تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     24-01-2021

ماسٹر غلام حسین، استانی جی اور مکّول کلاں …(1)

میں نے کہا: خواجہ صاحب! اگر آج باون سال بعد بھی مجھے اپنا پرائمری کا ماسٹر ایک آئیڈیل ٹیچر لگتا ہے تو کیا خیال ہے وہ کوئی معمولی استاد ہوگا؟ جو شخص آٹھ نو سال کے بچے پر ایسا نقش چھوڑے کہ وقت کی دھول اسے پانچ عشروں سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد بھی دھندلی نہ کر سکے تو آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ماسٹر غلام حسین کیسے استاد ہوں گے۔ خواجہ یونس حسب عادت دھیمے سے مسکرائے اور کہنے لگے: خالد صاحب! یہ بتائیں کہ اس کلاس میں کتنے بچے تھے؟ میں نے کہا: مجھے اب صحیح طرح سے تو یاد نہیں لیکن چالیس پینتالیس سے کم کیا ہوں گے۔ خواجہ یونس کہنے لگے: ان میں سے کتنے لڑکوں کو ماسٹر غلام حسین یاد ہوں گے؟ میں نے کہا: مجھے علم نہیں، لیکن ڈاکٹر انعام الحق مسعود‘ جو میرے اسی سکول میں سینئر تھے‘ کو نہ صرف ماسٹر غلام حسین یاد ہیں بلکہ وہ ان کے دل میں بھی ویسے ہی موجود ہیں جیسے میرے دل میں، بلکہ شاید اس سے بھی بلند مرتبے پر، جتناکہ وہ میرے دل میں درجہ رکھتے ہیں۔ خواجہ یونس کہنے لگے: یہ بات درست ہے کہ وہ شخص یقینا کسی ایسی خوبی کا مالک ضرور ہوگا کہ آج بھی آپ کے دل میں اسی طرح زندۂ جاوید ہے لیکن اس استاد کے اور طالبعلم بھی تو ہوں گے؟ اگر ان کے کسی طالبعلم نے پانچ عشروں بعد بھی ان کو یاد رکھا ہے تو اس کا کریڈٹ ماسٹر غلام حسین کے ساتھ ساتھ اس طالبعلم کو بھی ضرور جاتا ہے جس نے اپنے روحانی اور تدریسی باپ کو یاد رکھا۔
خواجہ یونس ہمارے دوست ہیں اور ملتان کے ایک بہت بڑے صنعتی گروپ کے مالک‘ لیکن اصل خوبی یہ ہے کہ خواجہ مسعود مرحوم کی صالح اولاد ملتان میں فلاحی کاموں کے حوالے سے اپنا مقام رکھتی ہے۔ اس روز خواجہ یونس سے میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں اور پھر ماسٹر غلام حسین صاحب کے بارے میں گفتگو ہوئی تو میں نے ان سے کہاکہ ایک عرصہ ہوگیا ہے ماسٹر غلام حسین صاحب کی بیوہ، یعنی اپنی استانی جی کی خدمت میں حاضر ہونے، ان کے پائوں دبانے اور ان کی خدمت میں کچھ ہدیہ پیش کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے مگر طبیعت کی کاہلی اور ازلی سستی کے باعث یہ کام آگے سے آگے جاتا رہا ہے۔ سوچتا ہوں‘ یہ کام اب مزید تاخیر کا شکار نہ ہو۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اور اب پختہ ارادہ کیا ہے کہ اگلے ہفتے تک یہ ذمہ داری پوری کر دوں۔ خواجہ یونس کہنے لگے‘ میں ماسٹر غلام حسین صاحب سے کبھی نہیں پڑھا‘ لیکن ایک دو لوگوں سے ان کا پہلے بھی ذکر سن چکا ہوں۔ جب آپ اپنی استانی جی کی خدمت میں حاضر ہوں اور ان کو ہدیہ پیش کریں تو میری طرف سے بھی ان کی خدمت میں کچھ پیش کر دیجیے گا‘ مجھے بھی برابر کا حصہ دار سمجھیے گا۔
ڈاکٹر انعام الحق مسعود مجھ سے دو سال پہلے ماسٹر غلام حسین کی کلاس میں پڑھتے رہے تھے۔ وہ بھی میرے ساتھ استانی جی کو ملنے کیلئے ان کے گائوں جانے کو تیار تھے۔ میں نے دو تین دن بعد انعام صاحب سے رابطہ کیا اور اتوار کو استانی جی کی خدمت میں حاضری کا پروگرام طے کر لیا۔ ماسٹر غلام حسین تونسہ کے نواحی قصبے مکول کلاں کے رہنے والے تھے۔ ملتان سے مکول کلاں تک کے راستے میں ہم دونوں ماسٹر غلام حسین کا ذکر کرتے رہے۔ اپنے پرائمری سکول کی باتیں یاد آتی رہیں۔ سکول کے نجیب ہیڈ ماسٹر خادم کیتھلی مرحوم کا تذکرہ ہوتا رہا۔ ماسٹر خادم کیتھلی مرحوم کے زیر سرپرستی سکول کی ادبی و ہم نصابی سرگرمیوں کی ترویج کے لیے بنائی گئی تنظیم 'غنچۂ ادب‘ کا ذکر چلتا رہا۔ کیا زمانہ تھا جب اس پرائمری سکول کی اس ادبی تنظیم کے زیر اہتمام ہر سال دو تین روزہ پروگرام ہوتے تھے۔ تقریری مقابلے، مشاعرہ، کوئز پروگرام، مقابلہ مضمون نویسی اور آخری روز رنگارنگ پروگرام۔ خادم کیتھلی صاحب کیا شاندار استاد اور کیا اعلیٰ انسان تھے۔ ہمیشہ اچکن اور پائجامے میں ملبوس اور سر پر ٹوپی۔ سردیوں اور گرمیوں میں موسم کے مطابق اچکن اور ٹوپی تبدیل کرتے لیکن ہمیشہ اسی لباس میں ملبوس دیکھا۔ سکول کے برآمدے میں اتنی تمکنت اور فخر کے ساتھ چلتے کہ کوئی گورنر کیا چلتا ہوگا۔ 
ماسٹر غلام حسین کا تو شاید پتا بھی نہ ملتا اگر عزیزم محمد علی انجم سے ملاقات نہ ہوتی۔ مکول کلاں کا رہائشی محمد علی انجم آج کل سائوتھ افریقہ میں مقیم ہے۔ اس سے ملاقات ملتان کے ہوائی اڈے پر ہوئی۔ میں امریکہ روانگی کیلئے اپنی فلائٹ کا منتظر تھا اور وہ جنوبی افریقہ جانے کیلئے۔ جونہی اس نے بتایاکہ وہ مکول کلاں کا رہنے والا ہے میں نے پوچھاکہ کیا وہ ماسٹر غلام حسین مرحوم کو جانتا ہے؟ اس نے بتایاکہ وہ تو ان کے ہمسائیگی میں رہتے تھے۔ پھر باتیں چل نکلیں اور اس استاد کے رشتے سے ہم دوستی کے رشتے میں بندھ گئے۔ استانی جی کا پوچھاکہ کیسی ہیں؟ محمد علی انجم نے بتایا کہ ٹھیک ہیں‘ ماشاء اللہ صحت مند ہیں لیکن عمر کا تقاضا بہرحال اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ میں نے اسی روز ارادہ کیا کہ استانی جی کی خدمت میں حاضری دینی ہے۔
مکول کلاں روانگی سے دو دن پہلے محمد علی انجم سے بات ہوئی تو اس نے بتایاکہ اس نے اپنے بھتیجے ابوذر کو پابند کردیا ہے کہ وہ ہمیں استانی جی کے پاس لے کر جائے گا۔ میں اور ڈاکٹر انعام الحق مسعود جب مکول کلاں پہنچے تو قصبے سے باہر ابوذر ہمارا منتظر تھا۔ ہم نے گاڑی ایک کھلے احاطے میں کھڑی کی اور تنگ، ٹوٹی پھوٹی، بے ترتیب اور اونچی نیچی گلیوں سے ہوتے ہوئے پہلے تو محمد علی انجم کے بھتیجے کے ساتھ ان کے گھر گئے‘ جہاں وہ ہمارے لیے کھانے کا اہتمام کر رہے تھے؛ تاہم میں نے ابو ذر کو کہاکہ پہلے استانی جی کو ملتے ہیں‘ واپسی پر یہ والا کام بھی سرانجام دے لیں گے۔ جب استانی جی کے گھر پہنچے تو پتا چلاکہ وہ تو اپنے بھائی کے گھر منگروٹھہ (تونسہ کے ساتھ واقع بستی) گئی ہوئی ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیاکہ منگروٹھہ چلتے ہیں۔ ماسٹر غلام حسین صاحب کا پوتا ہمارے ساتھ چل پڑااور ہم منگروٹھہ پہنچ گئے۔
استانی جی کو خبر ہوئی تو وہ باہر صحن میں آئیں اور چارپائی پر بیٹھ گئیں۔ میں نے لپک کر استانی جی کے پائوں دبانے شروع کر دیئے۔ مجھے یاد آیاکہ جب شدید سردی میں ہم بغیر بجلی والے گھر میں رات کو اپنی اپنی لالٹین اٹھائے ماسٹر غلام حسین کے گھر جاکر پڑھتے تھے تو بلا ٹیوشن وظیفے کے امتحان کی تیاری کروانے والے ماسٹر غلام حسین کی اہلیہ‘ جو بلحاظ رشتہ ہماری استانی جی تھیں‘ ہمارا کتنا خیال رکھتی تھیں۔
ملتان کے پرائمری سکول میں محدود مشاہرے پر کام کرنے والے ماسٹر غلام حسین ایک نہایت خلیق استاد تھے۔ شاندار استاد اور بہترین انسان۔ لالچ اور لوبھ سے یکسر پاک، متوکل، قناعت پسند اور اپنی مالی حالت پر مطمئن اور شاد۔ کبھی کسی بات پر نہ شاکی پایا اور نہ کبھی کسی بارے گلہ کرتے دیکھا۔ اپنے حال میں خوش اور اپنے پیشے پر مطمئن اور شاداں۔ آبائی گھر مکول کلاں تحصیل تونسہ میں تھا اور ملازمت ملتان میں تھی۔ تنخواہ قلیل تھی اور گھر والدین کو بھی پیسے بھجوانا ہوتے تھے۔ ایک کمرے کا نہایت چھوٹا سا مکان جو کرائے پر تھا‘ اس میں بجلی نہیں تھی اور اسی وجہ سے کرایہ کم تھا۔ ایک کمرہ، سامنے برآمدہ۔ برآمدے کے اندر ایک کونے میں چھوٹا سا کچن بلکہ کچن بھی کیا؟ ایک کونے میں چولہا تھا اور بس۔ مختصر سا صحن جس کے ایک کونے میں ٹوائلٹ اور ساتھ ہینڈ پمپ تھا۔ ہم برآمدے میں بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ بیٹھنے کیلئے ہر بچہ اپنے گھر سے ایک پٹ سن والی خالی بوری لایا تھا۔ اسے کاٹ کر دو حصے کیا گیا۔ ایک حصے کو چار تہہ لگا کر استانی جی نے موٹے سوئے سے سی کر گدی سی بنا دی اور باقی آدھے ٹکڑوں کو آپس میں جوڑ کر سیا اور پردے بنا کر برآمدے کے باہر لٹکا دیا تاکہ بچوں کو سردی نہ لگے‘ مگر تب تو سردی بھی بلا کی پڑتی تھی۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved