جنرل ریٹائرڈ اور ہمارے سابق صدر پرویز مشرف ریکارڈ فروخت ہونے والی اپنی سرگزشتIN THE LINE OF FIRE میں لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف 12 اکتوبر 1999ء کی صبح ہوائی جہاز سے ملتان گئے۔ اس پرواز میں ان کے تقریر نویس اور پاکستان ٹیلی وژن کے چیئرمین، جو قومی اسمبلی کے ممبر بھی تھے، ان کے ہمراہ تھے۔ مجھے (جنرل پرویز مشرف) برطرف کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے میرے خلاف کی جانے والی سازش کی نوک پلک 2 روز قبل ابوظہبی کی پرواز میں سنواری گئی تھی۔ اس سفر میں نواز شریف کے ہمراہ جنرل ضیاالدین بٹ بھی تھے جو اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔10 اکتوبر کو ابوظہبی جاتے ہوئے میرے خلاف سازش کو حتمی شکل دی گئی جبکہ اسی روز دوپہر کو متحدہ عرب امارات کے صدر اور ابوظہبی کے امیر شیخ زید بن سلطان النہیان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد یہ وی آئی پی قافلہ واپس اسلام آباد آگیا۔ ظاہری طور پر سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا مگر اندر سے سازش تیار کر لی گئی تھی اور دو دن بعد اس پر عمل ہونے والا تھا۔ جنر ل صاحب اپنی کتاب کے 14ویں باب ’’جوابی وار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 12 اکتوبر کی شام پاکستان ٹیلی وژن سے مجھے یعنی افواج پاکستان کے سربراہ کو اس کے عہدے سے برخاست کرنے کی خبر نشر کر دی گئی تھی جس سے فوج میں شدید بے چینی اور اضطراب پھیلا اور بحیثیت ادارہ فوج نے اپنی ہتک محسوس کی تھی۔ اس سے قبل وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کے سربراہ جنرل جہانگیر کرامت سے ان کے عہدے سے زبردستی استعفیٰ لے لیا تھا۔ نواز شریف کی طرف سے فوج کے سربراہ کے لیے یہ دوسرا وار تھا۔ ’’جوابی وار‘‘ شام 5 بجے ٹیلی وژن سے میری برطرفی کی خبر نشر ہونے کے بعد شروع ہوا اور یہ اسی شام ساڑھے آٹھ بجے جب لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد پرائم منسٹر ہائوس داخل ہوئے اور نواز شریف کو حراست میں لے لیا، ختم ہو گیا۔ اس میں صرف ساڑھے تین گھنٹے لگے۔ جنرل مشرف نے اپنے ساتھی جنرل محمود احمد کی طرف سے ایک منتخب وزیر اعظم کو پرائم منسٹر ہائوس سے گرفتار کرنے کے’’آپریشن‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ کام کرتے ہوئے ’’صرف ساڑھے تین گھنٹے لگے‘‘۔ جنرل مشرف نے اپنے ساتھی کی طرف سے پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کی ’’جوانمردی‘‘ کو یوں تفاخرانہ لہجے میں بیان فرمایا ہے جیسے اس بہادر جنرل نے اسرائیلی وزیر اعظم کو گرفتار کر لیا ہو۔ جنرل صاحب اور ان کے ہم پیالہ کیا یہ معرکہ ساڑھے 3 گھنٹے میں سرانجام دے سکتے تھے؟؟؟ جنرل صاحب لکھتے ہیں کہ شام 5 بجے دفاتر بند ہو چکے تھے اور فوج کے اعلیٰ افسران یا تو گھر وں کو جا چکے تھے یا شام کو کھیلوں میں مصروف تھے۔ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل محمد عزیز خان اورکور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمود، دونوں چکلالہ کے آرمی کلب میں، جو فوج کے ہیڈکوارٹر سے تقریباً تین میل دور ہے، ٹینس کھیل رہے تھے۔ دو کمانڈنگ افسران لیفٹیننٹ کرنل شاہد علی اور لیفٹیننٹ کرنل جاوید سلطان، جو راولپنڈی کور کے انتہائی مستعد 111 بریگیڈ میں تھے، اسی کلب میں سکواش کھیل رہے تھے۔ اس خبر کے سنتے ہی ان دونوں نے اپنا کھیل چھوڑ دیا اور بھاگ کر ٹینس کورٹ میں آئے تاکہ جنرل عزیز اور جنرل محمود کو یہ خبر دیں لیکن وہ دونوں پہلے سے ہی یہ خبر سن کر ہیڈ کوارٹرز جا چکے تھے۔ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل شاہد عزیز گھر پہنچ کر بستر پر بیٹھے اپنے جوتوں کے تسمے کھول رہے تھے، جیسے ہی انہیں یہ خبر پہنچی، انہوں نے تسمے دوبارہ باندھ لیے اور فوراً ہیڈکوارٹرز چلے گئے اور جاتے جاتے اپنی بیوی سے کہا کہ معلوم نہیں میں کب… یا شاید واپس بھی آئوں گا۔ انہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگلے چند گھنٹے تلوار کی دھا ر پر گزریں گے، جیسے ہی ان کی گاڑی باہر نکلی، انہیں یہ دیکھ کر بہت برا لگا کہ ان کے پڑوسی کی بیوی اپنے مکان کے گیٹ پر مٹھائی تقسیم کر رہی تھیں۔ یہ پڑوسی لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ ہی تھے۔ ان کی بیوی اپنے شوہر کی فوج کے اعلیٰ ترین عہدے پر غیرقانونی ترقی کی خوشی منا رہی تھیں۔ عزیز خان، محمود اور شاہد عزیز کے دماغوں میں نواز شریف کی چال کو ناکام بنانے کے سلسلے میںکوئی ابہام نہیں تھا… بس بہت ہو چکا… وہ جوابی وار میں پیش پیش ہوں گے…جوابی وار سے مراد ’’مارشل لا‘‘ کا نفاذ تھا۔ جنرل مشرف ’’جوابی وار‘‘ میں ہی لکھتے ہیں کہ… ذرا اس ڈرامے کے سب کرداروں اور ان کے مجھ سے تعلق پر نظر ڈالیے۔ میں ان کا چیف ہونے کے علاوہ، دونوں کمانڈروں شاہد علی اور جاوید سلطان کے ساتھ سکواش کھیلتا تھا۔ محمد عزیز خان کا تقرر میں نے کیا تھا۔ راولپنڈی کور کے کمانڈر محمود احمد میرے رجمنٹل کمانڈنگ آفیسر تھے۔ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز شاہد عزیز سے میری رشتہ داری ہے۔ ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈنٹ بریگیڈیئر صلاح الدین ستی، جب میں بریگیڈیئر تھا، تب میرے بریگیڈیئر میجر ہوتے تھے۔ دوسرے شہروں یعنی لاہور اور کراچی کے افسران بھی جو (جوابی وار) میں انتہائی اہم تھے، ان کا تقرر بھی میں نے ہی کیا تھا۔ جنرل صاحب کی خود نوشت پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ فوج، سول حکمرانوں اور حکومتوں کے متوازی ایک ایسا ادارہ ہے جس کا اپنا نظم و ضبط،آئین اور قانون ہوتا ہے۔ جنرل صاحب نے اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کی جانب سے مارشل لا لگانے کے ایکشن کو گلوری فائی بھی کیا ہے۔ فوج کی طرف سے مارشل لا نافذ کرنے کے عمل کو ’’جوابی وار‘‘ کا نام دیا گیا اور اس آئین شکنی کا جواز یہ بنایا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے حکم پر اس طیارے (PK 805) جو 12 اکتوبر 1999ء کے دن کولمبو سے پاکستان واپس آرہا تھا اور جس میں فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف سمیت 198 سویلین مسافروں سوار تھے کو اترنے نہیں دیا گیا اور اس طرح ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا گیا تھا۔ یہ خطرناک ڈرامہ وزیر اعظم نواز شریف کے حکم پر سٹیج کیا گیا تھا۔ جنرل صاحب نے فوج کے مجموعی اور انفرادی، ردعمل خاص طور پر اپنے ساتھیوں کے ردعمل کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، اس سے صاف لگتا ہے کہ فوج کا مجموعی ردعمل غیرمعمولی نہیں تھا اور مارشل لا لگانے میں وہی فوجی افسران پیش پیش تھے اوّل جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے، دوم وہ فوجی افسران جنہیں مختلف ادوار میں پرویز مشرف نے ترقی سے نوازا تھا۔ 14 برس بعد وزیر اعظم میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ آمر نے 12 اکتوبر 1999ء کے دن منتخب حکومت پر شب خون مارا،3نومبر 2007 ء کے دن دوبارہ مارشل لا نافذ کرکے ججز کو نہ صرف ان کے فرائض کی انجام دہی سے روکا بلکہ ان کو بچوں اور اہل خانہ سمیت کئی ماہ تک نظربند بھی رکھا۔ یہ اقدامات غیرآئینی اور غداری کے مترادف ہیں لہٰذا آمر کو اپنے غیرآئینی اقدام کا جواب دینا ہو گا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں شامل سبھی جماعتوں کے نمائندوں نے نواز شریف کے اس اعلان کی حمایت کی ہے۔ اپوزیشن کے نمائندوں نے کہا ہے کہ مشر ف کے خلاف غداری کے مقدمے کی حمایت کرتے ہیں، تمام اداروں سے آمروں کی تصویریں ہٹائی جائیں۔ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور دوسری جماعتیں نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ سپریم کورٹ عدل و انصاف کے تقاضے پوری کر رہی ہے۔ پرویز مشرف کے غیرآئینی اعمال میں شریک 627 افراد کو کٹہرے میں لانے کی بات کی جا رہی ہے۔ اگرچہ یہ معاملہ آئین سے متعلقہ ہے جس کی تشریح کی مجاز اور محافظ اعلیٰ عدلیہ ہے لیکن عوام کو اس معاملہ پر نواز شریف کو دوبارہ اپنا ووٹ دینا ہو گا۔ فرمایا گیا کہ ظالم کا ہاتھ آگے بڑھ کر روک دو، اگر ممکن نہ ہو تو زبان سے اس کی مذمت کرو، یہ بھی نہ کر سکوں تو دل میں اسے برا جانو… جنرل پرویز مشرف نے2 بار آئین توڑا، ان کے دور میں بگتی اور محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کی گئیں انہیں حساب چکانا ہو گا۔ نواز شریف کو آئین شکنوں کو کٹہرے میں لانا ہو گا، اس سے شاید قوم کی تقدیر تو نہیں بدلے گی مگر یہ منزل کی جانب سفر کا آغاز ضرور ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved