تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     23-01-2021

مردم شماری نقلی نہیں اصلی

2017ء میں کی جانے والی مردم شماری کے نتائج ابھی تک تعطل کا شکار چلے آ رہے ہیں اور ایم کیو ایم پاکستان‘ تحریک انصاف‘ پاک سرزمین پارٹی اور کراچی کی سول سوسائٹی اور تجارتی ادارے شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں کہ کراچی کی مردم شماری کے جو نتائج مرتب کئے گئے ہیں وہ اصل نہیں بلکہ نقلی ہیں۔ ملک میں جب بھی مردم شماری کرائی گئی اربن سندھ اس پر مطمئن نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں کراچی کے شکوے بجا ہو سکتے ہیں کیونکہ کراچی کی آبادی ایک اندازے کے مطا بق ڈھائی کروڑ سے کہیں زیا دہ ہو چکی ہے جبکہ کچی پنسل سے تیار کی گئی مردم شماری ابھی تک ڈیڑھ کروڑ کا ہندسہ دکھا رہی ہے۔ نہ جانے مردم شماری کو سیا سی ہتھیار کیوں سمجھا جاتا ہے۔ ایک جانب آپ جمہوریت کو بہترین طرز حکومت کہتے ہیں تو دوسری طرف جمہور کی تعداد کم کرنے کو مشن بنائے ہوئے ہیں۔ بہتر نظم و نسق والے ممالک اپنے شہریوں کے لئے آبادی کے مطابق اس کی ضروریات کا اندازہ اور بندو بست کرتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا اور شاید ساری دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس کی 1998ء سے2017ء تک مردم شماری کرانے کی کسی نے زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ اگر کسی کو یہ بتایا جائے کہ 19 سال میں پاکستان کی مردم شماری کرانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی تو سننے والے حیرت سے منہ تکنے لگیں گے کہ جس ملک میں مردم شماری نہیں ہوئی وہ کس طرح کام کر سکتا ہے وہاں کیا ترقی ہو سکتی ہے؟ وہاں کے عوام کی ضروریات‘ تعلیم‘ پانی‘ بجلی‘ ہسپتال اور رہائش کا کیسے بہتر اور منا سب بندوبست کیا جا سکتا ہے؟ جب 1998ء میں مردم شماری ہوئی تھی تو اس کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ساتواں بڑا ملک تھا۔ دس برس بعد پاکستان میں مردم شماری حکمرانوں کی ملی بھگت کی وجہ سے کرانے سے لیت و لعل سے کام لیا جا تا رہا لیکن ورلڈ بینک نے 2012ء میں اپنے ایک جائزے کے حوالے سے جو رپورٹ تیار کی تھی اس کے مطابق پاکستان اُس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن چکا تھا۔
پاکستان کی پہلی مردم شماری 1951ء دوسری 1961ء تیسری 1972ء اور چوتھی مردم شماری1981ء میں کی گئی لیکن جو مردم شماری 1991ء میں ہونا تھی اس پر حکومت نے یہ کہتے ہوئے کام ملتوی کرا دیا کہ مردم شماری کے ترمیمی آرڈیننس کی میعاد فروری میں ختم ہو رہی ہے اور دونوں ایوانوں سے اس کی بطور قانون منظوری ضروری ہے جس کا فوری امکان نہیں ہے‘ یہ آرڈیننس غیر مؤثر ہو گیا ہے اس لئے مردم شماری نہیں ہو سکتی۔ اب اگر غیر جانبداری سے اس پر بات کی جائے تو مردم شماری کے پہلے مرحلے میں 22 نومبر 1990ء سے 16 دسمبر 1990ء تک خانہ شماری کا کام مکمل ہو چکا تھا اور اس کے آخری مرحلے کے لئے یکم مارچ91 19ء سے افراد خانہ کو شمار کیا جانا تھا لیکن خانہ شماری کی بنیاد پر لگائے گئے تخمینوں سے جو نقشہ مرتب ہوا وہ اتنا خوفناک اور کچھ سیاسی حلقوں کے لئے اس قدر ناقابلِ قبول تھا کہ حکمرانوں کے پاس مردم شماری کے کام کو ملتوی کرانے کے سوا چارہ ہی نہ رہا۔ وجہ اس کی یہی تھی کہ سندھ میں مردم شماری کے پہلے مرحلے میں 1972ء میں کی جانے والی مردم شماری سے بھی بڑے پیمانے پر جعلسازی 1981ء میں کی گئی اور اس میں وہاں کی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کو فائدہ پہنچایا گیا۔ 1998ء میں پاکستان کی پانچویں مردم شماری کرائی گئی لیکن پیپلز پارٹی سے بیک ڈور چلنے والے معاہدے کے نتیجے میں اسے شروع کرانے سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے سرتاج عزیز نے ایک پریس کانفرنس میں واضح کر دیا کہ اس مردم شماری کا انتخابی حلقہ بندیوں سے کوئی واسطہ نہیں ہو گا اور آبادی بڑھنے کی وجہ سے ملک کے کسی بھی حصے میں کسی بھی قسم کی نئی انتخابی حلقہ بندی نہیں کی جائے گی۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کی طرف سے جمہوریت کے بنیادی اصول کی سب سے بڑی نفی یہی تھی۔
چھٹی مردم شماری کیلئے مارچ 2011ء میں ابتدائی کام کرتے ہوئے پہلے خانہ شماری کرائی گئی اور جب ستمبر میں مردم شماری کا مرحلہ آیا تو اُس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اس سے اسی طرح ہاتھ کھینچ لیا جیسے 1991ء میں نواز شریف حکومت نے کھینچا تھا۔ اس کی اصل وجہ پنجاب اور سندھ میں اپنی اپنی اجارہ داریاں برقرار رکھنے کیلئے آپس کا مک مکا تھا کیونکہ سندھ میں کراچی اور حیدر آباد کی خانہ شماری کے اعدادوشمار نے انہیں ایک مرتبہ حیرت زدہ کر دیا تھا۔ 1977ء میں جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد بھٹو دور کے سیکرٹری داخلہ نے تحریری طور پر اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے 1972ء کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو‘ جو تب 65 لاکھ تھی‘ اُس وقت کی حکومت کے مجبور کرنے پر 35 لاکھ کر دیا تھا۔ بقول سیکرٹری داخلہ‘ یہ جعلسازی اس لیے کرائی گئی تھی کہ کراچی سے صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستیں محدود رکھی جائیں۔
اس وقت کے بین الاقوامی اداروں کی تحقیقات کے مطابق کراچی کی آبادی میں چھ فیصد سالانہ اضافہ ہوتا تھا اور اقوام متحدہ کے اصولوں اور پلاننگ کمیشن کے مطابق ترقی پذیر ممالک کی دیہی آبادی دس سال کے بعد 30 سے 35 فیصد بڑھتی ہے جبکہ شہری آبادی میں 50 سے 60 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح اگست 1972ء میں کرائی جانے والی مردم شماری میں بدین کی آبادی میں 364 فیصد‘ کندھ کوٹ 155 فیصد‘ سکرنڈ 200 فیصد‘ گھوٹکی 177 فیصد‘ دادو 148 فیصد‘ ٹھٹھہ 70 فیصد‘ ہالہ 99 فیصد اور ٹنڈو محمد خان کی آبادی میں 72 فیصد اضافہ دکھا کر تمام بین الاقوامی ریکارڈ توڑ دیے گئے۔ کراچی کی آبادی جو 65 نہیں بلکہ 75 لاکھ ہونی چاہئے تھی اسے اس وقت کی حکومت کے حکم پر سیکرٹری داخلہ نے صرف 35لاکھ 15 ہزار تک محدود کر دیا۔
اپنے ہی ملک کے اپنے ہی لوگوں سے کی گئی زیا دتیوںکا کیا ذکر کیا جائے کسے بتائیں کہ ملک کی حقیقی مردم شماری میں کسی کا حق مارنے کیلئے کیسے کیسے گھپلے کئے گئے۔ 1972ئ، 1981ء اور 98ء میں کی جانے والی مردم شماری سندھ میں بالکل اسی طرح کی گئی جیسے میٹر ریڈر اوسط نکال کر گھر بیٹھے صارفین کے یونٹ لکھ دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا تھا کہ حقیقت لکھ دینے کی صورت میں ''سیاسی توازن‘‘ بدل کر رہ جانا تھا۔ زیادہ نہیں ایک مثال سامنے رکھ لیں۔ 1972ء کی مردم شماری میں سکھر کی آبادی 50 لاکھ 95 ہزار اور حیدر آباد کی 54 لاکھ 54 ہزار ظاہر کی گئی تھی اور کراچی ڈویژن جو سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ بن چکا تھا‘ لیکن حیرت انگیز طور پر کراچی ڈویژن کی آبادی سکھر اور حیدر آباد ڈویژن سے بھی کم دکھائی گئی۔ 1981ء میں کرائی گئی مردم شماری میں نوشہرو فیروز کی آبادی میں 771 فیصد‘ لاڑکانہ کی آبادی میں 397 فیصد‘ جیکب آباد 288 فیصد‘ شکار پور اور دادو میں بالترتیب 272 اور 357 فیصد اضافہ دکھایا گیا لیکن حیران کن طور پر کراچی کی آبادی میں صرف 89 فیصد اضافہ دکھایا گیا۔
دنیا بھر میں مردم شماری کیلئے آزاد اور خود مختار سینسس کمیشن قائم ہیں جو حکومتی مداخلت سے ہر طرح آزاد ہوتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ وہاں نہ تو سیاسی مصلحتیں رکاوٹ بنتی ہیں اور نہ ہی لسانی یا صوبائی تعصب گلا گھونٹتے ہیں۔ ایسی صورتحال پاکستان میں نہ جانے کب پیدا ہو گی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved