تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     20-01-2021

گودھرا سے ممبئی اور پلوامہ تک… (2)

بات ہو رہی تھی بھارتی سپریم کورٹ کی‘ جو مودی کے تحفظِ اقتدار کا ایک ذریعہ بن چکی ہے۔ زیادہ دور نہ جائیے‘ جسٹس اشوک بھوشن کو ہی دیکھ لیجئے‘ جس نے بابری مسجد اور صابری کیس کے بدنام زمانہ مذہبی عصبیت پر مبنی فیصلے دیے۔ جسٹس ایم آر شاہ‘ جس نے بیس سال مودی کے گجرات میں پریکٹس کی تھی‘ کو براہِ راست سپریم کورٹ کا جج بنا دیا گیا، حالانکہ یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا بنیادی رکن تھا۔ جسٹس سبھاش ریڈی کو فروری 2016ء میں ترقی دے کر سپریم کورٹ لے جایا گیا‘ یہ آر ایس ایس کا ضلعی صدر رہا ہے اور اسی نے مودی حکومت کے کالے قوانین کو جائز قرار دیا اور 2002ء میں ریا ست گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے قتل عام کے کیس میں نریندر مودی کو کلین چٹ دیتے ہوئے بری کرنے کا ''حکم‘‘ سنایا۔ 
اگر 2002ء میں ہونے والے فسادات کی بات کی جائے تو بھارتی پارلیمنٹ کے رکن احسان جعفری کے ہاتھ پائوں اور ٹانگیں کاٹنے کے بعد انہیں سڑکوں پر گھسیٹتے ہوئے کھلے میدان میں لے جایا گیا اور پھر آگ کے شعلوں کی نذر کر دیا گیا۔ بعد ازاں ان کے گھر میں پناہ لینے والی دو سو زائد مسلم خواتین کی آبرو ریزی کرنے کے بعد ان سب کو نذر آتش کر کے راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا گیا۔ احسان جعفری کی 74 سالہ بیوہ ذکیہ جعفری نے یہ کہتے ہوئے احمد آباد کی عدالت میں درخواست دائر کر رکھی تھی کہ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی ان فسادات میں ہلاک کیے گئے ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام میں براہ راست ملوث ہیں لیکن میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ بی جے گنترا نے ناکافی ثبوتوں کا بہانہ تراشتے ہوئے مودی کو بری کر دیا۔ اس سے پہلے گجرات کے قتل عام سے متعلق ایک اور فیصلہ بھی ہوا تھا۔ منگل 2 مارچ 2011ء کی صبح سبرمتی جیل میں احمد آباد کی سپیشل کورٹ کے جج پی آر پٹیل نے 27 فروری 2002ء کو گودھرا میں سبرمتی ایکسپریس کی ایک بوگی کو آگ لگا کر اس میں سوار وشوا ہندو پریشد کے 59 کارکنوں کی ہلاکت کے مشہور ترین مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے گیارہ مسلمانوں کو سزائے موت اور بیس کو عمرقید کی سزا کا حکم سنایا لیکن انصاف کا دہرا چہرہ دیکھیے کہ گودھرا میں بوگی کو جلانے کے واقعہ کے بعد چند گھنٹوں میں گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی اور وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی کی زیر کمان بھارتی پولیس اور راشٹریہ سیوک سویم سنگھ (آر ایس ایس) کے ہاتھوں 2 ہزار سے زائد مسلمانوں کے قتل عام پر بھارت میں کوئی قانون‘ کوئی عدالت نہیں۔ احمد آباد کے سپیشل جج پی آر پٹیل اور بی جے گنترا نے گودھرا کیس میں من پسند فیصلہ تو سنا دیا لیکن جب تحقیقات کی گئیں تو اس کے اندر سے پلوامہ حملے کی طرح کا سچ اچھل کر باہر نکل آیا۔ اس نے بھارت کا سفاک چہرہ دنیا بھر کے سامنے ننگا کر دیا اور یہی وجہ تھی کہ ماسوائے اسرائیل اور چند دیگر ممالک کے‘ دنیا بھر کے سفارت خانوں نے گودھرا کے قتل عام کی تمام تر ذمہ داری اس وقت کے وزیراعلیٰ گجرات نریندر مودی پر ڈال دی ا ور امریکا نے نریندر مودی کو دہشت قرار دیتے ہوئے اپنی کسی بھی ریا ست کا ویزہ حاصل کرنے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ یہ پابندی اس وقت اٹھائی گئی جب بھارتی وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی نے امریکا کا دورہ کیا؛ اگرچہ اس وقت بھی مودی کے خلاف امریکا کی ایک ریاست میں فراڈ اور قتل و غارت کا ایک مقدمہ زیر سماعت ہے۔ سبرمتی ایکسپریس آتشزدگی‘ جس کی آڑ میں گجرات میں فسادات کرائے گئے اور مودی کو انتہاپسند ہندوئوں کے لیڈر کے طور پر سامنے لایا گیا‘ کا انتہائی باریک بینی اور مکمل شواہد کے ساتھ کیا گیا پوسٹ مارٹم ملاحظہ کریں تو مودی ٹولے کی خباثت اور جھوٹ سامنے آ جاتے ہیں۔ اس کے مطابق: 
1۔ بھارت کی وزارتِ ریلوے کی طرف سے فراہم کئے گئے ریکارڈ کے مطابق سبرمتی ایکسپریس کی بوگیS-6 میں 59 مسافروں کی ریزرویشن تھی‘ جن میں سے تین مسافروں نے اپنی بکنگ منسوخ کرا دی اور چار مسافر بروقت اس ٹرین میں سوار نہ ہو سکے، اس طرح 72 مسافروں کی گنجائش والے اس کمپارٹمنٹ میں سوار مسافروں کی بکنگ تعداد 52 رہ جا تی ہے، ریزرویشن والے 52 میں سے32 مسافر زندہ سلامت اپنی منزلوں پر پہنچ گئے۔ اب باقی بیس مسافر رہ جاتے ہیں۔ ریزرویشن ریکارڈ کے مطابق ان میں سے چار افراد ہلاک اور 9 زخمی ہوئے لیکن گجرات پولیس کی رپورٹ کے مطابق‘ بوگی میں وشوا ہندو پریشد کے 59 افراد ہلاک ہوئے۔ عدالت میں ریکارڈ پیش کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ وشوا ہندو پریشد کے یہ کارسیوک ایودھیا سے سوار ہوئے لیکن ایودھیا ریلوے سٹیشن کی ٹکٹ اکائونٹس شیٹ میں خریدی گئی ٹکٹوں کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ کیا یہ حیران کن امر نہیں کہ ٹکٹ لے کر سوار ہونے والے بوگی کے مسا فر تو بچ گئے لیکن جن کی ٹکٹ کا کوئی ریکارڈ ریلوے کے پاس نہیں‘ گجرات پولیس کے ریکارڈ کے مطابق‘ وہ اس بوگی میں جل کر ہلاک ہو گئے؟ S-6 بوگی میں سوار بھارت کے ایک سابق فوجی گوندسن رتنائش پانڈے نے عدالتی کمیشن کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ لکھنؤ سے احمد آباد کیلئے متعلقہ بوگی میں سوار ہوا تھا، ریزرویشن میں برتھ نمبر 9 الاٹ ہوئی، ایودھیا سے بجرنگ دل کے لوگ سیفرن باندھے ٹرین میں سوار ہوئے جس سے 74 نشستوں والی بوگی میں یکدم 250 کے قریب لوگ سما گئے، یہ لوگ ہر سٹیشن پر سٹالوں سے اشیا چھینتے اور مسافروں سے بدتمیزی کر تے تھے، ان میں سے اکثر افراد کے ہاتھوں میں لوگان(دُھونی) تھے جس سے کئی مسافروں کے سامان کو آگ بھی لگی۔ اس بیان کی تصدیق ٹرین کے گارڈ ستیا نارائن ورما کے اس بیان سے بھی ہوئی کہ گاڑی کو 7:55 پر زنجیر کھینچ کر روکا گیا جس کی رپورٹ ہماری کتاب میں درج ہے۔ زندہ بچ جانے والوں کے بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایودھیا سے سوار ہونے والے بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کے ان کارکنوں میں سے بہت سے لوگ نشہ آور اشیا استعمال کر رہے تھے۔
2۔ سبرمتی جیل میں قائم کی گئی عدالت کے جج پی آر پٹیل اور سپیشل پبلک پراسیکیوٹر پنچل نے گودھرا ٹرین کے اس مشہور اور اہم ترین مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ''استغاثہ نے چونکہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ گودھرا اتفاقیہ حادثہ نہیں تھا بلکہ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت بوگی کو جلایا گیا اور یہ منصوبہ عدالت کی نظر میں ثا بت ہو چکا ہے اس لیے اس میں ملوث گیارہ ملزمان کو سزائے موت اور بیس کو عمر قید کی سزا دی جا تی ہے‘‘۔اب سپیشل جج پٹیل، استغاثہ کے گواہان اور بھارتی ریلوے کے ریکارڈ اور دوسرے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ آیا گودھرا کا یہ واقعہ با قاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہی کیا گیا تھا؟ استغاثہ کے 9 چشم دید گواہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مستند کارکن ہیں ان میں سے ایک گواہ ''اجے باریہ‘‘ جو گودھرا سٹیشن پر وینڈر ہے‘ کی گواہی کو سب سے مستند مانتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا گیا۔ اس نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ ملزم شوکت لالو اسے ملا اور کہا کہ ہمارے ساتھ چلو‘ وہ مجھے ملزم رزاق کے گیسٹ ہائوس میں لے گیا جو گودھرا ریلوے سٹیشن کے پاس واقع ہے‘ وہاں ٹرین جلانے کا منصوبہ بنایا گیا، مجھے کہا گیا کہ پٹرول کے ڈبے بوگی تک لے جانے میں ہماری مدد کرو...اب استغاثہ کی اس گواہی کا یہ نکتہ انتہائی اہم ہے کہ مقدمے میں ملوث کئے گئے ملزمان‘ جن میں گودھرا میونسپل کمیٹی کے عہدیدار بلال حاجی، فاروق محمد بھانہ، سلیم شیخ، عبدالرحمن، رائو امین حسین، حبیب کریم شیخ وغیرہ شامل ہیں‘ نے ایک بی جے پی کے ایک عہدیدار ہندو وینڈر کو‘ جو سب کو اچھی طرح جانتا پہچانتا تھا‘ سازش میں کیونکر شامل کرنا تھا؟ اس لیے کہ بعد ازاں وہ سب کی نشاندہی کر دے؟ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved