تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     21-01-2021

تحریکِ انصاف اور نظامِ انصاف

پہلا موقف ''تحریک انصاف کے اکاؤنٹس شفاف ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس بے بنیادہے۔ ہم سرخرو ہوں گے‘‘۔
دوسرا موقف ''صرف ہمارے خلاف کیوں، نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے فنڈزکی بھی تحقیقات کی جائیں‘‘۔
تیسرا موقف ''اگر غیر قانونی فنڈنگ ہوئی ہے تو اس کے ذمہ دارایجنٹ ہیں۔ پارٹی کا اس سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
چوتھا موقف ''الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار ہی نہیں کہ ایک سیاسی جماعت پر پابندی لگائے‘‘۔
یہ ہے اس انصاف پسندی کی مختصر داستان ہے، تحریک انصاف نے جوالیکشن کمیشن اور عوام کے سامنے سنائی ہے۔ اس پہ مستزاد وہ رویہ جو عدالت کے روبرو اختیار کیا گیا۔ باربار التوا کی درخواست اور تاخیری حربے۔ کبھی خفیہ کبھی اعلانیہ۔ کبھی وکیل تبدیل ہورہا ہے اورکبھی بیمار۔ آٹھ وکیل تبدیل کیے جا چکے۔ دلائل سے قطع نظر، محض یہ رویہ، کیا یہ بتانے کیلئے کفایت نہیں کرتا کہ تحریک انصاف کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو کچھ نہیں؟
تحریک انصاف نے خودہی کو نہیں، اس سارے نظامِ انصاف کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے جو اس ملک کے شہریوں کو انصاف کی فراہمی کیلئے وضع کیا گیا ہے۔ ایک سیاسی جماعت پر الزامات عائد کیے گئے۔ تین سال کے بعد انتخابات ہونے تھے اور یہ معلوم تھا۔ ہونا تویہ چاہیے تھا کہ اگلے انتخابات سے پہلے فیصلہ آجاتا۔ تین سال اس کام کے لیے کم نہیں تھے۔ اب ناصرف یہ کہ ان الزامات کا فیصلہ ہوئے بغیر انتخابات ہو گئے بلکہ اُس جماعت کو اقتدار بھی سونپ دیا گیا جس کے خلاف الزامات تھے۔
آج الیکشن ہوئے مزید تین سال ہونے کو ہیں لیکن مقدمہ ہے کہ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا۔ معاملہ یہاں تک آ پہنچاکہ فیصلے کے لیے سیاسی جماعتوں کو احتجاج کرنا پڑا۔ پھر یہ کہ اس قصے کو اِسی ایک فیصلے کے ساتھ تمام نہیں ہونا۔ اس کے بعد اپیلوں کا مرحلہ ہے۔ ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگلے عام انتخابات بھی اسی طرح گزر جائیں گے کہ قضیہ باقی ہوگا؟
یہ معاملہ اُس وقت اور پیچیدہ ہو جاتا ہے‘ جب دوسری طرف ایک دوسری سیاسی شخصیت نواز شریف کے بارے میں یہ فیصلہ دیاجاتا ہے کہ ان کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو۔ یہی نہیں، ماتحت عدالت کو پابند کر دیا جاتا ہے کہ اتنے عرصے میں ہر صورت فیصلہ دیا جائے۔ اگر ایک طرف سات سال کوئی فیصلہ نہیں ہوتا اور دوسری طرف عدالتوں کو پابند کر دیا جاتا ہے کہ چند ماہ میں فیصلہ سنائیں، تو پھر عوام کے ذہنوں میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ نظام کو اس کیلئے جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ ریاستی اداروں کواپنی ساکھ کے لیے قانون ہی نہیں، عوامی اعتماد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ معاملہ صرف جماعتوں کے ساتھ خاص نہیں‘ الیکشن کمیشن کے سامنے افراد کی نااہلی کا مقدمہ پیش ہوتا ہے۔ پانچ سال گزر جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا دورانیہ ختم ہو جاتا ہے اور فیصلہ نہیں ہوتا۔ اس وقت بھی ایسے مقدمے موجود ہیں۔ پارلیمنٹ اپنی آدھی مدت گزار چکی‘ لیکن نااہلی کے مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پائے۔ واوڈا صاحب کے بارے میں یہی طے نہیں ہو سکا کہ جب انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے، ان کے پاس دوہری شہریت تھی یا نہیں۔ ایک موجودہ وفاقی وزیر کے خلاف جعلی ڈگری کا مقدمہ اتنا طویل ہواکہ اس دوران میں تین انتخابات گزرگئے۔ اس کے بعد کہیں جاکر فیصلے کی نوبت آئی۔
سوال یہ ہے کہ فوری انصاف کی راہ میں کیا چیز حائل ہے؟ انسانی رویے یا قانون؟ یہ اخلاقی مسئلہ ہے یا قانونی؟ اگر قانون مانع ہے تو پھر نوازشریف صاحب کے خلاف مہینوں میں فیصلہ کیسے ہوا؟ قانون وہاں رکاوٹ کیوں نہیں بنا؟ وہاں 'فوری انصاف‘ کیسے ہوا؟ ایک طرف ایک مقدمے میں اتنے 'ثبوت‘ جمع ہو جاتے ہیں کہ کئی جلدیں تیار ہو جاتی ہیں۔ دوسری طرف برسہا برس گزر جانے کے باوجود یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ایک اداکارہ کے سامان میں شراب کی بوتل تھی یا نہیں؟
سوال یہ بھی اہم ہے کہ جو لوگ انصاف کے داعی ہیں اور اپنی پاکدامنی کے قصے سناتے نہیں تھکتے، وہ انصاف کی راہ میں کیوں حائل ہو جاتے ہیں، جیسے تحریکِ انصاف۔ تحریکِ انصاف کے پاس موقع تھاکہ عوام کے سامنے قابلِ تقلید مثال پیش کرتی۔ ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کرتی جو فیصلوں میں تاخیر کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری جماعتوں کے تقابل میں لوگوں کو بتاتی کہ کیسے وہ انصاف کے حصول کیلئے نظام کی معاون بن گئی ہے۔براڈ شیٹ کا قصہ بھی کچھ ایساہی ہے۔ تحریکِ انصاف نے اس سے ایک روایتی سیاسی جماعت کی طرح فائدہ اٹھانے میں عجلت کی۔ اس میں بھی ان کے پیشِ نظر انصاف نہیں، نوازشریف کے خلاف سیاسی فائدہ اٹھانے کی خواہش تھی۔ اس خواہش کے زیر اثر حکومت نے تیزی دکھائی اور یہ نہیں جاناکہ موسوی خود کتنا قابلِ اعتبار کردار ہے۔ اس نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب تحریک انصاف کے لوگ اس میں سے اپنے مطلب کی باتیں الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا انصاف اسی کا نام ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ عمران خان اور تحریکِ انصاف، کم ازکم گزشتہ آٹھ سال میں اپنا کوئی امتیاز ثابت نہیں کر سکے۔ نہ خان صاحب اور نہ انکی جماعت‘ عوام کو یہ بتا سکے کہ وہ دوسری جماعتوں سے مختلف ہیں۔ اس کے برخلاف یہ ضرور ثابت ہوا کہ اخلاق اور نااہلی کے باب میں دوسروں سے فروتر ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس اس کا ناقابلِ انکار ثبوت ہے۔ آج صرف کوئی عقیدت مندہی ان کی کسی اخلاقی برتری کا قائل ہو سکتا۔ مقدمہ دعووں سے نہیں، عمل سے ثابت ہوتا ہے۔ خان صاحب عمل کی کسوٹی پرپورا نہیں اترے۔ 
ایک انصاف پسند معاشرے کی طرف مراجعت کے لیے پاکستان کو ایک نئے آغاز کی ضرورت ہے۔ نیا آغازگڑے مردے اکھاڑنے سے نہیں ہوگا۔ کل تک عمران خان صاحب کا کوئی سیاسی ماضی نہیں تھا۔ آج ان کا ایک ماضی ہے۔ ان کا کوئی وژن ہوتا تو وہ 2018ء سے ایک نئے دور کا آغاز کر سکتے تھے۔ وہ یہ نہیں کر سکے۔ انہوں نے اپنے لیے پامال راستوں کا انتخاب کیا۔ اس سے کچھ اور تو نہ ہو سکا، وہ خود اپنا امتیاز کھو بیٹھے۔ لوگ سیدنا علیؓ کا قول یاد کرتے ہیں کہ اقتدار سے آدمی تبدیل نہیں ہوتا، اس کا اصل ظاہر ہو جاتا ہے۔
نئے آغاز کا مطلب ماضی سے اعلانِ برات ہے۔ اگر خان صاحب اس پر آمادہ ہوں توپارٹی فنڈنگ کیس کو بھی ماضی کا قصہ سمجھ کراسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ ماضی میں جو ہوا، درست تھا، اس بنا پرکہ پرانی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے توبہ کا راستہ اختیارکیا جارہا ہے۔ اس طرح احتساب کے ایک نئے دور کا آغازہو سکتا ہے، جس میں انتقام کی بو نہ ہو اور جو پوری طرح شفاف ہو۔ جس میں لوگوں کو فوری انصاف ملے اور انصاف ہوتا دکھائی دے۔ جس میں کسی کوالیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
اگر یہ نہیں ہو تا تو پھر پارٹی فنڈنگ کیس ہماری تاریخ کا ایک فیصلہ کن مقدمہ بن جائے گا۔ اس فیصلے کو لازماً ایک سوالیہ نشان میں ڈھلنا ہے۔ اگر یہ خان صاحب کے خلاف آتا ہے تو یہ نشان ان کی ذات کے سامنے اوراگر حق میں آتا تو یہ نظامِ انصاف کے سامنے کھڑا ہو جائے گا۔ دونوں صورتوں میں یہ خان صاحب کے خلاف ہی جائے گا کیونکہ وہ نہ صرف اس نظام کا حصہ ہیں بلکہ اسے تھامے ہوئے بھی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved