تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     23-01-2021

نوآبادیات اور مزاحمت

ہندوستان پر برطانیہ کی حکمرانی کا دور طویل عرصے پر محیط ہے لیکن نوآبادیات (Colonialism) کا یہ عرصہ حکمرانوں کیلئے اتنا ہموار نہ تھا۔ جبر کے اس دور میں مقامی ریاستوں نے علَمِ بغاوت بلند کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک طویل عرصے تک سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ 
اٹھارہویں صدی میں نوآبادیات کے عمل کو اس وقت مہمیز لگی جب 1707 میں اورنگزیب کا انتقال ہوا اور پھر مغل سلطنت کے زوال کا سفر شروع ہو گیا تھا۔ مرکزی حکومت کی گرفت کمزور ہونے سے مقامی ریاستوں کے حکمرانوں نے بغاوت کا پرچم بلند کر دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کیلئے عملی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلا اقدام رو بہ زوال مغل حکومت پر ایک کاری ضرب لگانا تھا۔ دوسرا قدم مقامی ریاستوں کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ الجھانا تھا۔ یوں اقتدار کی شطرنج پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغل حکومت کو شہ مات دینے کیلئے آخری چال چلنے کا فیصلہ کر لیا۔
دوسری طرف مقامی ریاستوں کے حکمران ایسٹ انڈیا کمپنی کے نوآبادیاتی عزائم کو بھانپ گئے تھے اور اس خطرے کے پیش نظر مقامی راجہ اور نواب مزاحمت کرنے کے لئے تیار ہو رہے تھے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ آزادی کا جذبہ ہر ذی روح کی جبلت میں ہوتا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی لوگوں کی آزادی کو سلب کیا گیا استعماری قوتوں کو مقامی لوگوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی یلغار کے آگے بند باندھنے اور اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے مقامی ریاستوں نے مزاحمت کا راستہ اپنایا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک طویل عرصے تک لڑائیوں میں اُلجھائے رکھا۔
پہلا قابلِ ذکر معرکہ بنگال میں ہوا۔ یہ پلاسی کی جنگ تھی جس میں ایک طرف رابرٹ کلائیو اور دوسری طرف بنگال کا حکمران سراج الدولہ تھا۔ پلاسی کی یہ جنگ 1857 کی جنگ آزادی سے ٹھیک 100 سال پہلے 1757 میں ہوئی تھی‘ جس سے پتہ چلتا ہے کہ مزاحمت کا آغاز 1857 سے ایک سو سال پہلے ہو چکا تھا۔ نواب سراج الدولہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لارڈ کلائیو کی تربیت یافتہ اور جدید اسلحے سے لیس فوج کا بھرپور مقابلہ کر رہا تھاکہ اس دوران اس کے اپنے ہی ایک کمانڈر میر جعفر نے رابرٹ کلائیو کے ساتھ خفیہ طور پر ایک معاہدہ کر لیا اور قلعے کا دروازہ کلائیو کی فوج کے لیے کھول دیا۔ یوں وہ قلعہ جو کچھ دیر قبل تک نواب سراج الدولہ اور اس کے جاں نثاروں کے عزم اور حوصلے کے باعث ناقابلِ شکست نظر آتا تھا اپنوں ہی کی بے وفائی سے چشمِ زدن میں زیر ہو گیا۔ تاریخ میں اب بھی جہاں سراج الدولہ کا نام اس کی شجاعت اور بہادری کی وجہ سے احترام سے لیا جاتا ہے وہیں میر جعفر کا نام غداری اور بے وفائی کا استعارہ بن کے سامنے آتا ہے۔ اقبال کے اس شعر میں اسی استعارے کا ذکر ہے:
جعفر از بنگال، صادق از دکن
ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن 
معاہدے کے مطابق نواب سراج الدولہ کی شکست کے نتیجے میں میر جعفر کو نواب بنا دیا گیا لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کی جگہ انگریزوں کے ایک اور کٹھ پتلی میر قاسم نے لے لی۔ یہاں تک کہ میر قاسم بھی انگریزوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا اور میر جعفر کو دوبارہ تخت پر لایا گیا۔ یوں اب انگریزوں کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے مقامی کٹھ پتلیاں مل گئی تھیں‘ جنہوں نے ذاتی منفعت کیلئے انکا کام آسان کر دیا تھا۔ پلاسی کی جنگ میں شکست نے سراج الدولہ اور بنگال کی تقدیر پر مہر ثبت کر دی اور بنگال کے زوال کے بعد انگریز ہندوستان کی نوآبادیات کے ایک قدم اور قریب آگئے۔
مزاحمت کا دوسرا مورچہ میسور کا تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے عزائم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھا۔ میسور میں حیدر علی اور اسکے بیٹے ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے خلاف یادگار مزاحمت کی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو ان کو راستے سے ہٹانے کیلئے چار جنگیں لڑنا پڑیں۔ پہلی جنگ 1766 تا 1769 لڑی گئی جس میں حیدر علی انتہائی بہادری سے لڑا اور مدراس کے قریب آیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جنگ کے خاتمے کیلئے مدراس معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور ہو گئی۔ دوسری جنگ 1780-1784 کے دوران ہوئی۔ فرانسیسیوں اور انگریزوں کے مابین کشیدگی نے بھی میسور کی جنگ کو ہوا دی۔ اس جنگ میں فرانس میسور کا حلیف تھا۔ حیدر علی نے میدانِ جنگ میں ابتدائی کامیابی حاصل کر لی تھی لیکن انگریزوں نے کھوئے ہوئے کچھ علاقوں کو دوبارہ حاصل کرلیا۔ یہ معرکہ برطانیہ اور فرانسیسیوں کے مابین مفاہمت کے بعد ختم ہوا اور فریقین کے مابین منگلور کا معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے مطابق، دونوں فریقوں کو جنگ سے پہلے کی پوزیشنوں پر واپس جانا پڑا۔
تیسری جنگ 1789 تا 1792 لڑی گئی۔ اس دوران انگریز حیدرآباد کے نظام اور مرہٹوں کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اب ٹیپو سلطان اپنے والد حیدر علی کی موت کے بعد میسور کے بادشاہ کی حیثیت سے اپنی افواج کی قیادت کر رہا تھا۔ اس دفعہ ایک اور فرق یہ بھی تھا کہ ٹیپو سلطان نے بیک وقت ایسٹ انڈیا کمپنی، حیدرآباد نظام اور مرہٹوں کی فوجوں کے خلاف لڑنا تھا۔ ٹیپو نے بڑی دلیری سے اپنے سے کئی گنا بڑی فوج سے جنگ لڑی لیکن آخر کار اسے قلعے میں گھیر لیا گیا۔ جنگ کا اختتام سرنگا پٹم معاہدے کی صورت میں ہوا جس کے مطابق ٹیپو کو اپنے دو بیٹوں کو اس ضمانت کیساتھ انگریز وںکے حوالے کرنا پڑا کہ وہ معاہدے کی شرائط کا احترام کرے گا۔
ٹیپو سلطان اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین چوتھی اور فیصلہ کن جنگ سرنگا پٹم میں 1798-1799 میں لڑی گئی۔ ٹیپو سلطان کے ایک کمانڈر، میر صادق نے انگریزوں کے ساتھ خفیہ ساز باز کرکے قلعے کے دروازے کھول دیئے جس سے برطانوی افواج بغیر کسی مزاحمت کے قلعے میں داخل ہوگئیں۔ ٹیپو سلطان کو گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ سرنگا پٹم کے زوال کے ساتھ ہی ایک اور اہم مزاحمتی مورچہ ختم ہوگیا۔ بنگال میں سراج الدولہ اور میسور میں ٹیپو سلطان کی طرف سے مزاحمت کو روکنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ مرہٹے تھے جنہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو للکارا تھا۔ مرہٹوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین متعدد مقابلے ہوئے۔ پہلی جنگ 1775 میں شروع ہوئی اور 1782 میں سالبائی کے معاہدے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ دوسری جنگ 1803 تا 1805 لڑی گئی۔ آخری جنگ 1817-1819 کے دوران ہوئی۔ اس جنگ میں مرہٹوں کی شکست نے پیشوا کی حکومت کو ختم کردیا‘ اور یوں مرہٹہ مزاحمت کا یہ مورچہ بھی سر ہو گیا۔ آخری مزاحمتی طاقتوں میں سے ایک پنجاب کی سکھ ریاست تھی۔ پنجاب کے سکھ حکمران رنجیت سنگھ نے 1839 میں آخری سانس لی اور اس کا بیٹا تخت پر بیٹھا۔ سکھوں کے خلاف انگریزوں کی پہلی جنگ 1845 میں ہوئی جس میں سکھوں کو شکست ہوئی اور پھر آخری اور فیصلہ کن جنگ 1849گجرات میں لڑی گئی‘ جس میں سکھوں کو شکست ہوئی اور رنجیت سنگھ کے بیٹے دلیپ سنگھ کو ملک بدر کردیا گیا۔ اس فیصلہ کُن جیت کے بعد پنجاب کو انگریزوں نے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا اور اس طرح ہندوستان کی نوآبادیات کا عمل مکمل ہو گیا۔
مقامی ریاستوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین ان بڑی جنگوں کے علاوہ ہندوستانی عوام نے متعدد مزاحمتی تحریکیں شروع کیں۔ ان مزاحمتی تحریکوں کا نقطۂ عروج 1857 کی جنگِ آزادی تھا جب ہندوستان کے تمام نسلی گروہ اپنے وطن کی آزادی لئے اکٹھے ہو گئے تھے اور جس کے نتیجے میں غیر ملکی تسلط کی مضبوط بنیادیں کچے گھروندے کی طرح لرزنے لگی تھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved