سیاستدان ہمیشہ اپنی تقریروں اور بیانات میں اپنی سیاست کو عوامی خدمت سے منسوب کرتے ہوئے ملک و قوم پر احسانات کی لمبی لمبی فہرستیں گنواتے ہیں۔ باتیں سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ سیاسی رہنمائوں کاجینا مرنا صرف غریب عوام کے لئے ہے اور عوامی مسائل نے ان کا دن رات کا چین گنوا دیا ہے لیکن زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو حالات بالکل برعکس نظر آتے ہیں۔ حقیقت میں ہمارے سیاستدانوں نے عوام کو صرف خوشگوار وعدوں، پُرجوش نعروں اور دلفریب اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں الجھا رکھا ہے جبکہ عمومی سیاست میں عوامی خدمت کم اور ایک دوسرے پر الزام تراشی زیادہ کی جاتی ہے۔ اپوزیشن حکمرانوں کو ہمیشہ چور کہتی ہے تو حکومت مخالفین کو لٹیروں سے کم لقب نہیں دیتی۔ ہمارے لیڈران کو اچھی طرح معلوم ہے کہ سادہ لوح عوام حکمرانوں کے کیے گئے وعدے بہت جلد بھول جاتے ہیں اور ہمیشہ نئے جذباتی نعروں کی کشش اور سحر میں مبتلا ہو کر پھر سے نئی امیدوں کے بند باندھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح درجن سے زائد پنج سالہ منصوبے بیت چکے ہیں، سیاسی جماعتیں اپنی باریاں لگا رہی ہیں اور عوام ہر الیکشن میں ایک نئے نعرے کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ ملک کی حالیہ سیاست کو ہی دیکھ لیں، غریب عوام کے دکھ درد کا مداوا تو دور کی بات‘ کسی کو اس کا اندازہ لگانے کی بھی فرصت نہیں۔
موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تو ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری عام تھی لیکن لوگوں کا خیال تھا کہ دو دہائیوں سے مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن، لوٹ مار اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے خلاف آواز اٹھانے اور انصاف و تبدیلی کا نعرہ لگانے والی پاکستان تحریک انصاف غریب عوام کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرے گی اور عام آدمی کی مشکلات دور کرکے ملک میں خوش حالی لائے گی، لیکن اب اس پارٹی کے اقتدار کو بھی تین برس ہونے والے ہیں‘ ابھی تک تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔ آج بھی حکمران ہر بات کا ذمہ دار سابق حکمران جماعتوں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ٹھہرا رہے ہیں جبکہ اپوزیشن ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر عوامی مشکلات کے ازالے کے بجائے محض اپنے اقتدار کے لیے حکومت گرانے کے چکروں میں پڑی ہوئی ہے۔ حسبِ عادت صبح سویرے اخبار دیکھا تو ایک عام شہری کی طرح حزبِ اقتدار و حزبِ اختلاف کے تند و تیز سیاسی بیانات کے بجائے سب سے پہلے مہنگائی کی خبروں پر ہی نظر پڑی۔ ہمیں ایک ہی سبق یاد ہے کہ حکومت جس کی بھی ہو گی، مزدوری کریں گے تو روٹی کھائیں گے اور پھر تنخواہ دار طبقہ تو ہمیشہ جمع تفریق ہی کرتا رہتا ہے اور اسے دال سبزی سے آگے کچھ سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاستدان (حکومت و اپوزیشن‘ دونوں) ایک بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ عوامی مشکلات کے بجائے صرف ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے عوام کو بے وقوف بنانا ہے کیونکہ اگر قوم خوش حال ہوں گے تو پھر دال روٹی کی فکر سے نکل کر کپڑے اور مکان اور دوسرے بنیادی حقوق کی ڈیمانڈ شروع کر دیں گے اور اگر یہ سب کچھ انہیں مل گیا تو پھر وہ اپنے حقِ اقتدار کا سوال کریں گے۔ اسی لیے عوام کو ان کے پیٹ کی فکر میں ہی مبتلا رکھا جاتا ہے۔
صبح بھی جس خبر پر نظریں جم گئیں وہ صرف 7 ماہ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 115 فیصد تک اضافے کے حوالے سے تھی۔ خبر میں درج اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 7 ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 41 روپے فی لٹر تک بڑھ چکی ہیں۔ جون 2020ء سے جنوری 2021ء تک مٹی کا تیل 115 فیصد مہنگا ہوا ہے۔ اسی عرصہ میں لائٹ ڈیزل 100 فیصد، ہائی سپیڈ ڈیزل 58 فیصد اور پٹرول 53 فیصد سے زائد مہنگا کیا گیا ہے۔ ان سات ماہ کے دوران پٹرول34 روپے فی لٹر مہنگا ہوا اور اس کی قیمت 74 روپے سے بڑھ کر 109 روپے فی لٹر تک جا پہنچی ۔ یہی حال ہائی سپیڈ ڈیزل کا ہے جس کی قیمت80 روپے سے بڑھ کر113 روپے فی لٹر ہوگئی۔ یہاں پر یہ امر واضح رہے کہ اس مدت کے دوران عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں 15 ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہوا اور اس کی قیمت 40 ڈالر سے بڑھ کر 55 ڈالر فی بیرل ہو گئی۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں 40فیصد تک اضافہ ہوا مگر ہمارے ہاں 115فیصد تک اضافہ کر دیا گیا۔
اخبار کو پلٹا تو آخری صفحے پر جو خبر آنکھوں میں چبھی وہ بھی گرانی کے حوالے سے ہی تھی۔ شاید ہماری قسمت میں سیاست پر بات کرنا لکھا ہی نہیں کیونکہ جس گھر میں بچے بھوکے پیاسے ہوں گے‘ وہاں کوئی اپوزیشن جماعتوں کی قیادت یا حکومتی وزرا کے سیاسی چٹکلوں سے کیسے متاثر ہو سکتا ہے؟ خبر تھی: پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک ماہ میں دوسری بار اضافے کے بعد اشیائے خور ونوش کی قیمتوں کو بھی پَر لگ گئے، مہنگائی کا طوفان بے قابو ہوگیا، دالوں، خشک مسالا جات، بیکری آئٹمز سے لے کر موسمی پھلوں اور سبزیوں تک‘ ہر شے تنخواہ دار اور سفید پوش طبقے کی دسترس سے باہر ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ چھوٹا گوشت ہو یا پھر خشک میوہ جات‘ سفید پوش طبقہ ان اشیا کو دیکھ تو سکتا ہے مگرخریدنے کی سکت کھو چکا ہے۔ بڑا گوشت بھی‘ بغیر ہڈی کے 600 اور مرغی کا گوشت بھی 340 روپے فی کلو تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کبھی سبزی خریدنے پر مفت ملے والی سبز مرچیں اب 260 روپے فی کلو فروخت کی جا رہی ہیں۔ لہسن، ادرک، پیاز، ٹماٹر کی قیمتوں کا ذکر ہی کیا کہ کئی اشیا تو ہزار کا ہندسہ بھی چھو آئی ہیں۔ ہر گھر کی ضرورت دودھ160 روپے فی لٹر تک مل رہا ہے جبکہ تازہ دودھ 130 روپے، کھلا دہی 150 فی کلو تک پہنچ گئے ہیں۔ دالیں جو کبھی غریب کی ہانڈی کا بھرم رکھتی تھیں‘ اب وہ بھی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ دال ماش 310 روپے، دال مونگ 270 روپے، دال چنا 180 روپے، دال مسور 190 روپے، سفید چنے 170 روپے، جبکہ چائے کی پتی 1000 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔ کبھی عام ملنے والے گڑ اس وقت 160 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔ اگر گھریلو ضروریات کی دیگر چیزیں مثلاً چاول، آٹا، واشنگ پائوڈر، ڈبل روٹی اور بسکٹ وغیرہ کا ریٹ دیکھا جائے تو وہ بھی گزشتہ ایک دو سالوں میں ڈبل قیمت تک جا پہنچی ہیں۔ چکی کا آٹا جو کچھ ماہ پہلے تک پچاس روپے کا دستیاب تھا، اب 80 سے 85 روپے فی کلو میں مل رہا ہے۔ یہ ہے معاشرے کی وہ تصویر جو ہمارے سیاسی منظر نامے میں دب کر رہ گئی ہے۔ یہ کوئی سیاسی بیانات ہیں اور نہ ہی اعداد و شمار کے گورکھ دھندے بلکہ حقائق پر نظر رکھنے والے رپورٹروں کی تحقیقات ہیں۔
کاش کوئی ہمارے سیاستدانوں کو بتائے کہ عوام کا پیٹ نہ تو سیاسی نعروں سے بھرتا ہے اور نہ ہی پانامہ پیپرز یا براڈ شیٹ کے انکشافات سے انہیں سکون ملتا ہے بلکہ انہیں اپنا اور اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لئے دو وقت کی روٹی چاہئے۔ اب الزام تراشیاں بہت ہو چکیں، سیاسی نعرے اور جھوٹے دعوے تو ستر سالوں سے ہمارے کلچر کا حصہ چلے آ رہے ہیں، ہمیشہ ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ سابق حکمران چور تھے اور ملک کو لوٹ کر کھا گئے، ہم آئیں گے تو دودھ کی نہریں بہا دیں گے، لیکن اب تو حد ہوگئی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں ایک دوسرے کو چور ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور عوام کے مسائل و مشکلات کا کہیں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ کوئی تو ہو جو عام آدمی کی بھی بات کرے، مہنگائی کنٹرول کرے اور لوگوں کے روزگار کا بندوبست کرے کیونکہ عام آدمی کو یہی مسائل درپیش ہیں۔