تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     22-01-2021

پی ڈی ایم کیوں فیل ہوئی؟

بر صغیر جنوب مشرقی ایشیا کی سیاست‘سیاسی الائنس بنانے کے لیے بہت مشہور ہے۔ ساتھ ساتھ قدرت نے ایسے غیر قدرتی الائنسز کو دفنانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔1947ء سے پہلے اور پھر پاکستان کے قیام کے بعد بھی بہت سی بڑی بڑی سیاسی موو منٹس وقت کی گرد کے نیچے دب کر رہ گئیں اور ان کو سسکنے کا موقع تک نہ مل سکا۔ ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ایک زمانے میں خاکسار تحریک اور مجلسِ احرار کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔ مذہبی سیاست کرنے والی اور بھی کئی پارٹیوں کو انقلابی تحریک کا نام دیا گیا لیکن ان کے نتیجے میں صرف اتنا سا انقلاب آیا کہ وہ تحریک بِن کھلے خود ہی مرجھاگئی۔ کسی تپتے ہوئے صحرا کے جھلسے ہوئے پھول کی طرح ۔اس طرح کے ناکام سیاسی الائنسز کی تاریخ‘ جگتو فرنٹ سے شروع کرکے پی ڈی ایم تک‘ سیاست کا ایک پورا کیس سٹڈی ہے جس کے کئی علیحدہ علیحدہ چیپٹر بن سکتے ہیں۔قانون کے بغیر نہ کوئی ریاست چل سکتی ہے‘ نہ سیاست اور نہ ہی کوئی سوسا ئٹی‘اس لیے قانون کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ کھوج لگانا ضروری ہے کہ 11عدد پولیٹکل پارٹیز کے زور پر اور ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی انویسٹمنٹ سے بنایا گیا تازہ ترین سیاسی اتحاد ‘پی ڈی ایم کیوں کر فیل ہوا؟
پی ڈی ایم کی بنیاد اُسی دن رکھ دی گئی تھی جس دن2018ء میں اگست کی 17 تاریخ کو پاکستان کے22ویں وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے وزارتِ عظمیٰ کیلئے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تھا۔ اسی دن یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ پاکستان میں' سٹیٹس کو‘ کی طاقت سے چلنے والی سیاسی پارٹیوں اور پی ٹی آئی کی حکومت کے درمیان تبدیلی روکنے اور تبدیلی لانے کے محاذ پر شدید سیاسی جنگ ہوگی۔ پی ڈی ایم کے لیے دوسرا مرحلہ وہ تھا جب 'سٹیٹس کو‘ کی سیاست کرنے والی دو سیاسی جماعتوں نے وزیر اعظم کو مفاہمت کی سیاست کا مزہ چکھنے کی پر فریب دعوت دی۔ ان میں سے پہلی دعوت شریف خاندان کی سنگل اونر شپ میں چلنے والی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے میثاقِ معیشت کے نام پر دی گئی۔
یہ بھی کیا تماشا ہے کہ جن پر پچھلے چار عشروں میں باربار معیشت کی بربادی کے ٹرائل ہوئے وہ اپوزیشن میں آتے ہی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے مفت مشورے دینا چاہتے تھے۔ وہ بھی ایک ایسی اینٹی 'سٹیٹس کو‘ سیاسی جماعت کو جس نے پاکستان کے حکمران خاندان کہلانے والوں کو اپنی ہی اڑائی ہوئی دھول چاٹنے پر مجبور کردیا۔ چارٹر آف اکانومی کی بات کرنے والے وہی تھے جنہوں نے اکانومی سے کالا دھن پیدا کر کے اسے منی لانڈرنگ کی مشین تک پہنچانے کا وہیکل سمجھ رکھا تھا۔تُرپ کا دوسرا پتہ وہاں سے آیاجہاں سے پاپڑ والے کے اکائونٹ میں چار ارب روپے آئے تھے۔ فرمایا گیا کہ نیب اور پاکستان اکٹھے نہیں چل سکتے اس لیے پاکستان کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ جیسا تیسا احتساب کا نظام ملک میں چل رہا ہے ‘اس پر بھی تالے لگا دیئے جائیں۔
اسی عرصے میں ایف اے ٹی ایف قانون بنانے کی ضرورت پیش آئی۔ فوراً 'سٹیٹس کو‘ کی فورسز نے اس قانون سازی کو روکنے کے لیے دو روڈ بلاکس شاہراہ دستور پر لا کر رکھ دیئے‘ان میں سے پہلا روڈ بلاک این آر او کی ڈیمانڈ والاتھاجس کے بارے میں دو منہ والے سانپ جیسی پالیسی اپنائی گئی‘ایک منہ پھنکارتا رہا اور پھن پھیلا کر کہتا رہا کہ کون مانگ رہا ہے این آر او؟کس سے مانگ رہا ہے این آر او؟ جبکہ دوسرا منہ این آر او کے لیے اندر خانے میں ایک ہی بین بجا کر لہراتارہا ۔شاعر کی زبان میں۔
قدموں میں ترے جینا مرنا
اب دُور یہاں سے جانا کیا
اسی دوران پی ڈی ایم کی جماعتوں کو یہ سمجھ آئی کہ ایف اے ٹی ایف کا قانون بنانا ریاست پاکستان کی مجبوری ہے۔اُس ٹیم کے گھاگ کھلاڑی یہ بھی جان چکے تھے کہ ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی نہ ہونے کی صورت میں پاکستان بلیک لسٹ ہو جائے گاجس کے نتیجے میں ہماری رینگتی ہوئی معیشت پر بین الا قوامی Sanctionsکا پہاڑ آگرے گا‘ اس لیے سپیکر ہائوس میں قانون سازی کے بارے میں ایک میٹنگ کے دوران مسلم لیگ( ن) اور پی پی پی کی طرف سے دو قریبی رشتے داروں نے تھیلے سے نکال کر 34 نکاتی این آر او پی ٹی آئی حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے حوالے کر دیا۔ دونوں کشمیری برادری کے ایک ہی کشمیری خاندان سے ہیں۔ ایک پی پی پی میں ‘دوسرا مسلم لیگ (ن )میں ہے لیکن دونوں کی خاص بات یہ ہے کہ دونوں حضرات مولانا صاحب کی طرح اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بتاتے ہیں۔ ان دونوں کو اس آرٹ پر مکمل عبور حاصل ہے ‘جس کے ذریعے وہ حکمرانوں کے منی لانڈرنگ کلب آف پاکستان میں مفاہمت کے سہولت کار سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام اومنی اکائونٹس کے بینیفشریز میں موجود ہے جبکہ دوسرے کا ذکر ٹاپ تھری اقامہ ہولڈرز میں پایا جاتا ہے۔
پی ڈی ایم کے تیسرے کھلاڑی مولاناصاحب ہیں ۔اردو محاورے کے مطابق وہ سیاست کے 12ویں کھلاڑی بن چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک نوجوان اُمید وار کے ہاتھوں اپنے گھر میں اپنی آبائی سیٹ پر عبرتناک شکست کے بعد وہ اسمبلی سے باہر بیٹھے ہیں۔ آج کل ان کا سب سے بڑا مسئلہ ایک سوال ہے جو اُن کا پیچھاہی نہیں چھوڑ رہا ‘حالانکہ سوال بڑا سادہ ہے کہ آپ کے نام اربوں کی جائیدادیں جس دوست نے خرید کردی ہیں اس دوست کا نام بتادیں تاکہ آپ کے اس مہربان دوست سے منی ٹریل اور سورس آف انکم دریافت کیا جاسکے‘اللہ اللہ خیر سلا‘ لیکن مولانا صاحب اس مہربان دوست کانام خفیہ رکھنے کی ضد کر بیٹھے ہیں۔بالکل ویسی ہی ضد جیسی شاعر کے دل سے نکلی ۔ دل غلطی کر بیٹھا ہے‘غلطی کر بیٹھا ہے دل۔
حالات اور واقعات کے اس پس منظر میں جھانک کر دیکھیں تو پی ڈی ایم کی کیمسٹری میں تین بڑے تضادات صاف دکھائی دیتے ہیں‘جن کی وجہ سے یہ سیاسی اتحاد بے موت مارا گیا۔
پہلا تضاد:پی ڈی ایم کی ہر جماعت کے اندر سیاسی مفادات کے ٹکرائو کو سب سے بڑا تضاد کہا جاسکتا ہے۔مولانااپوزیشن کی پارٹیوں کو استعفیٰ دینے پر راضی کرتے رہے لیکن اپنے7 ‘8 اہلِ خانہ میں سے کسی ایک کا استعفیٰ دینے پر بھی تیار نہ ہوئے‘اس لیے اعتماد کا کرائسس دور نہ ہو سکا۔
دوسرا تضاد پارلیمنٹ کے مختلف ایوانوں سے نکلنے کے فیصلے پر سامنے آیا۔یہ فیصلہ پی ڈی ایم کے گلے کی ہڈی بن گیا۔ایسی ہڈی جو نہ نگلی جاسکتی ہے‘ اور نہ ہی گلے سے باہر آسکتی ہے۔ایسے میں حرکتِ قلب بند ہونا یقینی تھا۔ 
تیسرا تضاد مختلف حلقوں کے ضمنی اور سینیٹ الیکشنز نہ لڑنے کے بارے میں سامنے آیا ۔جن اسمبلیوں کو جعلی اور دھاندلی زدہ قرار دے کر توڑنے کا مطالبہ کیا گیا‘پی ڈی ایم کے سارے پولیٹکل ایکٹرز بلکہ پوری پی ڈی ایم انہی اسمبلیوں کے الیکشن پر مرمٹی۔
آپ پی ڈی ایم کی رحلت پر سوچ رہے ہوں گے ‘پی ڈی ایم کا یجنڈا کیا تھا؟ایک عام پاکستانی شہری کی حیثیت سے میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔جو معصوم پاکستانی رینٹ اے کرائوڈ میں شامل ہو کر الیکشن کمیشن کے باہر پہنچے تھے ‘وہ بھی یہی سوچ رہے ہیں۔
پشت سے کس نے خنجر بھونکا؟
لنگر ٹوٹے پانسا پلٹا 
وائے مقدر! یہ پسپائی 
اُف رے ہزیمت! یہ رسوائی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved