سوشل میڈیا کی مہربانی کہ اہلِ پاکستان ایسا بہت کچھ جان گئے ہیں جو اُنہیں نہیں جاننا چاہیے تھا۔ نتیجہ؟ وہی برآمد ہوا ہے جو ایسے معاملات میں برآمد ہوا کرتا ہے یعنی بہت سے اپنی جان سے یوں گئے ہیں کہ خود اُنہیں بھی اب تک جان سے جانے کا احساس نہیں ہو پایا ہے۔ سوشل میڈیا سائٹس نے ایسی قیامت ڈھائی ہے کہ لاکھ سمجھانے پر بھی دل ہے کہ مانتا نہیں۔ ہزاروں برس کے دوران پنپنے والی دانش نے نئی آب و تاب کے ساتھ دل و دماغ کو یوں مسخّر کیا ہے کہ میر تقی میرؔ یاد آئے بغیر نہیں رہتے ؎
کچھ نہیں سُوجھتا ہمیں تجھ بن / شوق نے ہم کو بے حواس کیا
اردو محاوروں‘ کہاوتوں اور ضرب الامثال کے معاملے میں بہت توانا اور تنومند ہے۔ ہر موقع کے لیے اردو کے دامن میں کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ سوشل میڈیا کی وساطت سے عام آدمی کو اب ایسے بہت سے محاورے اور کہاوتیں یاد ہیں جن کی مدد سے گفتگو کو زیادہ رنگین اور بامعنی بنایا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ گفتگو سے مراد ہے وہ chat ہے جو سمارٹ فون کے ذریعے سوشل میڈیا ایپس پر کی جاتی ہے۔ قدرتی انداز کی یعنی زبان سے کی جانے والی گفتگو میں تو خیر سے اب بھی خاصی ''دقیانوسیت‘‘ پائی جاتی ہے!ہمارے احباب اور اعزا میں کئی ایسے ہیں جن کے بارے میں بہ زبانِ آتشؔ بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے ع
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
ان مہربانوں کی عنایت ہے کہ اُن سے تھوڑی سی دیر بتیانے ہی پر کئی موضوعات ہاتھ آجاتے ہیں۔ مرزا تنقید بیگ کو تو آپ جانتے ہیں۔ جب بھی ہمیں اُن سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے ‘دل و دماغ کو عجیب طرح کی تازگی میسّر ہوتی ہے اور ہم قلم یعنی کی بورڈ تھام کر کالم تیار کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ مرزا کے خلوص کی انتہا یہ ہے کہ‘ غیر محسوس طور پر‘ ہماری مدد کرنے کے خیال سے ایسا بہت کچھ کہتے ہیں جو ذہن کو زیادہ قوت کے ساتھ قیاس کے گھوڑے دوڑانے کی تحریک دیتا ہے اور یوں اُن سے تھوڑی سی دیر کی گفتگو کے بطن سے ہم کئی کالم برآمد کرلیتے ہیں۔ بھائی اکبر خان مغل کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ آج کل وہ بھی خالص پاکستانی بنے ہوئے ہیں یعنی زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزرتا ہے۔ کل وہ تشریف لائے اور گفتگو کا سلسلہ چند ہی لمحات میں وہاں تک جا پہنچا جہاں بالعموم پہنچ جایا کرتا ہے۔ اچھی خاصی ''دانائی‘‘ کی باتیں ہو رہی تھیں کہ ''کھابے‘‘ بیچ میں آگئے۔ جی ہاں‘ کھابے۔ پاکستانی محو ِگفتگو ہوں اور بات کھابوں تک نہ پہنچے‘ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ گویا بقولِ فرید جاوید ؎
گفتگو کسی سے ہو تیرا دھیان رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلّم کا
بھائی اکبر‘ انور‘ مرزا عالم بیگ‘ منور مغل اور دیگر احباب کا معاملہ یہ ہے کہ اِن کی باتیں سُنیے تو ایسی سادگی دکھائی دیتی ہے ہر بات پر نثار ہو جانے کو جی چاہے مگر جب شادی کی کسی تقریب میں کھانا کُھلنے پر ان کی طرز فکر و عمل ملاحظہ فرمائی جائے تو دیکھنے والوں کے ہوش و حواس کی واٹ لگ جائے۔کل کی گفتگو میں بھائی اکبر نے بھی وہی کیا جو شادی کے بعد ابتدائی زمانے میں پاکستان میں بالعموم کیا کرتے ہیں۔ شریکِ حیات کو متاثر کرنے کی غرض سے تھوڑی سی سنجیدگی کے ساتھ کہنے لگے کہ سادگی میں جو مزا ہے وہ بھلا چمک دمک میں کہاں۔ پھر یہ بھی کہا کہ جب شدید بھوک لگی ہو تب سُوکھے ٹکڑے بھی اچھے لگتے ہیں اور حواس و اعصاب پر نیند کا غلبہ ہو تو انسان کو ٹوٹی کھاٹ بھی کافی ہے۔ یہ بات سُن کر اُن کی بیگم بھی متاثر ہوکر اثبات میں سَر ہلانے لگیں۔ اور ہم؟ ہم اور ہمارے اہلِ خانہ اس بیان پر حیران و پریشان ہونے اور (خیالوں ہی خیالوں میں) اپنے سَر پیٹنے کے سوا کر بھی کیا سکتے تھے!
ہم حیران ہوکر بھائی اکبر کا منہ تکنے لگے۔ بھائی اکبر کا شمار ہمارے اُن احباب میں ہوتا ہے جو ''جہاں بھی دیکھی تَری‘ وہیں بچھائی دَری‘‘ والے مقولے پر عمل کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں! محترم کے اندازِ بیاں سے تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کھانے پینے کے معاملے میں انتہائی محتاط و قناعت پسند ہیں۔ سوشل میڈیا نے کیسے کیسے غضب ڈھائے ہیں۔ انسان اِدھر اُدھر سے آئے ہوئے اقوالِ زریں پڑھ کر اپنی گفتگو کو کیسی ''عبرت ناک‘‘ بناتا ہے کہ کوئی انجان سُنے تو دنگ رہ جائے‘ متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ بھائی اکبر سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے‘ ہم من ہی من ع
او ''آنے والے‘‘ میں تِرے قربان ...
گنگنانے لگتے ہیں۔ وہ اپنی چکنی چُپڑی باتوں سے ہمارے دل و دماغ کو یوں تَر کرتے ہیں کہ پھر کئی دن تک ہمارا ذہن ''آمادہ بہ کالم‘‘ رہتا ہے۔ ہم نے بھائی اکبر کو ''کھابوں‘‘ کے معاملے میں ہمیشہ ''ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم‘‘ والی حالت میں پایا ہے! پاکستانی معاشرے میں ویسے تو اب سبھی کچھ تماشے کے ذیل میں آتا ہے مگر شادی کی تقریبات کا اپنا ہی رنگ اور لطف ہے۔ شادی کی کسی بھی تقریب میں شرکت کیجیے‘ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور دکھائی دیتا ہے جو دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔
عام آدمی تو محض بدحواس ہوکر رہ جاتا ہے۔ ہم جیسے ''ذی فہم‘‘ لکھاری الفاظ کی بین بجاکر شادی بیاہ کی پٹاری سے بہت کچھ برآمد کرتے ہیں۔ شادی کی ہر تقریب میں کھانا کھلنے کا منظر انسان کو نئی دنیاؤں میں لے جاتا ہے۔ ایسے میں کھانا کھانے میں کم اور لوگوں کو کھاتے ہوئے دیکھنے میں زیادہ لطف ہے!
ہم نے شادی کی کئی تقریبات میں بھائی اکبر کے ساتھ شرکت کی ہے۔ ویسے تو خیر وہ بھی اپنی جگہ بہت کچھ ہیں‘ مگر جب عالم بیگ بھی ساتھ ہوں تو دونوں کا جوش و جذبہ واقعی قابلِ دید ہوتا ہے۔ شادی کی تقریب میں جب کھانا کھلتاہے تب تقریب کے تقریباً تمام ہی شرکااپنی مثال آپ ثابت ہونے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں مگر بھائی اکبر اور عالم بیگ کا ہم نے کچھ اور عالم دیکھا ہے۔ جب یہ دونوں مختلف کھابوں سے اپنی پلیٹیں سجاتے یعنی بھرتے ہیں تب ؎
سب اُن کو دیکھنے لگتے ہیں دم بخود ہوکر
وہ آئینہ جو کبھی بن سنور کے دیکھتے ہیں
والی کیفیت پیدا ہونے میں دیر نہیں لگتی! بھائی اکبر اور اُن کے ہم نوا شادی کی تقریب میں جب کھانا شروع کرتے ہیں تب بہت سے شرکا اپنی پلیٹیں ایک طرف رکھ کر اُنہیں دیکھتے ہیں! کیوں نہ دیکھیں؟ یہ منظر ہوتا ہی قابلِ دید ہے۔ اور پھر روز روز ایسا تماشا کہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔بھائی اکبر کے منہ سے سوکھے ٹکڑوں اور ٹوٹی کھاٹ والی بات سُن کر ہم چند لمحات کے لیے بے حواس سے ہوگئے تھے۔ حواس بحال ہونے پر ہم نے بھائی اکبر کی طرف دیکھا تو ایسا لگا جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ اب اس بات کا تیا پانچا مت کرنا ورنہ شخصیت کا سارا تاثر غارت ہوجائے گا!
کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ وہ زمانہ تو کب کا جاچکا ہے جب بھائی اکبر جیسے لوگ تماشے کا درجہ رکھتے تھے۔ اب تو خیر سے پورا پاکستان ہی ''جہاں بھی دیکھی تَری‘ وہیں بچھائی دَری‘‘ جیسی کیفیت کا حامل ہے۔ کوئی وائرس وارد ہو یا اُس سے وابستہ وبا‘ اہلِ پاکستان کھابوں کے معاملے میں جس مقام تک پہنچ چکے ہیں وہاں سے ہٹنا یا واپس آنا گوارا نہیں کرتے۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں خوش رہنے کے لیے انسان کو سو جتن کرنا پڑتے ہیں۔ آج دنیا بھر کے لوگ خوش رہنے کے لیے پتا نہیں کتنے کورس کرتے ہیں‘ سیمینار اور ورک شاپس میں حاضری دیتے ہیں۔ ایسے میں یہ بھی غنیمت ہے کہ اہلِ پاکستان خور و نوش کے معاملے ہی میں سہی‘ خوش تو ہیں۔ ع
کھاؤ اور کھاتے ہی جاؤ‘ تمہیں ڈر کس کا ہے!
سادگی وادگی کسی اور دنیا کا معاملہ سہی۔ ہماری دعا ہے کہ بھائی اکبر اُن کے ہم مشرب اہلِ وطن کھانے پینے کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے یوں ہی شاد و آباد رہیں ع
بڑھتی رہے یہ روشنی‘ چلتا رہے یہ کارواں