گزشتہ دو چار برسوں سے پاکستان ڈپلومیٹک ایکٹوازم کی نئی حکمت عملی آزما رہا ہے‘ جس کا محور یہ نکتہ ہے کہ بڑی طاقتوں اور کچھ منتخب ممالک سے آگے بڑھ کر ان ملکوں کے ساتھ نئی شراکت داری قائم کی جائے‘ جو ماضی میں اس کی ترجیح میں نچلے درجے پر تھے۔ اس طرح کی کچھ کوششیں ماضی میں کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔ مثال کے طور پر، جب پاکستان نے ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ تعاون بڑھانے کیلئے ایک فورم بنانے کی کوشش کی تو سعودی عرب کے سفارتی دباؤ نے پاکستان کو اس نئے سفارتی اقدام سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ قدامت پسند عرب ریاستوں اور ان دیگر عرب یا غیر عرب مسلم ریاستوں کے مابین توازن برقرار رکھنے میں پاکستان کو ہمیشہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا‘ جو کہنہ مسائل کے حل کیلئے نئی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں؛ تاہم پاکستان نے بین العرب تنازعات میں براہ راست ملوث ہونے سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ عرب ریاستوں‘ جن پر پاکستان معاشی تعاون کیلئے انحصار کرتا ہے، کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے افریقی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر زیادہ توجہ دے کر اپنی سفارتی رسائی کو وسعت دی ہے۔ اس نے مشرقی ایشیا اور وسطی ایشیا کی ریاستوں‘ بشمول آذربائیجان‘ کے ساتھ فعال معاشی تعاون کا آغاز کیا ہے۔
ترکی اور پاکستان نے گزشتہ چند برسوں میں مضبوط باہمی سفارتی تعلقات مستحکم کیے ہیں۔ دونوں اپنی تشویش کے تمام امور پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ ترکی کشمیر کے ایشو پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا ہے اور 5 اگست 2019 کی آئینی تبدیلیوں کے ذریعہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ قبرص کے معاملے پر ترکی کی حمایت کی۔ متعدد ترک کمپنیاں پاکستان میں یا تو کچھ کام سرانجام دے رہی ہیں یا سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔
پاکستان نے اس وقت ایک اہم سفارتی کامیابی حاصل کی جب ترکی اور آذربائیجان کے وزرائے خارجہ نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد کا تین روزہ دورہ کیا تاکہ باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں تعاون بڑھانے کیلئے سہ فریقی اجلاس کا دوسرا دور منعقد کیا جائے۔ یہ میٹنگ 2017 میں باکو‘ آذربائیجان میں ان کی پہلی سہ فریقی بات چیت کی بحالی کے حوالے سے تھی۔ پہلی سہ فریقی کاوش کے بعد زیادہ کام نہیں کیا جا سکا تھا۔ اب، تینوں ممالک نے اسلام آباد میں دوسرے اجلاس کا فیصلہ کیا تاکہ باہمی تعاون کے سہ فریقی انتظامات کو بحال کیا جا سکے۔ آذربائیجان نے جولائی اور ستمبر‘ اکتوبر 2020 میں نگورنو کاراباخ کے مستقبل کے حوالے سے آرمینیا کے ساتھ لڑی جانے والی جنگ میں پاکستان اور ترکی کی جانب سے آذربائیجان کی حمایت کے تناظر میں مذکورہ دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نگورنو کاراباخ کا مسئلہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں سوویت یونین کے ٹوٹنے پر پیدا ہوا تھا؛ اگرچہ اس مسئلے کی جڑیں اس سے بھی پہلے کے ادوار میں کہیں پیوست ہیں۔ نگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کا ایک حصہ تسلیم کیا گیا؛ تاہم اسکا کنٹرول آرمینیائی لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین ستمبر‘ اکتوبر کی جنگ میں ترکی نے آذربائیجان کی حمایت کرنے میں پہل کی۔ پاکستان نے آذربائیجان کو مکمل سفارتی مدد فراہم کی۔ کچھ بین الاقوامی ذرائع اور آرمینیا نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے جنگ میں آذربائیجان کو تکنیکی مشورے فراہم کیے۔ پاکستان نے اس کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ آذربائیجان کی حمایت صرف سفارتی سطح کی تھی۔ یہ کوئی نئی پالیسی نہیں‘ پاکستان اس مسئلے پر ہمیشہ آذربائیجان کے ساتھ کھڑا رہا۔ پاکستان کے آرمینیا کے ساتھ کوئی براہ راست یا بالواسطہ تعلقات نہیں ہیں۔ آذربائیجان کی جانب سے آرمینیائی فوج سے کاراباخ کے کچھ علاقے واپس حاصل کرنے میں کامیابی اور جنگ بندی کے بعد، پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کاراباخ کے آزاد علاقوں میں آذری فوجیوں اور عام شہریوں کیلئے ادویات، کھانے کی اشیا، کمبل اور خیموں کی شکل میں امداد بھیجی تھی۔ اس سے آذربائیجان میں پاکستان کیلئے خیرسگالی کے جذبات پیدا ہوئے اور پاکستان نے مستقبل میں آذربائیجان کے دفاعی اور سلامتی کے شعبوں میں مدد دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔
ان پیشرفتوں نے آذربائیجان کو ترکی اور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم کرنے کی طرف مائل کیا۔ اس کے نتیجے میں سہ فریقی مکالمہ کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان کے چیف آف ایئر سٹاف ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان نے ماہِ رواں کے آغاز میں آذربائیجان کا دورہ کیا تھا۔
ترکی اور آذربائیجان نے اسلام آباد کے حالیہ مذاکرات میں کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کی مکمل حمایت کی اور نومبر 2020 میں نائجر کے دارالحکومت میں منعقدہ او آئی سی کی وزرائے خارجہ کانفرنس میں کشمیر پر منظور کی گئی قرارداد کی توثیق کی۔ پاکستان ترکی اور آذربائیجان کے تشویش اور پریشانی کے معاملات خصوصاً قبرص اور نگورنو کاراباخ کے ایشوز پر ان کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ اسلام آباد کے اجلاس کی مشترکہ گفتگو میں اقتصادی امور خصوصاً تجارت اور سرمایہ کاری، علاقائی رابطوں، خوراک و توانائی کے تحفظ‘ ماحولیات اور ماحولیاتی تبدیلی، دفاع اور سلامتی، علاقائی امن و ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی‘ تعلیم و ثقافت‘ اینٹی ٹیررازم کے شعبوں میں تعاون بڑھانے جبکہ سائبر حملوں اور اپنے خلاف ڈس انفارمیشن کے مہموں کے خلاف متحد ہونے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ تینوں ممالک نے اسلامو فوبیا کے سدِباب کیلئے مل کر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
یہ ایک بڑا ایجنڈا ہے اور تینوں حکومتیں پائیدار شراکت داری پیدا کرنے کی خواہاں ہیں۔ ترکی کے وزیر خارجہ کے وفد میں پاکستان میں ترکی کے ٹی وی ڈراموں کی مقبولیت کے پیش نظر کچھ ترک فنکاروں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ آذربائیجان کے وزیر خارجہ نے پاکستانی کاروباری افراد کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ اس سہ فریقی اجلاس نے پاکستان کو ایک وسیع ڈپلومیٹک آغاز کا موقع فراہم کیا ہے‘ یعنی ترکی کے ساتھ تعلقات میں وسعت اور آذربائیجان کے ساتھ نئے تعلقات کا آغاز۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ اپنے چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی ترکی اور آذربائیجان میں تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع حاصل کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کرے۔ پاکستان میں بہت ساری ترک کمپنیاں کام کر رہی ہیں، لیکن ترکی میں پاکستانی سرمایہ کاری محدود ہے۔ دوطرفہ تجارت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اب، آذربائیجان تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے ایک نیا آغاز ہے۔ پاکستان اور آذربائیجان کے مابین موجودہ تجارت محدود ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی اور انسانی ترقی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ سب پاکستان کے مفاد میں ہے کیونکہ نیا سہ فریقی انتظام اس کی سفارتی رسائی کو وسعت دینے کا ایک مفید موقع فراہم کرتا ہے۔ اگر اس تعلق کو ان کوششوں کے ساتھ جوڑا جائے جو وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کے حوالے سے کی جا رہی ہیں تو اس خطے میں پاکستان کی اہم سفارتی موجودگی میں اضافہ ہوگا۔
آج کے بین الاقوامی نظام میں سب سے اہم چیز اقتصادی رابطہ ہے جس میں تجارت ، سرمایہ کاری‘ سامان اور خدمات کا تبادلہ شامل ہے۔ سہ فریقی اجلاس نے پاکستان کے لئے نئے آپشنز پیدا کردیئے ہیں۔ اب بہت زیادہ انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان کا دفتر خارجہ ان وعدوں کو کس طرح ٹھوس پالیسی اقدامات میں تبدیل کرتا ہے۔ اس سے پاکستان کو خطے میں اپنی معاشی مطابقت بڑھانے میں مدد ملے گی جس کے نتیجے میں بین الاقوامی اور علاقائی امور میں پاکستان کا سفارتی وزن بڑھ جائے گا۔