پٹرول پمپ پر کام کرنے والے دو سیلز مینوں رنجیت سنگھ اور پرتاپ سنگھ نے گودھرا وقوعہ کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے کسی کو بھی کھلا پٹرول نہیں دیا لیکن چھ ماہ بعد وہ اپنے بیان سے مکر گئے۔ تہلکہ ٹی وی کے کیمروں میں ان کے وہ بیانات محفوظ ہیں جن میں انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ ہمیں اس بیان کے عوض بی جے پی اور پولیس والوں نے پچاس ہزار روپے دیے تھے۔ اسی طرح دو گواہان مرلی مرچند اور کاکل پاٹھک‘ جنہوں نے عدالت میں بطورِ چشم دید گواہان بیانات دیتے ہوئے بتایا تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کو بوگی کو آگ لگاتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا‘ کے بیانات بھی تہلکہ ڈاٹ کام پر دنیا بھر میں کروڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں جس میں ان دونوں نے اعتراف کیا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو وہ اپنے گھروں میں سوئے پڑے تھے۔ ملزمان کے وکیل صفائی عدالت میں ہر سماعت پر چیختے رہے کہ ان سب گواہان کے موبائل فونز کا ریکارڈ چیک کیا جائے تاکہ ثابت ہو سکے کہ یہ ''چشم دید‘‘ گواہان وقوعہ کے وقت موقع واردات سے کتنی دور تھے لیکن عدالت کے کانوں تک وکیل صفائی کی یہ چیخ و پکار نہیں پہنچ سکی کیونکہ فیصلہ سنانے والے، عدالت بنانے والے، قانون پڑھانے والے‘ سبھی تو آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے لوگ تھے۔اور یہ سب ڈرامہ اسی لئے تو رچایا گیا تھا۔
گجرات پولیس نے سبر متی ایکسپریس کی بوگی کو جلائے جانے کے مقدمے کے چالان میں لکھا کہ پولیس نے پندرہ ملزمان کو‘ جو گودھرا سٹیشن سے کچھ دور بوگی S-6 کو آگ لگا رہے تھے‘ گرفتار کرنے کے بعد گودھرا سٹیشن کے قریب واقع کیبن اے میں بند کر کے باہر مسلح گارڈز تعینات کر دیے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے پیش کئے گئے تمام 9 چشم دید گواہوں نے بھی اس کی تصدیق کی لیکن سپیشل جج پٹیل کے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے دیے گئے ریمارکس عدالتی ریکارڈ کا باقاعدہ حصہ بن چکے ہیں کہ ''پولیس اور گواہان کا یہ کہنا غلط ہے کیونکہ ان کی ذاتی اطلاع کے مطابق ان سب ملزمان کو ستائیس اور اٹھائیس فروری 2002ء کی رات پولیس نے مختلف جگہوں پر چھاپے مار کر گرفتار کیا‘‘۔ ایسے گواہان‘ جن کی گواہی کو جج خود غلط تسلیم کر رہا ہو‘ پر انحصار کرتے ہوئے دی گئی سزا کیا قانونی کہلا سکتی ہے؟
گودھرا ٹرین کے واقعہ کے بعد عوامی اور بین الاقوامی ردعمل کے بعد اس کی ''غیر جانبدارانہ‘‘ تفتیش کیلئے بھارتی سپریم کورٹ کے حکم پر گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے ایک ''سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم‘‘ تشکیل دی اور اس کا ہیڈ تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آر کے رگھوان کو بنایا گیا جبکہ اس میں گجرات پولیس سے تعلق رکھنے والے تین ارکان‘ انسپکٹر جنرل پولیس اشیش بھاٹیہ، گیتا جوہری اور شیوا نند جھا‘ بھی تھے۔ اس ٹیم کی مدد کیلئے نریندر مودی نے گجرات پولیس کے اہلکاروں کو تعینات کیا جن میں حیران کن طور پر گجرات پولیس کا سپرنٹنڈنٹ پولیس ''نوئیل پارمر‘‘ بھی شامل تھا جو اس سے پہلے گجرات پولیس کی طرف سے گودھرا سانحہ کی تحقیق کرنے والا چیف انویسٹی گیشن آفیسر تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جب نوئیل پامر کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تو اس وقت وہ اپنی مدتِ ملازمت پوری کرنے کے بعد چوتھی بار ایکسٹیشن پر تھا۔ جب اس پر غیر جانبدار حلقوں اور سول سوسائٹی نے شور مچایا تو پارمر کی جگہ اس کے نائب رامیش پٹیل کو نامزد کر دیا گیا۔ غیر جانبدار رائے عامہ کے ساتھ یہ نہایت سنگین مذاق تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر بنائی گئی کمیٹی میں پورے بھارت سے کوئی افسر لینے کے بجائے تینوں افسران گجرات پولیس سے لیے گئے۔ اس کمیٹی کے چیئرمین رگھوان مہینے میں صرف تین دن گجرات آتے تھے اور ان کی تیار کی گئی رپورٹ کا تمام تر انحصار بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعلیٰ گجرات نریندر مودی کے نامزد کردہ گجرات پولیس کے درج بالا افسران پر تھا۔ گیارہ فروری 2009ء کو سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم کے ہیڈ رگھوان نے سپریم کو رٹ میں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ہم نے انتہائی باریک بینی سے ایک ایک پہلو کی مکمل تحقیق کی ہے اور ہم گجرات پولیس کی طرف سے کی گئی تفتیش سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔ اس کے برعکس مرکزی حکومت اور ریلوے کے وزیر کی طرف سے قائم کئے گئے جسٹس نانا وتی کمیشن نے اس کے بالکل برعکس رپورٹ پیش کی مگر اس رپورٹ کو عدالت نے قابل سماعت ہی نہیں گردانا۔
گجرات پولیس کی طرف سے پیش کئے گئے استغاثہ کے دو نکات‘ جن کو بنیاد بنا کر کیس کا فیصلہ کیا گیا‘ جج پٹیل کے بقول سازش اور منصوبہ بندی کو ثابت کرتے ہیں۔اول: استغاثہ کے گواہ کی شہادت کو مانتے ہوئے کہا گیا کہ 26 فروری 2002ء کی رات گودھرا سٹیشن کے قریب واقع امن گیسٹ ہائوس میں دو خفیہ میٹنگزکا انعقاد ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گہا کہ سبرمتی ایکسپریس‘ جو گودھرا سے گزرے گی‘ کی بوگی S-6 کواگلی صبح جلانے کیلئے پٹرول حاصل کیا جائے۔ گجرات پولیس کے استغاثہ کے مطابق گودھرا سٹیشن پر کام کرنے والے پانچ وینڈر بھی پہلی خفیہ میٹنگ میں شریک تھے۔ دوسری میٹنگ جو پٹرول حاصل کرنے کے بعد ہوئی‘ اس میں بلال حاجی، فاروق بھانا اور دو وینڈر شریک تھے اور یہ 140 لیٹر پٹرول نزدیکی کالا بھائی پٹرول پمپ سے خریدا گیا تھا۔
دوم: استغاثہ کے مطابق مسلم لیڈروں نے ایک ہندو وینڈر کو بھی مجبور کیا کہ وہ بوگی کو آگ لگائے اور وقوعہ کے پانچ ماہ بعد 9 جولائی کو گجرات پولیس نے اجے کن باریہ نامی اس ہندو کو پیش کیا جس نے تفتیشی ٹیم کو بیان دیتے ہوئے کہا ''ستائیس فروری کی صبح سبرمتی ایکسپریس کے گودھرا پہنچنے کے فوری بعد گودھرا سٹیشن کے9 مسلمان ہاکر‘ جنہیں وہ عرصہ سے جانتا تھا‘ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے اور تیل کے کنستر لئے اور انہیں رکشوں میں رکھا اور مجھے بھی مجبور کیا کہ ایک رکشہ میں تیل کے ڈبے لوڈ کروں۔ کیا یہ مضحکہ خیز بات نہیں کہ مسلمان‘ ہندوئوں کی ٹرین کو جلانے کے لیے ایک ہندو کو زبردستی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اس کے سامنے نہ صرف رکشوں میں بوگی کو جلانے کیلئے پٹرول لے کر جاتے ہیں بلکہ اس سے پٹرول کے ڈبے رکشے میں لوڈ بھی کرواتے ہیں۔
گودھرا شہر 12وارڈز میں تقسیم ہے اور ہر وارڈ میں تین میونسپل انتخابی نشستیں ہیں۔ دسمبر 1999ء میں ہونے والے میونسپل کونسلر کے الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے گیارہ نشستیں، آزاد مسلمانوں نے سولہ نشستیں کانگریس نے پانچ اور بی جے پی کی حمایتی افراد نے چار نشستیں جیتی تھیں۔ اس مقدمے میں اہم ترین گواہ مرلی مول چند انتخابات سے پہلے گودھرا میونسپل کمیٹی کا صدر تھا لیکن دسمبر 1999ء میں ہونے والے انتخابات میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب گودھرا میونسپل کمیٹی کی صدارت کیلئے 19 ووٹ چاہیے تھے۔ کانگریس اور تین مسلم ووٹوں سے بی جے پی کا راجو درجی کمیٹی کے صدر منتخب ہوا تھا۔ میونسپل کونسلر دیپک سونی‘ جو اس مقدمہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے 9 گواہوں میں شامل تھا‘ کو تعلیمی بورڈ کا صدر بنا دیا گیا لیکن ایک سال بعد ہی سولہ مسلم، پانچ کانگریس اور تین ہندو کونسلرز پر مشتمل چوبیس ممبران کے اتحاد نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔ اس طرح محمد حسین کلوٹا میونسپل کمیٹی کا صدر منتخب ہو گیا۔ جب سبرمتی ایکسپریس کا گودھرا والا واقعہ پیش آیا تو شکست خوردہ راجو درجی، دیپک سونی اور مرلی مول چند اور بی جے پی کے چھ دوسرے ارکان گجرات پولیس کی طرف سے چشم دید گواہ بن گئے۔ حالانکہ ان میں سے دو وقوعہ کے روز گودھرا میں موجود ہی نہیں تھے۔ برسر اقتدار پارٹی کے ان ''چشم دید‘‘ گواہیوں پر انحصار کرتے ہوئے بھارت کی سپیشل عدالت نے گیارہ مسلمانوں کو سزائے موت اور بیس کو عمر قید کی سزا سنا دی۔اس کیس کا باقی خلاصہ اس وقت ہوا جب ہیمنت کرکرے کی رپورٹ میں یہ ثابت ہو گیا کہ گودھرا کا واقعہ انتہا پسند ہندو تنظیموں کی کارستانی تھی جس کا مقصد گجرات میں مسلمانوں کے خلاف محاذ کھولنا تھا۔ (ختم)