تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     22-01-2021

روح پر سائنسی تحقیق اور بے بسی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''میرے حبیبﷺ! وہ لوگ آپﷺ سے روح کے متعلق سوال کر رہے ہیں تو انہیں بتا دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے، باقی علم میں سے تم لوگوں کو جو کچھ دیا گیا ہے‘ وہ انتہائی قلیل ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل: 85)
یہودیوں کے کہنے پر مکہ کے مشرکوں نے حضرت محمد کریمﷺ سے روح کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا جواب نازل فرمایا جو سورہ بنی اسرائیل میں ہے، یعنی اس سوال کے پیچھے یہودی علما تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بات واضح کر دی کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے امر یعنی حکم میں سے ایک خاص شے ہے جس کا نام روح ہے، وہ انسان میں پھونکی جاتی ہے تو زندہ انسان اپنی زندگی کا ثبوت فراہم کرتا ہے اور جب اس خصوصی شے سے محروم ہو جاتا ہے تو مردہ کہلاتا ہے ۔
آج سے سات صدیاں پہلے عالمِ اسلام کے مایہ ناز عالمِ دین، فقیہ اور ریسرچر حضرت علامہ محمد بن ابو بکر شمس الدین المعروف امام ابن قیم نے ''کتابُ الرّوح‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس میں انہوں نے ریسرچ کا حق ادا کر دیا۔ قرآن و حدیث کے حوالوں سے جہاں اس کتاب کو مزین کیا‘ وہیں خواب کی دنیا میں ریسرچ کر کے واقعات سامنے لائے۔ قریب المرگ لوگوں پر تجربات بھی سامنے لائے۔ غیر اسلامی مذاہب روح کے بارے میں کیا کہتے ہیں‘ اس ریسرچ کو بھی انہوں نے پیش کیا؛ یوں یہ کتاب گزشتہ صدیوں میں اپنے موضوع پر ایک اتھارٹی سمجھی جاتی ہے۔ 
عالمی سطح پر اس موضوع پر دوسری کتاب ریمنڈ موڈی کی ہے۔ وہ امریکہ کے معروف فزیشن ڈاکٹر تھے۔ ریسرچر اور فلسفی بھی تھے۔ موت کے بعد زندگی کے عنوان سے انہوں نے انگریزی میں ضخیم کتاب لکھی۔ 1975ء میں یہ کتاب شائع ہوئی، یہ بھی قریب المرگ لوگوں پر تجربات کے واقعات پر لکھی گئی۔ امام ابن قیم نے بھی یہی کہا کہ موت کا مطلب انسان کی روح کا اگلی زندگی میں منتقل ہونا ہے۔ ریمنڈ موڈی نے بھی اپنی کتاب میں یہی بات اپنے تجربات اور میڈیکل سائنس کی روشنی میں کہی۔ 
بیسویں صدی کے اختتامی عشرے میں امریکا میں اسی موضوع ''قریب المرگ تجربات‘‘ پر تحقیق کا آغاز کیا گیا۔ ڈاکٹر سام پارنیا اس کے سربراہ تھے۔ دنیا بھر کے اداروں کو اس ادارے کے ساتھ نتھی کیا گیا۔ نیویارک میں قائم ہیڈ کوارٹر میں 40 ہزار تجربات کے نتائج کو سامنے رکھا گیا۔ 2013ء میں بلجیم کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں فیصلہ دیا کہ ''قریب المرگ تجربات ‘‘ ایک حقیقت ہیں اور جو لوگ ان تجربات سے گزرے ہیں ان کی شخصیتوں میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ ان کے کردار انسان دوست بن گئے‘ مزاج نرم ہو گئے‘ اخلاق اچھے بن گئے اور موت کے ڈر سے وہ بے خوف ہو گئے۔
قارئین کرام! قریب المرگ تجربات میں تازہ ترین تجربہ دنیا کی ایک ایسی شخصیت کا ہے کہ جو ایک مشہور سیاسی شخصیت تھیں۔ یہ محترم صائب عریقات تھے۔ ''تنظیم آزادیٔ فلسطین‘‘ کے بانی ارکان میں سے ایک۔ صائب عریقات سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات کے قریبی اور معتمد ساتھیوں میں سے ہیں۔ 1993ء میں جب امریکی صدر بل کلنٹن نے ناروے کے دارالحکومت ''اوسلو‘‘ میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ کروایا تو اس معاہدے میں صائب عریقات بھی شامل تھے۔ 2000ء میں جب کیمپ ڈیوڈ میں مذاکرات ہوئے تب بھی صائب عریقات اپنے لیڈر یاسر عرفات کے ساتھ موجود تھے۔ وہ یاسر عرفات کی کابینہ میں بھی وزیر تھے اور موجودہ فلسطینی صدر محمود عباس کی کابینہ میں بھی وزیر زراعت تھے۔ وہ القدس (یروشلم) شہر کے مشرقی حصے میں 28 اپریل 1955ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 64 سال کی عمر میں (2019ء میں) وہ دل کی تکلیف کے باعث القدس کے ''ھواسا ہسپتال‘‘ میں داخل ہوئے۔ نازک حالت کے باعث انہیں فوری طور پر اسرائیلی دارالحکومت 'تل ابیب‘ لے جایا گیا جہاں آپریشن تھیٹر میں ان کا دل بند ہو گیا۔ تین منٹ اور بیس سیکنڈ تک ان کا دل بند رہا۔ دل رکنے کے باعث دماغ کی جانب خون کی سپلائی بند ہو گئی۔ دماغی شعور ختم ہو گیا؛ چنانچہ مسلم اور یہودی ڈاکٹروں نے صائب عریقات کی موت کا اعلان کر دیا۔ کچھ سیکنڈز بعد ہی عریقات کے بدن میں زندگی کی رمق محسوس ہوئی۔ ڈاکٹروں نے دوبارہ جدوجہد شروع کر دی اور دل نے دھڑکنا شروع کر دیا تو دماغی شعور نے بھی انگڑائیاں لینا شروع کر دیں۔ صائب عریقات کی اس تازہ دم زندگی نے سب کو حیران کر دیا۔
صائب عریقات تندرست ہو کر اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ اردن کے معروف صحافی خلیفہ تونی نے صائب عریقات کا انٹرویو کیا تو انہوں نے بتایا کہ میں اپنے جسم کو چھوڑ کر آسمان کی جانب اڑنے لگا۔ ایسے تھا کہ میں ایک ہوا ہوں اور پرواز کر رہا ہوں۔ تاحدّ نظر حیران کر دینے والا عجیب و غریب خوبصورت آسمان تھا اور میں جسم کے بغیر انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ محوِ پرواز تھا۔ کوئی سمت نہ تھی اور وسعتوں کا کوئی اندازہ و پیمانہ نہ تھا۔ الغرض! اس آسمان میں کیا تھا‘ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ الفاظ میں اس منظر کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگلے جہان کا ایک منظر تھا جس میں اللہ کی قدرت کا نظارہ تھا۔ موت کے بعد کی زندگی پر بطورِ مسلمان ایمان تو تھا ہی مگر اب تو آنکھوں دیکھا یقین بھی ہو گیا لہٰذا میں کہتا ہوں کہ یہ جو موت ہے‘ یہ تو اگلے جہان کی زندگی ہے۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: یہ جو موت ہے اس کا مطلب اپنے خالق سے ملاقات ہے۔ صائب عریقات اس کے بعد ایک سال اور چند ماہ مزید زندہ رہے‘ گزشتہ سال وہ بیمار ہوئے تو پھیپھڑوں پر کورونا نے حملہ کر دیا اور دس نومبر 2020ء کو وہ فوت ہو گئے۔
قارئین کرام! صائب عریقات کا Near death experience (NDE) کا واقعہ بھی پوری تفصیلات کے ساتھ نیویارک میں واقع ڈاکٹر سام پارنیا کے ریسرچ سینٹر میں پہنچ گیا؛ چنانچہ 6 جنوری 2021ء کو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اس پر مزید ریسرچ کریں گے اور اپنی اگلی تازہ ترین تحقیق دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ دنیا بھر سے انہوں نے ایسے واقعات کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔ Electroencephalography (ای ای جی) مشین کے رزلٹ دیکھے اور پھر انہوں نے اعلان کیا۔
قارئین کرام! اس تازہ ترین اعلان سے پہلے ان ماہرین کی زبانی ایک اہم حقیقت مدنظر رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ جب دل کی دھڑکنیں بند ہونے لگتی ہیں تو دل سے نکلنے والی الیکٹرک لہریں یا شعائیں متزلزل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اسے میڈیکل کی زبان میں Cardiac arrest کہا جاتا ہے۔ جی ہاں! Arrest کا مطلب گرفتاری ہے یعنی کسی خفیہ ہاتھ نے دل سے نکلنے والی لہروں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور ''رگِ جان‘‘ کو جان کے لالے پڑ گئے۔ جس پر یہ کیفیت طاری ہو جائے اس کے بچنے کا چانس دس فیصد ہوتا ہے‘ یعنی 100 میں سے کوئی دس بندے ہی بچ پاتے ہیں۔ لوگ بے چارے کہتے پھرتے ہیں کہ دل پر اٹیک ہو گیا۔ ارے! حملہ کس نے کیا؟
قارئین کرام! آگے بڑھتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ دل پر حملے کے بعد 100 میں سے جو دس لوگ بچ پاتے ہیں ان میں کوئی خال خال یعنی لاکھوں میں سے کوئی ایک ہی ''قریب المرگ تجربے‘‘ یعنی NDE سے گزرتا ہے اور پھر اپنی داستاں سناتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دل جو اچانک خراب ہونا شروع ہوتا ہے‘ اس کی خرابی (Malfunction) کا کوئی پتا نہیں چلتا۔ یہ حیران کن ہے۔ آج سے نصف مہینہ پہلے یعنی 6 جنوری 2021ء کو نیویارک میڈیکل سینٹر کے ڈاکٹرز سے جدید ریسرچ کا یوں اعلان کیا:
Cardiac arrest is the closest state a person can come to death.
مطلب: دل کی گرفتاری کا مطلب یہ ہے کہ بندہ موت کی قریب ترین حالت تک جا سکتا ہے۔
اب دل چند سیکنڈر کے لیے بند ہو جائے تو دماغ کو خون کے ذریعے جو آکسیجن ملتی ہے‘ وہ بند ہوتے ہی دماغ کے خلیات موت سے دوچار ہونا شروع ہو جاتے ہیں مگر مصنوعی طریقے سے سانس جاری رکھا جائے یا دل کی دھڑکن کو دھڑکایا جائے‘ بندہ پھر بھی مر جاتا ہے اور مزید حیرانی یہ ہے کہ دل سیکنڈز نہیں بلکہ منٹوں تک بند رہتا ہے‘ دماغ جامد ہو جاتا ہے‘ اس موقع پر یادداشت اور شعور کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ ای ای جی جیسی مشینوں کے کام سے ہوتا ہے۔ یہ چیز سمجھ نہیں آتی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کیا شعور (روح) کوئی شے ہے جو اس مادی وجود اور جسم سے الگ کوئی چیز ہے اور وہ مرتا نہیں۔ اسی طرح جو لوگ ایسی کیفیت سے واپس آتے ہیں وہ جو کچھ بیان کرتے ہیں‘ وہ بھی ایک معمہ ہے۔ لوگوں کے شعور نے جسم سے الگ ہو کر یہ سب منظر بتائے کہ کون کون سا ڈاکٹر اس کے دل وغیرہ کے ساتھ کیا کر رہا تھا۔ ایسے واقعات ہزاروں ہیں؛ چنانچہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ Which still remains an enigma۔ کہ یہ بات ابھی تک سمجھ میں نہ آنے والی ہے‘ معمہ ہے اور ایک (علمی) اندھیرا ہے۔
اللہ اللہ! سبحان اللہ... لوگو! جدید میڈیکل سائنس نے حقائق بھی بتلا دیے اور اپنی بے بسی کا اظہار بھی کر دیا۔ مولا کریم نے کیا خوب فرمایا: (میرے حبیبﷺ) کاش! آپﷺ ظالم لوگوں کو اس حالت میں دیکھ سکیں کہ جب وہ موت کی بے ہوشیوں میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ پھیلا پھیلا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لائو‘ نکالو اپنی جان۔ آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بَکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے۔ (الانعام: 93) یا اللہ! کسی پر ظلم کرنے سے ہمیں محفوظ رکھنا۔ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved