تحریر : اسد طاہر جپہ تاریخ اشاعت     22-01-2021

دُھند کا راج

گزشتہ کم و بیش چھ ہفتوں سے وسطی پنجاب سمیت ملک کے بیشتر علاقے سردی کی شدید لپیٹ میں ہیں اور چار سُو دھند کا راج ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ہر سال موسمِ سرما کے آغاز میں جب پہاڑوں پر برف باری شروع ہوتی ہے تو بتدریج یخ بستہ ہوائیں ملک بھر میں سردی کی لہر پھیلا دیتی ہیں۔ لوگ پہاڑی علاقوں میں پڑنے والی برف باری کے دل ربا نظارے دیکھنے قطار اندر قطار نکل پڑتے ہیں۔ سیر و سیاحت کے شوقین حضرات ٹولیوں اور گروہوں میں پہاڑوں کی آغوش میں جائے پناہ تلاش کرتے ہیں اور ٹھنڈے موسم کا مزہ دوبالا کرتے ہیں۔ مگر دھند کی شدت کی وجہ سے یہ سارے مزے اور قدرتی مناظر اس وقت بے معنی ہو جاتے ہیں جب موٹروے اور ذیلی شاہراہیں بند کر دی جاتی ہیں، گاڑی چلانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے اور کاروبارِ زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس موسم کا سب سے خطرناک پہلو حادثات کی شرح میں خوفناک اضافہ ہے جو درجنون بلکہ سینکڑوں قیمتی انسانی جانیں لقمہ اجل بنا دیتا ہے۔ گھر سے خوش و خرم نکلنے والے اپنی منزلِ مقصود پر پہنچنے کے بجائے راہِ عدم کے مسافر ٹھہرتے ہیں اور یوں منزل روٹھ جاتی ہے، مسافت چھوٹ جاتی ہے اور رفاقت ٹوٹ جاتی ہے۔
مگر پھر سوچتا ہوں کہ دھند کا موسم تو محض چند ہفتوں کیلئے آتا ہے اور ہر سال اپنے عارضی جوبن کے بعد رخصت ہو جاتا ہے۔ سرد موسم اور برفباری کے ساتھ جڑی یہ موسمی دھند اور عارضی تبدیلی شاید اتنی نقصان دہ نہیں جتنی انسانی عقل پر چھائی تعصب، تکبر، جہالت، منافقت، تفرقہ بازی، لسانی، نسلی اور قومی تفاخر سے پیدا ہونے والی دھند تباہ کن ہے جو صدیوں سے انسانی معاشرے میں آگ اور خون کا بازار گرم کرتی آئی ہے۔ انسان کو انسان سے افضل، بالاتر اور برتر ثابت کرنے کی سعیٔ لاحاصل اسی منفی سوچ کا شاخسانہ رہی ہے اور یہی دھند آلود رویے انسانی معاشروں میں تفرقہ بازی، انتہاپسندی، گروہی اور لسانی تقسیم پر مبنی شدت پسندی کا باعث بنتے آئے ہیں۔ سیاست، دولت، شہرت اور تجارت کی طاقت اور نشے میں چُور انسان مختلف شکلوں میں بظاہر کامیاب منصوبہ بندی اور بہترین حکمتِ عملی اپناتے ہوئے تعصب، تکبر اور تقسیم کا آلہ کار بنا اور کامیابی کی منزل سے کوسوں دور فکری اور عقلی دھند آلود راستوں کی بھول بھلیوں میں کھو گیا اور تاریخِ انسانی میں نیک نامی کمانے کے بجائے ذلت اور رسوائی اپنے نام کر بیٹھا۔ کئی طالع آزمائوں نے اپنی قومیں، اپنے قبیلے اور ملک تباہ کرا لئے مگر تکبر اور تعصب کی عینک کے شیشوں پر جمی دھند کی آلودگی صاف کرنے کے بجائے اپنے گمراہ کن نظریات کا پرچار کرنے میں مگن رہے۔
تاریخِ انسانی میں ایسے کردار اور مثالیں بدرجہ اتم موجود ہیں مگر تازہ ترین مثال 2016ء میں منتخب ہونے والے امریکا کے پینتالیسویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہے جنہیں امریکی عوام نے ان کے دل پذیر نعرےMake America Great Again کی خوبصورتی کی بدولت منتخب کیا اور اُن سے بڑی بڑی توقعات باندھ لیں۔ بین الاقوامی چودھراہٹ اور پے درپے جنگوں سے بیزار اور ملک میں بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی اور بیروزگاری سے دوچار امریکی عوام یہ سمجھ بیٹھے کہ یہی شخص ان کے جملہ مسائل کا حل دے گا، ان کے زخموں پر مرہم رکھے گا اور ان کے معاشی استحکام اور خوشحالی کا ضامن بنے گا، وہ دیوانہ وار بطورِ صدر ابتدائی ایام میں لئے گئے ٹرمپ کے فیصلوں پر شادیانے بجانے لگے اور بے پناہ داد و تحسین دیتے نظر آئے۔ تارکین وطن پر قافیۂ حیات تنگ کر دیا گیا اور مسلمانوں پر امریکا میں داخلے پر سخت پہرے بٹھا دیے گئے۔ اپنی مزید بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ذاتی دولت میں اضافے نے صدر ٹرمپ کو متکبر، بدزبان، بددماغ اور متعصب بنا ڈالا اور وہ طاقت کے بے لگام گھوڑے پر مسلسل چابک برساتے آگے بڑھتے رہے اور امریکا کو مضبوط کرنے کے بجائے اندر سے کھوکھلا، کمزور اور تقسیم کرتے رہے۔ گوروں اور کالوں میں خلیج بڑھی تو امریکا کی نظریاتی اساس اور تاریخی کردار پر کاری ضرب لگائی گئی۔ نسلی تعصب کو ہوا ملی اور جارج فلائیڈ کے واقعے نے امریکا میں نسلی فسادات کے نئے ریکارڈ قائم کر ڈالے۔ معاشی تفاوت تیزی سے بڑھتا رہا، پھر کورونا نے صدر ٹرمپ کی مکمل ناکامی بلکہ بربادی پر مہر ثبت کر دی اور وہ تکبر و تعصب کی دھند آلود سوچ کے زہر کا شکار ہو کر 2020ء کے صداتی انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہوئے۔ آخری لمحے تک وہ طاقت کے نشے میں چور امریکا کو ہزیمت و رسوائی سے دوچار کرتے نظر آئے ۔
کچھ اس سے ملتی جلتی مثال ٹرمپ کے سیاسی اتحادی اور فکری استدلال سے متاثر جنوبی ایشیا میں واقع نام نہاد سب سے بڑی جمہوری مملکت بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہے جو 2019ء میں دوسری مرتبہ منتخب ہو کر اپنی مقبولیت اور طاقت کے خمار میں بدمست ہاتھی بن کر بھارت میں نسلی اور مذہبی تقسیم کی سیاست کو فروغ دیتے نظر آتے ہیں اور بھارت میں بسنے والی غیر ہندو اکائیوں کے لئے زندگی اجیرن کر رہے ہیں۔ کئی سال سے بھارت پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگاتا آیا ہے اور دنیا بھر میں اس حوالے سے بدترین پروپیگنڈا کیا گیا مگر خود کشمیر کے نہتے اور معصوم شہریوں پر ریاستی جبر اور تشدد کی ایسی داستان رقم کی گئی جو ناقابلِ بیان ہے، بھارت کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت سے مسلسل انکاری چلا آ رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور ایسے کئی بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی اس کا شیوہ رہا ہے اور آئے روز مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشتگردی کی اندوہناک کارروائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مودی سرکار نے اگست 2019ء میں آرٹیکل 370 اور 35A کو نکال باہر کیا اور کشمیریوں سے آئینی خود مختاری کا حق چھین کر اپنے تئیں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا ڈالا۔ وہاں بے پناہ فوج کشی کر کے کرفیو نافذ کیا گیا اور اور بدترین ظلم و ستم کے نئے ریکارڈ بنا کر معصوم اور نہتے کشمیریوں پر زندگی کا دائرہ محدود کر دیا گیا۔ کشمیریوں میں زمین اور جائیداد کی خرید و فروخت بھی بھارت کے تمام شہریوں کے لئے کھول دی گئی جس کا مقصد کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا اور مقبوضہ کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھارت کا حصہ بنانا ہے۔ وزیراعظم مودی تکبر اور تعصب کی بدترین مثال بن کر بھارت میں چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کو مزید ایندھن فراہم کر رہے ہیں اور اپنے دوست امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح بالآخر ذلت اور رسوائی اپنے نام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ظلم پھر ظلم ہے‘ بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور ظالم کو چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملتی۔
مگر اس دھند آلود عالمی فضا میںسب سے زیادہ تکلیف دہ کردار عالمی طاقتوں، بین الاقوامی برادری اور اُن طاقت کے مراکز کا ہے جو عالمی امن، انسانی حقوق، جمہوریت، بین المذاہب ہم آہنگی اور تحمل و برداشت کا پرچار کرنے اور انہیں عام کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں مگر عملی طور پر ظالم اور جابر کا ساتھ دیتے ہیں۔ مظلوم اور معصوم کی سسکیاں نہ تو ان کے کانوں تک پہنچتی ہیں اور نہ ڈھائے جانے والے وہ مظالم اُن کی تعصب بھری نگاہوں کا منظر بنتے ہیں جنہیں دیکھ کر خود انسانیت شرما جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قول اور فعل کے اس عالمی تضاد نے دنیا میں وہ نظام فروغ دیا ہے جس میں انسانی حقوق کی پامالی، معاشی ناہمواری و بدحالی اور سماجی عدم انصاف کوٹ کوٹ کر بھرا گیا ہے۔ دنیا کو جمہوریت کا درس دینے والے جبر مسلط کرنے پر تلے ہوئے ہیں، عالمی امن کے دعویدار بن کر وہ دنیا بھر میں آگ اور خون کی ہولی کھیلتے ہیں، معاشی و معاشرتی انصاف کا پرچار کرنے والے خود انسانی استحصال اور لوٹ کھسوٹ کے عالمی نظام کو مضبوط بنانے میں جتے ہوئے ہیں جو اخلاقی قدروں سے عاری سرمایہ داروں کی لونڈی بن کر غریب کو غریب تر بنانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔
موسمِ سرما کی دھند کا راج اگلے چند دنوں میں ختم ہو جائے گا تو کارِ جہاں کی رونقیں دوبارہ بحال ہو جائیں گی مگر اہم سوال یہ ہے کہ عالمی سیاست اور بین الاقوامی معیشت کے افق پر چھائی ظلم و ستم اور ناہمواریوں کی سیاہ رات کا خاتمہ کب ہوگا اور سماجی عدل و انصاف اور معاشی مساوات پر مبنی صبحِ پُرنور کب طلوع ہو گی جس کے انتظار میں صدیاں بیت چکیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved