صحت نے ٹرانسپلانٹیشن آف ہیومن آرگنز اینڈ ٹشوز(ترمیمی) بل2008ء کا مسودہ تیار کیا جس میں سیکشن 9کے تحت ایک ذیلی سیکشن شامل کردیا گیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ عطیہ کنندہ اور یا جسے عطیہ کیا جانا ہے اگرقریبی رشتہ دار ہیں اور غیرملکی شہری ہیں تو انہیں پیوندکاری سے قبل متعلقہ کمیٹی سے منظوری لینی ہوگی۔موجودہ قانون کے مطابق اعضا کی پیوند کاری کے پورے معاملے کا انحصار ہسپتال کی متعلقہ کمیٹی کے فیصلے پر ہوتا ہے ۔ مرکزی وزارتِ صحت کی طرف سے متعدد ماہرین کے صلاح مشورے کے بعد تیار کردہ ٹرانسپلانٹیشن آف ہیومن آرگن رولز 2012ء میںکہا گیا ہے کہ اگر کوئی بھارتی عطیہ کنندہ کسی غیر ملکی شہری کو‘ جو اس کا رشتہ دار ہے‘ اپنا کوئی عضو عطیہ کرنا چاہتا ہے توہسپتال کی متعلقہ کمیٹی اس معاملے کا باریکی سے جائزہ لینے کے بعد ہی اجازت دے گی۔ گزشتہ برس 16مئی کو دہلی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ اس طرح کے معاملات میں عطیہ کنندہ اور جسے عطیہ کیا جانا ہے ،دونوں کے درمیان محبت اور قربت کو اوّلین ترجیح دی جانی چاہئے اور صرف اس بنیاد پر درخواست کو مسترد نہیں کردیا جانا چاہئے کہ خاندان کا کوئی شخص عطیہ کرنے کے لائق نہیں تھا۔جسٹس وپن سنگھی نے یہ فیصلہ اس خاتون کی عرضی پر دیا تھا جسے گردے کی اشد ضرورت تھی اور گنگا رام ہسپتال کی متعلقہ کمیٹی نے خاتون کی بھانجی کی طرف سے گردہ عطیہ کرنے کی پیش کش کو ٹھکرا دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے ہسپتال کے دلائل کو خارج کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ ’’ یہ قانون(اعضا کی پیوندکاری کا) دراصل دو عظیم انسانی جذبات، محبت اور قربانی، کو تسلیم کرتا ہے اور اس حقیقت کو بھی کہ ضروری نہیں محبت اور قربانی کا یہ جذبہ صرف خونی رشتہ دار یا زوج میں ہی ہوبلکہ یہ کسی ایسے شخص میں بھی ہوسکتا ہے جو اتنا قریبی رشتہ دار نہ ہو۔‘‘ دراصل بھارت اور تیسر ی دنیا کے بعض دیگر ملکوں میں اعضاکی غیرقانونی خریدوفروخت کا جو کاروبار چل رہا ہے اس کے سدباب کے لیے حکومت نے ٹرانسپلانٹیشن آف ہیومن آرگن ایکٹ1994ء کے تحت ہسپتالوں میں متعلقہ کمیٹی قائم کرنے کی شرط عائد کی تھی جو اعضا کی پیوند کاری کے لیے عطیہ کرنے سے قبل معاملے کے مختلف پہلوئوں کا باریکی سے جائزہ لے گی۔ کمیٹی دستاویزات اور فریقین سے پوچھ تاچھ کرکے پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد ہی اس کی اجازت دیتی ہے۔لیکن پوچھ تاچھ اور تصدیق کا معاملہ کافی پیچیدہ ہے اور اس میں خاصا وقت بھی لگتا ہے، جس کی وجہ سے مریض بعض اوقات علاج سے پہلے دنیا ہی چھوڑ جاتا ہے۔ سماجی کارکنان اور قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت نے اعضا کے غیر قانونی کاروبار پر روک لگانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں ان کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن اعضا کی پیوند کاری کے اس قانون میں ترمیم کرکے تھوڑی لچک پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بھارت اور پاکستان کے لوگوں کے درمیان خون کی رشتہ داریاں ہیں اور بھارت میں میڈیکل شعبے میں ترقی اور علاج سستا ہونے کی وجہ سے پاکستانی شہری یہاں آکر علاج کرانا چاہتے ہیں۔ایسے میں موجودہ قانون میں پایا جانے والا ابہام دشواریاں پیدا کررہا ہے جس کی تازہ مثال غضنفرعلی خان کی موت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved