تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     24-01-2021

’’56انچ کی چھاتی‘‘

''56 کی چھاتی‘‘ پر پیپلز لبریشن آرمی نے ساڑھے چار کلو میٹر اندر گھس کر101 گھروں پر مشتمل ایک نئی بستی بسا کر ایسی مونگ دلی ہے کہ نریندر مودی کو لداخ کے بعد ارونا چل پردیش میں بھی دن کو تارے دکھا دیے ہیں۔ بھارت کی ریا ست ارونا چل پردیش کے ضلع انجا کے دو مقامات اسفیلا اور فش ٹیل2 کی سرحدوں سے بیس کلو میٹر دور چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی نفری جیسے ہی حرکت میں آئی تو بھارت کو یکدم ہوش آیا اور قبل اس کے کہ چین گلوان ویلی کی طرح یہاں بھی خاموشی سے اپنے قدم جما لیتا بھارت نے بڑی تیزی سے اپنی افواج کے اضافی ٹروپس یہاں تعینات کر دیے لیکن چین نے مودی کی56 انچ کی چھاتی کو اپنے بوٹوں تلے روندتے ہوئے ارونا چل پردیش میں چپکے سے ایک نیا گائوں تعمیر کر لیا اور اب بھارتی فوج اور مودی ٹولہ لاکھ کہے کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا اور چین نے انہیں اندھیرے میں رکھ کر وہاں نیا گائوں بسا لیا‘ تو کوئی بھی اس پریقین نہیں کرے گا ۔
بھارت کا یہ جھوٹ کیسے مان لیا جائے جبکہ ایک پورا گائوں تعمیر ہوتا رہا‘ جس کے لیے بڑی بڑی گاڑیوں اور مشینوں کے ذریعے تعمیراتی سامان آتا رہا‘ کئی ہزار مزدور وہاں کام کرتے رہے اور بھارت کی فوج ‘اس کی انٹیلی جنس اور سیٹلائٹ میں سے کسی کو خبر ہی نہ ہو سکی کہ ان کے علاقے میں چین نئی بستی تعمیر کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی کاریگروں اور مزدوروں نے عام لباس پہننے کی بجائے ان پر با قاعدہ سرخ اور پیلے رنگ کی بڑی بڑی پٹیوں والی جیکٹس پہنی ہوتی تھیں اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ جیکٹس پہنے ہوئے تعمیراتی ورکرز دن اور رات میں کسی کو نظر ہی نہ آئے ہوں۔ دریائےTsari Chau سے ملحق سبانسری ضلع کے اس حصے میں‘ جس کا چین اور بھارت میں کئی دہائیوں سے تنازع چلا آ رہا تھا چین نے وہاں 101 گھروں پر مشتمل بستی تعمیر کرنے کے بعد اس سے ساڑھے چار کلو میٹر آگے نئی فوجی پوسٹیں بھی تعمیر کر لی ہیں جن میں مضبو ط بنکر اور ہیلی پیڈ بھی شامل ہیں۔ چین نے کبھی بھی ارونا چل پردیش کا دیا ہوا نام قبول نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اسے سائوتھ تبت کہتا چلا آ رہا ہے۔
یہی وہ جگہ تھی جہاں1962ء میں چین اور بھارت کا پہلا ٹاکرا ہو اور اس وقت دنیا بھر کے جنگی ماہرین کا خیال ہے کہ ان دونوں ممالک کی دوسری ممکنہ جنگ بھی یہیں پر لڑی جا سکتی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت38,000 مربع کلو میٹر علاقہ چین کے پاس ہے اوربقیہ90 ہزار مربع کلو میٹر علا قہ جو بھارت کے قبضے میں ہے اس پر بھی چین اپنی ملکیت کا دعویٰ کر رہا ہے۔ بھارت توشاید بھول چکا تھا کہ2009 میںCountry Partnership Strategyکے لیے ایشین ڈیویلپمنٹ بینک بورڈ نے ارونا چل پردیش کے 2009-12ء کے ماسٹر پلان CPS میں River Erosion Management Project کا حوالہ دیکھنے کے بعد عوامی جمہوریہ چین نے ایک ممبر ہونے کی حیثیت سے اس پلان پر سخت اعتراض کرتے ہوئے ایشین بینک کو واضح کر دیا تھا کہ ارونا چل پردیش بھارت کا نہیں بلکہ چین کا حصہ ہے اس لئے ایشین بینک کی دریائوں کے کٹائو کی مینجمنٹ کی تجویز کو مسترد کیا جاتا ہے۔ چین نے سرکاری طو رپر احتجاج کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ وہ اس سکیم سے اتفاق نہیں کر سکتااس لئے ایشین ڈیویلپمنٹ بینک بورڈ کو چاہئے کہ وہ اس سکیم میں ارونا چل پردیش کو شامل نہ کرے ۔
2009ء ہی میں گوگل سیٹلائٹ نقشے میں ارونا چل پردیش کے حصوں کو ہندی یا انگریزی میں نہیں بلکہ Mandrain زبان میں باقاعدہ چین کا حصہ قرار دے چکا ہے۔ اگست میں تبت سے راء کے پانچ ارکان کی چینی فوج کے ہاتھوں گرفتاری پر جب بھارت نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا تو اس پر چین نے صرف اتنا کہا کہ اس نے ا ن پانچ غیر ملکی افراد کو جو بغیر اجا زت چینی علاقے میں گھس آئے تھے بھارت نہیں بلکہ ارونا چل پردیش جو چین کا حصہ ہے اس کی حدود سے جاسوسی اور تخریب کاری کے شبہ میں گرفتار کیا ہے ۔ عالمی میڈیا پر یہ ایک بہت بڑی خبر تھی جس نے سب کو چونکا دیا تھا۔ لداخ میں چینی افواج کی پیش قدمی کے تیسرے مہینے چینی وزارتِ خارجہ نے جنوبی تبت ریجن کو چین کا باقاعدہ حصہ قرار دیتے ہوئے عالمی سطح پر سب پر واضح کر نے کے لیے ارونا چل پردیش پر اپنی قانونی ملکیت کا دعویٰ کر دیا اوراس مرتبہ چین نے ارونا چل پردیش پر بھارتی قبضے پر انتہائی سخت لہجہ اختیار کیاہے ۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی کے پانچ اہل کاروں کی گرفتاری پر چین کے مؤقف کی تردید کرتے ہوئے ارونا چل پردیش کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان پانچوں بھارتی شہریوں کو پیپلز لبریشن آرمی زبردستی اٹھا کرلے گئی۔ارونا چل پردیش کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان کا تعلق کسی خفیہ یا فوجی ایجنسی سے نہیں تھا بلکہ یہ پانچوں افراد سیا حوں اور مسافروں کا سامان لانے لے جانے والے قلی تھے۔ جب چین کی وزارت خارجہ نے ان پانچ افراد کی شناخت بتانے کا کہا تو بھارت نے چپ سادھ لی۔نئی دہلی میں موجود دنیا بھر کے سفارتی مشن ارونا چل پردیس اورلداخ کے بعد اپنے اپنے ممالک کو جو رپورٹس بھیج چکے ہیں کہ ان میں واضح طور پر لکھا ہے اور جس کی تفصیلات امریکہ ‘برطانیہ اورجرمنی کے مشہور اخبارات نے ان الفاظ میں پیش کی ہیں''AksaiChin and Arunachal Pradesh have gone out from Indian boundaries‘‘۔
2006ء میں جب بھارت نے بھوٹان کے ساتھ اپنی سرحدوں کیDelimitationکا معاہدہ کیا توچین نے بھوٹان کوا س معاہدے کو تسلیم نہ کرنے کا پیغام بھیجتے ہوئے اس پر واضح کر دیا کہ آپ کی حکومت کابھارت سے یہ معاہدہ یک طرفہ سمجھا جائے گا کیونکہ ارونا چل پردیش پر چین کا سرکاری مؤقف ہم دنیا کو اور آپ پر پہلے سے واضح کر چکے ہیں۔ 15 برس پہلے چین نے بھوٹان کو Delimitation معاہدے پر توخاموش پیغام دینے پر ہی اکتفا کیا تھا لیکن جولائی2020ء میں چین نے سرکاری طورپر بھوٹان سے احتجاج کرتے ہوئے اسے واضح پیغام دے دیا کہ بھوٹان کے مشرقی حصے میں آپ کا بھارت سے کوئی بھی معاہدہ چینی حکومت کو قبول نہیں ہو گا۔ 
گزشتہ جون میں انوائرنمنٹ فورم میں‘ جہاں بھارت بھی مدعو تھا چین کی وزارت ِخارجہ نے اپنی پریس ریلیز میں بھوٹان کی مشرقی سرحدوں میں ہونے والی تعمیرات پر تحفظات کا اظہار کیا اور یہ سب ا یسے وقت میں ہوا جب لداخ میں بھارت اور چین میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں نے دنیا بھر کو اپنی جانب متوجہ کیا ہوا تھا۔ ایسے میں چین نے ارونا چل پردیش پر اپنی ملکیت کا دعویٰ ‘جو وہ کل تک خاموشی سے کر رہا تھا‘ اب کھل کر بین الاقوامی فورم پر اس طرح کر دیا ہے کہ بھارت کے زیر قبضہ ساڑھے چار کلو میٹر اندر داخل ہو کر ایک نئی بستی ‘نیا شہر تعمیر کر نے کے بعد اس سے بھی آگے فوجی چیک پوسٹیں سامنے لے آیا ہے اور نریندر مودی کی کمزور مسلمانوں‘ سکھوں‘ دلتوں اور عیسائیوں کو رگیدنے والی ''56 انچ کی چھاتی‘‘ چین کے سامنے جھاگ بن کر بیٹھ گئی ہے۔
گزشتہ برس فروری میں چین نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے اروناچل پردیش دورے کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے چین کی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے اس دورے پر اپنے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی وزیر داخلہ کا یہ دورہ چین کی علاقائی خودمختاری کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان مشرقی علاقے کی سرحد‘ یا پھر تبت کے جنوبی خطے سے متعلق چین کا مؤقف مستقل اور بہت واضح رہا ہے۔ چین نے نام نہاد اروناچل پردیش کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا اور چین امیت شاہ کے تبت کے چینی علاقے میں دورے کا سخت مخالف ہے کیونکہ اس سے چین کی علاقائی خود مختاری کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس سے سرحدی علاقے کے کا استحکام سبوتاژ ہوتا ہے اور متعلقہ دوطرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔جبکہ گزشتہ جولائی کے آخری ہفتے میں چینی وزارت خارجہ نے ہندوستان ٹائمز کو بھجوائی گئی پریس ریلیز میں ببانگ دہل‘ بغیر کسی لگی لپٹی کے یہاں تک کہہ دیا کہ بھوٹان کے ساتھ چین کے صرف مشرقی حصوں میں ہی نہیں بلکہ اس کے سینٹرل اور ویسٹرن بارڈر پر بھی عرصہ دراز سے اختلافات چلے آ رہے ہیں جن کے سلجھنے میں بھارت رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس لئے چینی حکومت آج واضح طو رپر دنیا بھر کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ بھوٹان اور چین کے معاملات میں کسی بھی تیسری قوت کو دخل اندازی کی اجا زت نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ بھوٹان اور چین کا دو طرفہ معاملہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved