شیر جنگل کا بادشاہ ہے۔ کیسے جیا جائے‘ یہ اُسے طے کرنا ہے۔ ہمارے نصیب میں کیا لکھا ہے؟ یہی کہ ہدف بنیں یا پھر تماش بین کا کردار ادا کرین۔ شیر تو وہی کرتا ہے جو اُس کے جی میں آتا ہے۔ اُسے کون روک سکتا ہے؟ کمزوروں کا تو خیر ذکر ہی کیا، طاقتور بھی اُس سے نبرد آزما ہونے سے کتراتے ہیں۔ خیر! معاملہ اِس طرف بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ شیر میں صرف خونخواری اور درندگی نہیں بلکہ اِتنی عقل بھی پائی جاتی ہے کہ جس میں طاقت دکھائی دے اُس سے دور رہا جائے! اگر اپنی پر آجائیں تو ہاتھی ہی نہیں، جنگلی بھینسے بھی شیر کو دھول چاٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ جنگل میں کوئی اصول یا قانون نہیں ہوتا‘ جنگل میں قانون چلتا ہے اور اس قانون کی تمام دفعات اور شقیں طاقت سے شروع ہوکر طاقت پر ختم ہوتی ہیں۔ یہ قانون جنگل کے ہر طاقتور حیوان کا ہے‘چاہے وہ درندہ ہو یا چرندہ۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ طاقت اُسی میں ہوتی ہے جس کے سامنے کمزور ہو۔ ایسا وڈیو کلپ شاذ و نادر ہی ملے گا جس میں شیر کسی ہاتھی کو للکار رہا ہو۔ شیروں کا گروہ خوراک کی تلاش میں نکلتا ہے تو اُسی بھینسے کو گھیرتا ہے جو اپنے جھنڈ سے الگ ہوکر بالکل اکیلا پڑگیا ہو۔ شیر جب شکار کرتا ہے تو چھوٹے جانور منتظر رہتے ہیں کہ کب مہاراج کا پیٹ بھرے اور وہ بچا کھچا کھائیں۔ چھوٹے اور کمزور درندوں میں صرف لگڑ بگڑ ہے جو شیر سے اُس کا شکار چھیننے سے دریغ نہیں کرتا اور بالعموم کامیاب ٹھہرتا ہے۔ لگڑ بگڑوں کی نفسیات یہ ہے کہ مل کر حملہ کیا جائے اور میدان نہ چھوڑا جائے۔ جب شیر شکار کرتا ہے تو اپنے شکار کو ایک طرف لے جاکر کھاتا ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ اگلے دن کے لیے بھی کچھ بچ جائے۔ اگرلگڑ بگڑ دیکھ لیں کہ شیر کسی جانور کو شکار کرنے کے بعد اب بھنبھوڑنے کی منزل میں ہے تو وہ غول کی شکل میں آتے ہیں اور شیر سے چھیڑ خانی شروع کرتے ہیں۔ چھیڑ خانی کا یہ طریقہ بہت آسان ہے۔ شیر کو ایک طرف سے چھیڑا جاتا ہے۔ جب وہ اُس طرف پلٹا ہے تو اِس طرف سے کوئی اُس پر دانت گاڑتا ہے۔ شیر اِدھر پلٹتا ہے تو کوئی اُدھر سے چھیڑ خانی کرتا ہے اور پھر ذرا سی دیر میں شیر کا ناک میں دم ہو جاتا ہے۔ شیر عام طور پر لگڑ بگڑوں کو نہیں کھاتے لیکن اگر کوئی لگڑ بگڑ جھپٹے میں آجائے تو چیر پھاڑ کر اُس کے ٹکڑے کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
شیر اور لگڑ بگڑ ہمیں یوں یاد آئے کہ سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اور کچھ نہ سہی تو یہ بات ضرور اُن کے کریڈٹ پر رہنی چاہیے کہ اُن کے عہدِ صدارت میں امریکا نے کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑی۔ بات تو سچ ہے مگر محض اس بات کی بنیاد پر زیادہ فخر کرنے کی گنجائش نہیں۔ شیر شکار نہ کرے‘ عام حالات میں یہ نہیں ہو سکتا۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب اُس کا پیٹ بھرا ہوا ہو، ہاضمہ خراب ہو یا پھر قویٰ میں اِتنی طاقت ہی نہ رہی ہو کہ شکار کے لیے نکلا جائے۔ ٹرمپ کے عہد میں اگر امریکا نے کوئی جنگ نہیں چھیڑی تو اِس کا ایک کلیدی سبب یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ فی الحال اُس میں اِتنی سکت ہی نہیں کہ کوئی نئی جنگ چھیڑی جائے۔ طاقتور کے لیے چھیڑ خانی کی ایک حد تو بہرحال ہوتی ہے۔ ٹرمپ کے پیش رَو براک اوباما نے کون سی جنگ شروع کی تھی؟ وائٹ ہاؤس میں اُن کے آٹھ سال اپنے پیش رَو جارج واکر بش کی چھیڑی ہوئی جنگوں کا خمیازہ بھگتتے گزرے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بش جونیئر نے افغانستان اور عراق پر جو جنگیں مسلّط کی تھیں اُن کے ہاتھوں یہ دونوں ممالک ہی تباہ نہیں ہوئے بلکہ مجموعی طور پر پورے مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں بڑی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا اور یورپ کو ایسا دشمن درکار تھا جس کے نام کا راگ تادیر الاپا جاسکے۔ ایسے میں مسلمانوں کے سوا کس پر نظر پڑسکتی تھی؟ لے دے کر صرف مسلمان ہیں جو مذہب، تہذیب اور نظریات کے محاذ پر امریکا اور یورپ کو للکارنے کی اہلیت اور ہمت رکھتے ہیں۔
براک اوباما کو ڈھنگ سے کچھ کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملا کیونکہ اُنہوں نے افغانستان اور عراق میں جنگ کی بازی جیتنے کی سر توڑ کوشش ہی میں اپنے دونوں ادوارِ صدارت کھپادیے۔ اوباما کی ذہانت سے انکار نہیں‘ اُن کے عہد میں امریکا نے خرابیوں کا دائرہ وسیع کرنے سے گریز کیا۔ بش سینئر کے بے عقلی پر مبنی اقدامات کے ہاتھوں عسکری مہم جوئی کی گنجائش خاصی کم رہ گئی تھی۔ ایسے میں براک اوباما جو کچھ کرسکتے تھے وہی انہوں نے کیا۔
ٹرمپ کوئی نئی جنگ نہ چھیڑنے کا احسان جتارہے ہیں‘ یہ بھی خوب رہی! جنگل میں شیر کبھی شیڈول جاری نہیں کرتا کہ وہ کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں کرسکتا۔ اُسے جو کرنا ہے‘ کر گزرتا ہے۔ عالمی سیاست کے جنگل کی اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ شیر کو کہنا پڑ رہا ہے کہ اُس سے ڈرو، وہ شیر ہے! اہلِ جنگل سوچ رہے ہیں کہ شیر کس بات کا احسان جتا رہا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ گزرے ہوئے ادوار کے اپنے کرتوتوں کی سزا سے بچنے کے لیے دھونس دھمکی سے کام لے رہا ہے؟ ساری دنیا کے معاملات سیدھے کرنے کی کوشش میں اب امریکا اپنے ہاں پیدا ہونے والی خرابیوں سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ حالات نے امریکا کو اُس مقام تک پہنچادیا ہے جہاں سے خوف کھاتے ہوئے زندہ رہنے کی حد شروع ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی دور کی سپر پاور یا سلطنت اپنے ہی بوجھ سے گرتی ہے۔ غیر معمولی طاقت کی حامل ہو جانے پر کوئی بھی ریاست اخلاقی بگاڑ کا شکار ہونے لگتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ اپنے انحطاط یا زوال کو روکنے کی پوزیشن میں نہیں رہتی۔
وہ دور گزرے ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ جب امریکا کے عزائم کے بارے میں سوچ سوچ کر کمزور ریاستیں لرزہ براندام ہو جایا کرتی تھیں۔ تب یہ فطری عمل تھا کیونکہ امریکا بدمست ہاتھی کے مانند تھا جس پر قابو پانا کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ تب امریکا جنگل کا شیر تھا، اب سرکس کا شیر بننے کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے! عالمی حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ ساری محنت کا مطلوب و مقصود ہے عزت بچانا۔ نئے امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو یکسر پلٹ دیں گے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف اندرونی جنگ کا عندیہ دیا ہے۔ یہ لازم ٹھہرا ہے۔ دنیا بھر کے کمزوروں کی بد دعائیں رنگ لے آئی ہیں۔ اُن کی زندگی میں آگ لگانے والے امریکا میں خرابیاں محض پیدا نہیں ہو رہیں، پنپ بھی رہی ہیں۔ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں (نیو کانز) نے دو عشروں کے دوران امریکا کے سینے میں نسلی اور مذہبی منافرت کا خنجر ایسا گھونپا ہے کہ اب کوئی نکال نہیں پارہا۔ ڈیموکریٹس نے معاشرے کو متوازن رکھنے کی کوشش کی ہے؛ تاہم یہ یہ کوشش اب تک زیادہ بارآور ثابت نہیں ہوسکی۔ ایک نہ ایک دن اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا ہے۔ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ اب امریکا بھی پہاڑ کے نیچے آتا جارہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی مشکلات بڑھ رہی ہیں، قائدین کی بدحواسی کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔
معاملات یہاں تک آپہنچے ہیں کہ نئے امریکی صدر کو دہشت گردی کے خلاف اندرونی جنگ کی بات کرنا پڑی ہے۔ وہ بھی مجبور ہیں۔ سیاسی اختلافات نے خطرناک شکل اختیار کرلی ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ نئے صدر کی حلف برداری کے موقع پر امریکی دارالحکومت نے چھاؤنی کا منظر پیش کیا۔ کیپٹل ہل اور ایوانِ صدر کے اندر اور آس پاس چپے چپے پر فوجی تعینات تھے۔ ریپبلکن پارٹی کے جذباتی یا جنونی کارکنوں کی طرف سے حالات کو خراب کرنے کا خدشہ اب تک برقرار ہے۔ ''شیر‘‘ نے چار برس کی مدت میں جو کچھ کیا اُس نے امریکی جنگل میں بسنے والوں کی اکثریت کو بھیگی بِلّی کی روش اپنانے پر مجبور کردیا ہے۔