تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     21-01-2021

دیکھو یہ کون آ گیا!

چند عشروں کے دوران دنیا جن مراحل سے گزری ہے وہ بہت سی داستانیں سُناتے رہے ہیں۔ ہر مرحلہ ایک آزمائش تھا اور جنہیں اِس آزمائش سے گزرنا پڑا اُنہی کو اندازہ ہے کہ یہ سب تھا کیا۔ پاکستان کا شمار بھی اُن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے محض تبدیلی کو نہیں جھیلا بلکہ تبدیلی کے عمل سے بھی مار کھائی ہے۔ غلط پالیسیوں کے منطقی نتیجے کے طور پر دوسروں کی بہت سی جنگیں ہماری سرزمین پر لڑی گئی ہیں۔ اور یہ سلسلہ کسی حد تک اب بھی جاری ہے۔امریکا کے لیے بیسویں صدی بہت کچھ لے کر آئی تھی اور یورپ کے ساتھ مل کر اُس نے عالمگیر اقتدار کے خوب مزے لوٹے تھے۔ قدرت کا قانون ہے کہ جب بھی کوئی اُس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرتا ہے تب اُس کا تازیانہ حرکت میں آتا ہے اور خوب برستا ہے۔ اب امریکا اور یورپ کے معاملے میں ایسا ہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
یہ بات شاید بہت سوں کو عجیب لگے کہ امریکا اور یورپ پر برسنے والا تازیانہ کہاں ہے اور اِن دونوں خطوں نے ایسا کیا کِیا ہے کہ اِنہیں قدرت کی طے کردہ سزا جھیلنا پڑے۔ بات درست ہے کیونکہ جو کچھ دکھائی نہیں دیتا وہ سمجھ میں بھی مشکل ہی سے آتا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ تاریخ کی روشنی میں جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جب بھی کسی خطے کی بربادی آسمانوں میں طے کردی جاتی ہے تب حرام و حلال کی تمیز کا شعور چھین لیا جاتا ہے۔ معاملہ کھانے پینے کا ہو یا رشتوں کا، جن کی بربادی طے کردی گئی ہو اُنہیں حرام و حلال میں تمیز کے شعور سے یوں محروم کردیا جاتا ہے کہ خود اُنہیں بھی اس کا بہت دیر میں احساس ہو پاتا ہے اور تب تک پُلوں کے نیچے سے خاصا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔ مغرب کے معاملے میں یہی ہوا ہے۔
امریکا اور یورپ نے سوچ لیا تھا کہ اب اُن کے لیے کسی بھی سطح پر کوئی خطرہ نہیں ابھرے گا۔ منصوبہ سازی تھی ہی اِس نوعیت کی کہ کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ دونوں خطے تین چار صدیوں سے قبل عالمگیر اقتدار سے محروم ہوں گے۔ ہر کوتاہ بین معاملات کو اِسی طور دیکھتا، سمجھتا اور پرکھتا ہے۔ امریکا اور یورپ کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ مغرب نے سوچ لیا تھا کہ اب کسی کو ابھرنے بھی نہیں دینا اور اگر کوئی کسی طور ابھرنے میں کامیاب ہوجائے تو اُسے یوں دبوچنا ہے کہ اُس کے انجام سے دوسرے سبق سیکھیں اور عالمگیر قیادت کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ ایک زمانہ تھا کہ روس نے مغرب سے ٹکرانے کی تھوڑی بہت کوشش کی تھی مگر گرم پانیوں تک رسائی نہ ہو پانے کے باعث وہ اپنے عالمگیر نوعیت کے ارادوں کا پوٹلا باندھ کر ایک طرف ہوگیا۔ چین کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا ہے اور ہوتا دکھائی بھی نہیں دے رہا۔ اُس نے خالص تجارتی انداز کی ذہنیت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا ہے۔ دنیا بھر میں چین کے حوالے سے بنیادی تاثر یہ ہے کہ چین کو صرف تجارت سے غرض ہے، سٹریٹیجک معاملات سے نہیں۔ پوری دنیا میں یہ سوچا جاتا رہا ہے کہ چین اپنے خطے سے باہر نکل کر عسکری نوعیت کی مہم جوئی سے گریزاں ہی رہے گا کیونکہ ایسا کرنا اُس کے مزاج کا حصہ ہے نہ ترجیحات کا۔ بات ایک خاص حد تک درست بھی ہے۔ چین نے کم و بیش چار عشروں کے دوران ایک ایک قدم احتیاط سے رکھا ہے تاکہ کسی بھی دوسری بڑی قوت کے مفادات کو غیر ضروری ٹھیس نہ لگے اور کمزور ممالک بھی یہ محسوس نہ کریں کہ اُنہیں گھیرا جارہا ہے۔ آج ایشیا، افریقہ اور اوشیانا کے بہت سے ممالک میں چین اچھی طرح قدم جما چکا ہے۔ یہ سب کچھ اُس نے دھونس دھمکی کے ذریعے نہیں بلکہ بڑے پیمانے کی تجارتی سطح پر کیا ہے۔ جن ممالک کا بنیادی ڈھانچہ شکست و ریخت سے دوچار تھا اُنہیں دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے میں چین کا کردار نمایاں رہا ہے۔ ایشیا میں پاکستان اور سری لنکا اِس کی نمایاں مثال ہیں اور افریقہ میں تو چین کے اثرات اتنے نمایاں ہیں کہ چھپائے نہیں چھپ سکتے۔ مغرب سے اور کچھ تو ہو نہیں پارہا اس لیے اب وہ چین کے خلاف صرف پروپیگنڈے کے محاذ پر سرگرم ہے۔ چین کی تجارتی ذہنیت کا راگ الاپ کر چھوٹے ممالک کو ڈرایا جارہا ہے کہ اگر انہوں نے چین سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہوئے معاملات میں معاشی اشتراکِ عمل کی منزل تک پہنچنے کی کوشش کی تو نقصان اٹھائیں گے کیونکہ چین ہر معاملے کو صرف اور صرف تجارت یعنی نفع و نقصان کے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے۔ 
کسی حد تک یہ بات ٹھیک ہے مگر سوال یہ ہے کہ دنیا میں کون سی ریاست ہے جو تمام معاملات کو نفع و نقصان کی کسوٹی پر نہیں پرکھتی۔ ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پس ماندہ‘ تمام ہی ریاستیں اپنے معاملات کو صرف اور صرف نفع و نقصان کی کسوٹی پر پرکھتی آئی ہیں۔ ایسے میں اگر چین ایسا کر رہا ہے تو عجیب بات کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ چین نے مغرب کی توقعات کے خلاف جاتے ہوئے کچھ زیادہ ہی تیزی سے اپنے آپ کو منوالیا ہے۔ مغرب ایک زمانے تک اس گمان میں مبتلا رہا کہ چین کی غیر معمولی آبادی اُس کی ترقی کی راہ میں حائل رہے گی۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ آبادی کو ترقی کے لیے تیار کرنے میں چینی قیادت کو غیر معمولی محنت کرنا پڑی۔ اندرونِ ملک استحکام یقینی بنانے کے بعد ہی چینی قیادت کچھ کر سکتی تھی۔ خوراک، توانائی، تعلیم و صحتِ عامہ اور نظم و ضبط کے حوالے سے معاشرے کو اچھی حالت میں لانے کے بعد چین نے باہر کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ اور یہ دیکھنا ہی غضب ہوگیا۔چینی قیادت نے غیر معمولی آبادی کو تعلیم و تربیت سے بہرہ مند کرکے اور صحتِ عامہ کا قابلِ رشک معیار یقینی بناکر دنیا کو بتادیا کہ اب وہ بیرونی سطح پر کچھ بھی کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک عشرے کے دوران چین زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ کئی خطوں میں اُس کی سرمایہ کاری اِتنی زیادہ ہے کہ مغربی طاقتوں کو اب اپنے عالمگیر اقتدار کی کشتی ڈولتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ سمجھا جارہا تھا کہ امریکا اب ڈھائی تین صدیوں تک تو مزے سے دنیا پر راج کرے گا مگر اُس کے عالمگیر راج کا دورانیہ تو محض ایک صدی، بلکہ آٹھ دہائیوں تک محدود رہا ہے جبکہ یورپی قوتوں نے کم و بیش چار صدیوں تک باقی دنیا کو خاصی مضبوطی سے اپنی مٹھی میں جکڑ کر رکھا تھا۔
چین بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر راتوں رات نہیں۔ وہ تحمل پسند ہے اور پُھونک پُھونک کر قدم رکھتا آیا ہے۔ چینی قیادت کا ہر معاملہ نپا تُلا ہے، پورے اندازے کے ساتھ ہے۔ وہ فی الحال عسکری سطح پر زیادہ متحرک ہونے کے موڈ میں نہیں۔ کوشش تو بہت کی گئی ہے کہ چین کسی خطے میں عسکری طور پر متحرک ہو مگر چینی قیادت نے اب تک خاصے تحمل سے کام لیا ہے۔ جہاں گنجائش ہو وہاں وہ اپنی مرضی کا کھیل ضرور کھیلتی ہے جیسا کہ بھارت کے معاملے میں ہوا ہے۔ اروناچل پردیش میں چین نے بھارت کو تگنی کا ناچ نچایا ہے۔ پاکستان کو آنکھیں دکھانے والا اور بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال جیسے چھوٹے اور کمزور ممالک کو کچا چبا جانے کی غیر علانیہ دھمکیاں دینے والا بھارت وہ ''شیر‘‘ ہے جو چین کے سامنے بھیگی بلّی بنا بیٹھا ہے۔
خیر! بات ہو رہی تھی امریکا اور یورپ کی پریشانی کی۔ سیدھی سی بات ہے کل تک دنیا کو ڈرانے کے لیے شیر آیا شیر آیا کا شور مچایا جارہا تھا۔ اب واقعی شیر آگیا ہے تو مغربی طاقتوں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ بدلی ہوئی عالمی صورتحال میں کریں تو کیا کریں۔اب امریکا اور یورپ کے پاس باقی دنیا کو چین سے ڈرانے کا آپشن ہی رہ گیا ہے مگر یہ آپشن بھی کب تک بروئے کار لایا جائے گا۔ دنیا اِتنی بے وقوف تو نہیں جتنی سمجھی جاتی ہے۔ سبھی کو اندازہ ہے کہ امریکا اور یورپ اپنے اقتدار و برتری کے لیے بقا کا مسئلہ کھڑا ہوتا دیکھ کر صرف شور مچاکر دنیا کی توجہ اصل معاملے سے ہٹانا چاہتے ہیں مگر یہ راگ دنیا چاؤ سے سُنے گی نہیں کیونکہ اِس راگ کے سُر کچے ہیں اور سانس بھی پورا نہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved