قارئین‘ پچھلے کالموں میں ذکر کیا تھا کہ گاڑیوں کی فروخت پر اون یا پریمیم کا کاروبار کس طرح چلتا ہے اور پاکستانی معیشت پر اس کے کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مسائل کی نشاندہی اہم ہے لیکن تنقید اس وقت تک ادھوری رہتی ہے جب تک مسائل کا حل پیش نہ کیا جائے۔ آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں کہ اون منی کوکیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔
اون منی کا کاروبار ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق کی وجہ سے چلتا ہے۔ سادہ اصول یہ ہے کہ کار کمپنیاں زیادہ گاڑیاں بنائیں گی تو ڈیمانڈ اور سپلائی کا فرق کم ہو جائے گا۔ لیکن پچھلے تیس سالوں میں دیکھا گیا ہے کہ ڈیمانڈ کبھی پوری ہی نہیں ہوئی۔ کیا ایسا حقیقت میں ممکن ہے؟ ذرا سوچئے کہ اگر ایک دکان کا مال خوب بک رہا ہو ‘یک لمحے کی بھی فرصت نہ ملے‘ لوگ لائن لگا کر سودا خریدنے کے لیے کھڑے ہوں۔ سارا مال بھی کیش پر بکتا ہو تو کیا دکاندار زیادہ مال دکان میں ڈال کر اپنی سیل بڑھائے گا یا وہ گاہکوں سے کہے گا کہ چھ مہینے بعد آنااور مطلوبہ سامان لے جانا؟ یقینا وہ اپنے سامان کی ترسیل بڑھائے گا اور دکان کا حجم بڑھائے گاتا کہ سیل بھی زیادہ ہو اور کسٹمر بھی خراب نہ ہو‘ لیکن گاڑیوں کے معاملے میں ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ کار بنانے والی کمپنیوں کی گاڑیاں تو تیزی سے بک رہی ہیں لیکن مینوفیکچرنگ کا سائز بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ نئی مشینری لگانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں‘ جس سے یہ شبہ تقویت اختیار کر جاتا ہے کہ ڈیمانڈ سپلائی کا فرق مصنوعی ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح کا مارکیٹنگ سٹنٹ ہے جسے گاڑی کی ڈیمانڈ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ کار کمپنیوں کو موصول شدہ آرڈرز اور گاڑیوں کی تیاری کے وقت کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔ کمپی ٹیشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داریوں میں یہ بھی ایک ذمہ داری شامل کی جائے۔ ایک مرتبہ تفصیلی آڈٹ کیا جائے تا کہ معاملہ سمجھ میں آ سکے کہ اس میں کیا سائنس چھپی ہے۔ اگر واقعی کار کمپنیوں کے پاس آرڈرز ان کی کیپسٹی سے زیادہ آتے ہیں تو پلانٹ کی پروڈکشن کیپسٹی کیوں نہیں بڑھائی جاتی؟ ان کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ ایک مخصوص عرصے تک گاڑیاں بنانے کی کیپسٹی بڑھائیں۔ عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں سخت سزائیں تجویز کی جائیں۔ اگر یہ سب کچھ مصنوعی قلت پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے تو ابتدائی طور پر ان کمپنیوں کو بھاری جرمانے کیے جائیں‘ دوسرے مرحلے میں ان کے لائسنس کینسل کیے جائیں اور نئی کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے جائیں جس میں انہیں پابند کیا جائے کہ گاڑی کی مکمل قیمت لینے کے پندرہ دن میں اس کی ڈیلیوری یقینی بنائی جائے۔ تاخیر کی صورت میں کمپنی خریدار کو جرمانہ ادا کرنے کی پابند ہو گی۔ ان اصلاحات کو عملی طور پر نافذ بھی کروائیں۔ میں یہاں بتاتا چلوں کہ پاکستان میں یہ قانون پہلے بھی موجود ہے جس کے مطابق کوئی بھی کمپنی گاڑی کی مکمل قیمت وصول کرنے کے ایک ماہ کے اندر گاڑی ڈیلیور کرنے کی پابند ہوتی ہے‘ تاخیر کی صورت میں شرح سود کے حساب سے جرمانہ بھی عائد ہوتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں عام شہری کو اپنے حقوق کا علم نہیں ہے اس لیے کار کمپنیاں من مانی کرتی ہیں۔ یہاں سرکار کی بجائے عوام پر ذمہ داری کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ میری آپ سے گزراش ہے کہ اگر مقررہ وقت پر گاڑی ڈیلیور نہ ہو تو عدالت جا کر ایک درخواست کار کمپنی اور ایک ڈیلر شپ کے خلاف دے دیں۔ آپ کو اپنا حق لینے میں کچھ وقت تو لگے گا لیکن کمپنیوں کو جب بھاری ادائیگیاں کرنا پڑیں گی تو گاڑیاں مقررہ وقت سے پہلے ملنا شروع ہو جائیں گی اور اون منی کا زور بھی ٹوٹنے لگے گا۔ مارکیٹ میں مقابلے کی فضا کا قائم نہ ہونا بھی اون منی کے کاروبار کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پچھلے چالیس سالوں سے تین یا چار کمپنیوں کا راج ہے۔ ماضی میں نہ تو حکومت نے ایسی پالیسی بنائی جس سے نئے آٹو مینوفیکچررز کی حوصلہ افزائی ہو سکے اور نہ ہی عوامی سطح پر یہ سوچ پروان چڑھ سکی کہ جس قیمت میں ان دو تین کمپنیوں کی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں‘ اس سے کم قیمت پر بہتر گاڑیاں موجود ہیں۔ آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں گاڑیاں بنانے والی اتنی کمپنیاں موجود ہوتی ہیں کہ چھ ماہ تک گاڑی کی قیمت وصول نہیں کی جاتی اور پہلی قسط کی ادائیگی چھ ماہ کے بعد ہوتی ہے۔ گاڑیوں پر اون منی لینے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ گاڑی بیچنے کے لیے ڈسکاؤنٹ آفر کیے جاتے ہیں۔ اون منی کا کاروبار بند کرنے کے لیے پاکستان میں نئے آٹو مینوفیکچررز کو متعارف کروانا ناگزیر ہو گیا ہے۔ حکومت اس حوالے سے اقدامات کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن ایوانوں اور بیوروکریسی میں پرانی کارکمپنیوں کے نمائندے موجودہوتے ہیں جو اپنے دوستوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور نئے آنے والوں کے لیے کوئی نہ کوئی مشکل کھڑی کیے رکھتے ہیں۔ ماضی میں بھی جب کچھ کمپنیوں کو لانچ کرنے کی کوشش کی گئی تو انھیں چلنے نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے پرانی کمپنیوں کی اجارہ داری برقرار رہی۔ 2020ء میں کچھ نئی کمپنیاں مارکیٹ میں آئی ہیں اور 2021ء کے آغاز میں بھی کچھ نئی کار کمپنیاں متعارف کروائی گئی ہیں جس کے باعث مقابلے کی فزا قائم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ جو کمپنیاں نئی گاڑی کا بینر اشتہار لگانا بھی ضروری نہیں سمجھتی تھیں آج وہ الیکڑانک‘ پرنٹ‘ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر چوبیس گھنٹے اشتہار چلواتے دکھائی دی رہے ہیں۔ کیونکہ جس قیمت میں پہلے کار آفر کی جارہی تھی آج اسی قیمت میں ایس یو وی گاڑیاں آفر کی جا رہی ہیں اور عوام نے اپنی ترجیحات بھی بدلنا شروع کر دی ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان نئی گاڑیوں پر بھی اون کا کام شروع ہو گیا تھا لیکن کمپنیوں نے گاڑیوں کی بکنگ کھول کر اون کے کاروبار کو بند کرنے کا ارادہ کیا ہے۔اس عمل کو سراہا جانا چاہیے۔ حکومت سے بھی گزارش ہے کہ پاکستان میں ایک صحت مند مقابلے کی فضا کو برقرار رکھے تا کہ عوام کو بلیک میل کرنے کا رجحان کم ہو اور ویلیو فار منی بھی مل سکے۔
اس کے علاوہ اون منی پر ٹیکس لگانے کی تجویز کی بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ ٹیکس پچاس ہزار سے دولاکھ کی بجائے یہ سلیب پچاس ہزار سے لے کر دس لاکھ روپے تک ہونی چاہیے۔ جس کا تعین گاڑی کی قیمت کے حساب سے کیا جائے‘ کیونکہ ابھی چند دن پہلے پچپن لاکھ روپے کی گاڑی پر دس لاکھ روپے اون منی مانگا گیا یعنی پہلی خریداری کے پہلے تین ماہ میں اگر گاڑی بیچی جائے گی توبیچنے والے کو ایکسٹرا ٹیکس بھی ادا کرنا پڑے گا۔یہ قانون عجیب محسوس ہوتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ گاڑیوں پر اون منی لینا بھی عجیب اصول ہے۔ اب عجیب مسائل کا حل عجیب طریقوں سے ہی ممکن ہو سکے گا۔ اسی طرح اون منی کے کاروبار کو آئینی طور پر غیر قانونی قرار دیا جائے اور یہ کرنے والے افراد کے لیے سزا کا تعین کیا جائے جو کہ کم از کم چھ ماہ ہو۔ اس میں نہ صرف بیچنے والے بلکہ خریدنے والے کو بھی قصوروار ٹھہرایا جائے۔اسے بھی سزا کے نظام سے گزرا جائے ۔اس کے علاوہ کوئی بھی کمپنی ایک سے زیادہ گاڑیاں صرف اسی صورت میں بک کروا سکے جب وہ کمپنی کی بینک سٹیٹمنٹ اور فنانشل سٹیٹمنٹس کے ذریعے مالی حیثیت ثابت کر سکے۔ صرف کمپنی کے لیٹرہیڈ پر گاڑیاں بک کرنا اور کروانا قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے۔اگر حکومت ان اقدامات پر سنجیدگی سے عملدرآمد کروا لیتی ہے توشاید آنے والے دنوں میں گاڑیاں زیادہ اور خریدنے والے کم ہو جائیں۔جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔(ختم )