تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     27-06-2013

جو نہیں ہوتا

ایک سردار جی پہلی بار لندن گئے۔ واپس آ کر شام کی محفل میں اپنے دوستوں کو ‘ وہاں کے واقعات سنانے لگے۔ ایک شام کا قصہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ٹیوب سٹیشن پر میری ایک گوری سے ملاقات ہو گئی۔ تھوڑی دیر میں ہم نے ایک دوسرے کو اپنے بارے میں بتایا۔ وہ لندن کے ایک بنک میں کام کرتی تھی‘ میں یہاں لدھیانے میں جو کرتا ہوں وہ کہہ دیا۔ پھر ہم نے ایک تھیٹر دیکھا۔ تھیٹر کے بعد اکٹھے ڈنر کیا۔ ’’یہاں آ کے سردار جی چپ ہو گئے۔‘‘ دوستوں نے پوچھا ’’پھر‘ آگے کیا ہوا؟ یہ تو بتائو!‘‘ سردار جی نے ایک لمبا سانس لیا اور بولے ’’پھر کیا ہونا تھا؟ وہی ہوا جو لدھیانے میں روز ہوتا ہے۔‘‘ یہ قصہ مجھے اٹارنی جنرل کو نوازشریف کی ہدایت پڑھ کر یاد آ گیا‘ جس میں انہوں نے فرمایا’’مشرف کے خلاف ٹرائل کے دوران غیرجانبداری نظر آنی چاہیے۔‘‘ اب وزیراعظم صاحب کو کون بتائے کہ سرکار کی طرف سے جب کوئی کارروائی شروع ہو جاتی ہے‘ تو پھر ساری باتیں دھری رہ جاتی ہیں اور وہی ہونے لگتا ہے‘ جو پاکستان میں روز ہوتا ہے۔بھٹو صاحب کے ٹرائل میں بھی بہت غیرجانبداری دکھانے کا جتن کیا گیا۔ لیکن ہوا وہی‘ جو پاکستان میں روز ہوتا ہے۔ خودپرویزمشرف نے نوازشریف کا ٹرائل کیا‘ تو قانونی طریقہ استعمال کرتے ہوئے‘ لوئرکورٹ سے کارروائی شروع کی گئی۔ مگر ہوا وہی‘ جو پاکستان میں روز ہوتا ہے۔ضیاالحق کے زمانے میں چند بہادر نوجوان فوجی افسروں پر‘ جن میں راجہ نادر پرویز بھی شامل تھے‘ بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا۔ اس وقت فوجی قیادت کی کوشش تھی کہ پورا انصاف کیا جائے۔ راجہ نادر پرویزسے پوچھ کر دیکھئے ‘ وہ آپ کو بتائیں گے کہ ان کے ساتھ بھی وہی ہوا‘ جو پاکستان میں روز ہوتا ہے۔ پاکستان میں کیا ہوتا ہے؟ یہاں جب تک کوئی‘ اپنے منصب پر پوری طاقت کے ساتھ فائز رہے‘ اس کے پرستار‘ اس کے فدائی‘ اس کے خوشامدی‘ شب و روز اس کی مدح سرائی کرتے ہیں۔ اسے دیکھتے ہی پورے جسم کو کمان بناکر‘ سلام کرتے ہیں۔ اس کے اشارہ ابرو پر یوں متحرک ہو جاتے ہیں‘ جیسے کسی نے کرنٹ لگا دیا ہو۔ مگر جب وہی شخص کرسی سے محروم ہوتا ہے‘ تو یہ سب کے سب اسے نظرانداز کرنے لگتے ہیں۔ کہیں سامنا ہو جائے‘ تو ایسے ظاہر کرتے ہیں ‘ جیسے کہ دیکھا ہی نہیںاور اگر سرکار کی طرف سے ‘ اس کے خلاف کوئی کارروائی شروع ہو جائے‘ تو انہی میں سے بے شمار لوگ فی سبیل اللہ اس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس نے کتنی مہربانیاں کی؟ کتنی نوازشات کیں؟ اور انہوں نے اس کے کتنے فائدے اٹھائے؟ وہ بڑے غور اور بڑی محنت سے اپنی یادوں کو کھنگالتے ہوئے‘ کوئی ایسا واقعہ یاد کرتے ہیں‘ جب ان کے سابق آقا نے انہیںتکلیف پہنچائی ہو۔ اگر کوئی سچ مچ کی تکلیف یاد نہیں آتی‘ تو پھر بھی اپنے حافظے کو کرید کرید کر کوئی نہ کوئی وجہ عناد ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ مثلاً یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پرویزمشرف کے خلاف اظہار نفرت کے لئے ‘ وہ اپنے آپ کو اس بات کا قائل کر لیں کہ فلاں وقت جب انہوں نے پرویزمشرف کو جھک کر سلام کیا تھا‘ تو وہ جواب دیئے بغیر گزر گئے تھے۔ اپنی توہین یاد کر کے‘ ان کی آنکھیں لال ہو جاتی ہیں۔ بال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مٹھیاں بند ہو جاتی ہیں اور وہ پیچ و تاب کھاتے ہوئے یہ عہد کرتے ہیں کہ اب میرے انتقام کا وقت آ گیا ہے۔ میں پرویزمشرف سے اپنی توہین کا بدلہ لے کر رہوں گا۔ بس پھر کیا ہے؟ وہ بھی زورشور سے مخالفانہ مہم چلانے والوں کی صفوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور بڑے جوش و خروش سے کہتے ہیں ’’اس شخص نے پاکستان کے آئین کو توڑا تھا۔ ہمارے ملک کو تباہ کر دیا تھا۔ انسان کو انسان نہیں سمجھتا تھا۔ اس نے میاں صاحب کو ہتھکڑیاں لگوائی تھیں۔ انہیں جیل کی تنگ وتاریک کوٹھڑیوں میں رکھا تھا۔ حتیٰ کہ میرا سلام قبول کرنے سے گریز کر کے‘ اس نے میری روح کو بھی زخمی کر دیا تھا۔ لیکن قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ آج وہ انصاف کی پکڑ میں آگیا ہے۔ اسے بچ کر نہیں نکلنا چاہیے۔‘‘ موجودہ پارلیمنٹ میں 90 کے قریب اسی قسم کے لوگ بیٹھے ہیں‘ جنہیں قتل کا مقدمہ قائم ہونے کی خبرسن کر‘ پرویزمشرف کی تمام برائیاں یاد آ گئیں‘ جو ان کے مشاہدے میں آئیں اور وہ سارے زخم ہرے ہو گئے‘ جو پرویزمشرف نے دوران اقتدار انہیں لگائے تھے۔ سب نے پورے جوش و خروش کے ساتھ وزیراعظم کی تائیدکی۔ وہ بھول چکے ہیں کہ جب وہ مشرف کے غاصبانہ اقتدار کے حصے دار تھے‘ تووہ مشرف اس وقت بھی غدار تھے۔میڈیا بھی دیکھتے ہی دیکھتے‘ انصاف کا علمبردار بن گیا اور جو اینکرز ‘ مشرف سے انٹرویو کی تاک میں لگے رہتے تھے اور وقت ملنے پر محمد علی درانی سے بھی زیادہ مہذب اور شائستہ لہجے میں انٹرویو کیا کرتے تھے‘ اب مشرف کے مقدمے پر اظہار خیال کرتے ہوئے‘ ان کی آنکھوں سے شعلے نکلتے نظر آتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ان کا بس چلے‘ تو اپنے ہاتھوں سے مشرف کے گلے میں پھندا ڈالیں اور سب سے بڑھ کر وہ مشرف کے ساتھ دیرینہ دشمنی کے وقت کو یاد کرتے ہیں۔ اب جنہیں مشرف کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لینے کا موقع ملے گا‘ وہ قانون اور آئین کو نہیں دیکھیں گے۔ سرکار کو یہ دکھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے کہ انہیں میاں صاحب کے ساتھ ہونے والے مظالم کا کتنا دکھ ہے؟ جب پرویزمشرف نے نوازشریف کو اقتدار سے ہٹایا‘ تو وہ کس طرح تڑپے تھے؟ اور وہ یوں ظاہر کریں گے ‘ جیسے قدرت نے انہیں اس تکلیف کا بدلہ لینے کا موقع دیا ہے‘ جو نوازشریف کی برطرفی پر پہنچی تھی۔ اسی طرح کے انتقامی جذبے اور بھی کئی جگہ بیدار ہوتے جائیں گے۔ مگر وہاں تک جاتے ہوئے میرے پر جلتے ہیں۔پاکستان میں یہ روز ہوتا ہے۔ حاکم بدلتے رہتے ہیں۔ گناہگار بدلتے رہتے ہیں۔ مگر جب ’’انصاف‘‘ کا عمل شروع ہوتا ہے‘ تو پھر وہی کچھ ہونے لگتا ہے‘ جو پاکستان میں روز ہوتا ہے۔ ’’جو پاکستان میں روز نہیں ہوتا‘‘ وہ ہے خدا اور اس کے بنائے ہوئے نظام قدرت کے انصاف پر قناعت کرنا۔ اگر نظام قدرت کا انصاف دیکھا جائے‘ تو پرویزمشرف اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ اقتدار ان کے پاس نہیں رہا۔ عوام میں ان کی جتنی عزت رہ گئی ہے‘ اس کا اندازہ کراچی میں کروڑوں روپے کے خرچ سے کرائے گئے استقبال کو دیکھ کر ہو گیا تھا۔ جو پارٹی انہوں نے اپنے لئے بنائی تھی‘ وہ انہیں چھوڑ کر تتربتر ہو چکی ہے۔ صرف فیس کی وصولیاں کرنے والے‘ ان کے حق میں بولتے نظر آتے ہیں۔ جو ان کے آگے پیچھے پھرتے تھے‘ وہ ان کے پیغامبروں کا ٹیلیفون بھی نہیں سن رہے۔الیکشن میں جیسے بھی ہوا‘ وہ کوئی حیثیت حاصل نہ کر سکے۔ اگر انہیں کچھ نہ کہا جاتا‘ تو وہ تنہائی کی غذا بننے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ میں نے کل ایوب اور یحییٰ خان کا ذکر کیا تھا۔ بھٹو نے ان دونوں کو سزا دینے کی بجائے‘ اذیت ناک تنہائیوں کے سپرد کر دیا اور یہ خاموشی سے اپنے اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ اگر پرویزمشرف کو بھی اسی طرح اسلام آباد میں آرام سے رہنے کی سہولت دے دی جاتی‘ توکوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔ پرویزمشرف اس قابل نہیں تھے کہ حکومت کے کام میں کوئی رکاوٹ ڈال سکتے۔ بھٹو بھی چاہتے‘ تو اقتدار سنبھالتے ہی غداری کے مقدمے قائم کر سکتے تھے۔ پرانے حساب کتاب کھول سکتے تھے۔ انہیں بھی ایوب نے قیدمیں ڈالا تھا۔ انہیں بھی یحییٰ خان نے گرفتار کیا تھا۔ لیکن ان کی نظر مستقبل پر تھی۔ ماضی کو ادھیڑ کے بیٹھ جانے والے‘ پھر اسی کام میں لگ جاتے۔ آپ کو چیزیں ادھیڑنے کے لئے نیچے دیکھنا پڑتا ہے۔ لیکن نیچے کی طرف گئی ہوئی نگاہیں‘ آگے نہیں دیکھ سکتیں۔ جو مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں‘ ان کی نگاہیں سامنے ہوتی ہیں۔ وہ آگے کی طرف دیکھتے ہیں۔ بھٹو نے اپنے چند سالوں کے اقتدار میں بے شمار انقلابی فیصلے کئے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کا نفاذ صحیح طریقے سے نہ ہو سکا۔ اس کے باوجود وہ ہمارے معاشرے میں بے شمار تبدیلیاں لے آئے تھے۔ جن کے اثرات آج تک باقی ہیں۔ کوئی انہیں پسند کرے یا ناپسندے کرے لیکن رائے عامہ پر جتنا طویل راج بھٹو نے کیا‘ وہ قائد اعظمؒ کے بعد‘ کسی دوسرے کے نصیب میں نہیں ہو سکا۔مقدمے قائم کر کے‘ نوازشریف اپنے وفاداروں اور پرستاروں کی ’’کارکردگی‘‘ کے پابندہو گئے ہیں۔ یہ مقدمے اب جیسے بھی چلیں گے‘ ان کا ذمہ دار نوازشریف کو سمجھا جائے گا۔ وہ ہزار کہتے رہیں کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ مگر جب پاکستان میں انصاف کا عمل شروع ہوتا ہے‘ توپھر وہ کسی قانون یا انصاف کے دائرے میں نہیں رہتا۔ حکمران کے وفاداروں کی ’’کارکردگی‘‘ کا شکار ہو جاتا ہے۔ دیکھتے رہیے! ’’وفاداریاں ‘‘کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved