تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-01-2021

وہاں بھی ملبہ ہی رہ جاتا ہے

ہم ایک زمانے سے اپنی حکومتوں کا یہ راگ سُن رہے ہیں کہ وہ کچھ بھی اس لیے نہیں کر پاتیں کہ پیش رَو جو کچھ کرگئے ہوتے ہیں اُسے بھگتنے میں نئے آنے والے کھپ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جسے بھی اقتدار ملتا ہے اُسے وعدے یاد دلائیے تو رونا رونے بیٹھ جاتا ہے۔ سب سے بڑا رونا یہ ہے کہ انتخابی معرکہ آرائی نے جنہیں رخصت کیا ہے اُنہوں نے کچھ کرنے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ اب اگر پوچھئے کہ یہ بات تو عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے، پھر آپ کی سمجھ میں کیوں نہ آئی تو جواب میں خاموشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر بے سَر و پا باتوں کا۔ یہ تماشا دو عشروں سے امریکا میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ جارج واکر بش نے 2000ء سے 2008ء تک جو کچھ بھی کیا اُس نے امریکا کے لیے ایسی خرابیاں پیدا کیں جن کے بارے میں کل تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ہر بڑی طاقت کی بہت سی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔ کسی بھی کمزور ریاست کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ طاقتور ریاست کو خاک چٹائے۔ یہ کام تو قدرت کا ہے۔ ہر بڑی اور انتہائی طاقتور ریاست اپنے ہی بوجھ سے گرتی ہے۔ قدرت کے اِس کُلیے سے امریکا بھی مستثنیٰ نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف عالمگیر مہم کے نام پر امریکا نے جارج ڈبلیو بش کی قیادت میں دو جنگیں چھیڑیں۔ مغرب کے علاوہ دیگر خطوں سے بھی اتحادیوں کو ساتھ لے کر امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کی۔ یہ بھی خوب رہی کہ جس ملک میں بنیادی ڈھانچے کے نام پر کچھ تھا ہی نہیں اُس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اہتمام کیا گیا۔ افغانستان کو مزید تباہ کرکے بھی دل نہیں بھرا تو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کا الزام عائد کرکے عراق کو بھی تاراج کیا گیا۔ بعد میں غیر جانب دارانہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ عراق میں وسیع پیمانے کی تباہی والے ہتھیار بنانے کا کوئی بھی بنیادی ڈھانچا نہیں تھا۔ عراق کو تباہ کرکے خطے کے تمام ممالک کو پیغام دیا گیا کہ اگر انہوں نے مغرب پرستی کے دائرے سے نکلنے کی کوشش کی تو ایسے ہی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔
پھر دیگر خلیجی ریاستوں نے امریکا کے دائرۂ اثر سے نکلنے کی معمولی سی بھی کوشش نہیں کی۔ اور حق تو یہ ہے کہ ایک طرف امریکا کے لیے پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں اور دوسری طرف خلیجی حکمران اُس کے لیے آسانی کا اہتمام کرتے جارہے ہیں! پورے مشرقِ وسطیٰ کو ایک بار پھر مکمل طور پر امریکا اور یورپ کے ہاتھ میں دینے کی بات ہو رہی ہے۔ ''نیوم‘‘ نام کا شہر بسانے کے حوالے سے جس پروگرام کا اعلان کیا گیا ہے اُس سے واضح ہو جاتا ہے کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور امریکا و یورپ کے لیے بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں اور پریشانیوں سے اِن حکمرانوں کو کچھ خاص غرض نہیں۔ اِنہیں صرف اپنا اقتدار عزیز ہے اور اِس سے آگے وہ کچھ بھی دیکھنا نہیں چاہتے۔ کسی بھی امریکی صدر کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طے کردہ پالیسیوں سے مکمل گریز یا یو ٹرن ممکن نہیں ہوتا۔ اور یہ بات خرابیوں کو دور کرنے کے معاملے میں زیادہ لاگو ہوتی ہے۔ اگر کوئی امریکی صدر اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق معاملات کو درست کرنے کی طرف بڑھتا ہے تو اسٹیبلشمنٹ آڑے آ جاتی ہے۔ فوج کے اپنے مفادات ہیں اور صنعت کاروں کے مفادات بھی کم نہیں۔ ایسے میں سیاسی سطح پر کیے جانے والے فیصلوں میں جانب داری کا تناسب بڑھ ہی جاتا ہے۔ بارک اوباما نے جب امریکی صدر کا منصب سنبھالا تب بہت کچھ بُری طرح بگڑا ہوا تھا۔ افغانستان اور عراق پر تھوپی جانے والی جنگ کا ملبہ ہٹانے کی ناپسندیدہ جاب اوباما کے حصے میں آئی۔ صدر کی حیثیت سے انہیں یہی تو کرنا تھا۔ اُن کے آٹھ برس اِس طور گزرے کہ افغانستان اور عراق میں امریکی بساط لپیٹی جاتی رہی۔ اِس سے زیادہ کچھ کرنا ممکن نہ ہو پایا۔ یمن، شام اور لیبیا میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا خمیازہ بھی اچھی خاصی حد تک اوباما انتظامیہ کو برداشت کرنا پڑا۔ رہی سہی کسر عرب خطے میں عوامی بیداری کی لہر (عرب سپرنگ) نے پوری کردی۔ ایسے میں امریکا کو بھی بیدار ہونا پڑا... اُنہیں سُلانے کے لیے! یمن اور شام کی خانہ جنگی نے امریکا اور روس کو بھی ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کردیا۔ داعش نے شام اور عراق میں جو کچھ کیا اُس کے انتہائی نوعیت کے اثرات سے نمٹنے میں سابق امریکی صدر کو اپنا اچھا خاصا وقت کھپانا پڑا۔ افغانستان سے ''آبرو مندانہ‘‘ طریقے سے نکلنا بھی صدر اوباما کے لیے خاصا جاں گُسل مرحلہ تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کی حیثیت سے چار برس کے دوران جو کچھ کیا ہے اُس کا ملبہ اب جو بائیڈن کو ہٹانا پڑے گا۔ انہوں نے آتے ہی صفائی کا کام شروع کردیا ہے۔ ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کو غیر موثر کرتے جارہے ہیں۔ مسلم ممالک سے سفر کی پابندیاں ختم کرنے میں انہوں نے خاصی تیزی دکھائی ہے۔ میکسیکو سے ملنے والی سرحد پر دیوار کھڑی کرنے کے معاملے میں بھی جو بائیڈن نے یو ٹرن لیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو یہ سوچ کر تھوڑا بہت سکون ضرور ملا ہوگا کہ چلئے، امریکا میں بھی یو ٹرن کا دور شروع ہوگیا ہے! ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت سے ایسے اقدامات کیے جن کے بارے میں لوگوں نے کم ہی سوچا ہوگا۔ آج لوگ یہ سوچ سوچ کر حیران و پریشان ہیں کہ اُن کی Legacy یعنی ترکے کی حیثیت سے کیا یاد رکھیں۔ یہ تو واقعی بہت پریشان کن مرحلہ ہے۔ ٹرمپ نے پوری شعوری کوشش کی کہ کوئی بھی معقول بات اُن کے کھاتے میں درج نہ ہو۔ سنجیدگی اُن کی شخصیت میں برائے نام بھی نہ تھی۔ ایک مرحلے پر تو یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ جوہری ہتھیاروں کا بٹن اُن سے لے لیا جائے!
ڈونلڈ ٹرمپ نے سفید فام امریکیوں کی حمایت پانے کے لیے نسل پرستی کو کھل کر ہوا دی۔ وہ سفید فام نسل کی برتری کے قائل ہیں اور انتخابی مہم میں بھی انہوں نے اس حوالے سے اپنی سوچ چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ ٹرمپ ہی کا ''کمال‘‘ ہے کہ آج امریکا میں نسلی بنیاد پر تنافر کی نئی لہر پائی جارہی ہے۔ سیاہ فام امریکی امتیازی نوعیت کا سلوک مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حالیہ امریکی انتخابات میں نسل پرستی کھل کر سامنے آگئی۔ ڈیموکریٹس کو صرف سیاہ فام امریکیوں ہی کی حمایت حاصل نہیں بلکہ دیگر نسلوں سے تعلق رکھنے والے امریکی بھی اب ڈیموکریٹس ہی کو اپنے لیے بہترین آپشن کا درجہ دے چکے ہیں۔ ٹرمپ اِتنا ملبہ چھوڑ گئے ہیں کہ صدر بائیڈن اُسے ہٹانے کے مرحلے ہی میں اچھی خاصی تکان سے دوچار ہوجائیں گے۔ خوشا کہ اب امریکا میں بھی ملبہ چھوڑ جانے والی حکومتیں پائی جارہی ہیں۔ یورپ کے لیے بھی یہ بہت مشکل مرحلہ ہے۔ اُسے بھی اپنے لیے ایسی راہ کا انتخاب کرنا ہے جس پر تادیر چلا جاسکے اور امریکا کی حماقتوں کے اثرات سے بچنا بھی ممکن ہو۔ ڈیڑھ دو عشروں کے دوران یورپ نے امریکا کی احمقانہ پالیسیوں کا خمیازہ خوب بھگتا ہے۔ یورپ کی قوتِ برداشت بھی بظاہر ختم ہوچلی ہے۔ وہ تین چار عشروں کے لیے ایسی پالیسی تیار کرنا چاہتا ہے جس میں جنگجویانہ عنصر زیادہ نہ ہو۔ یورپ کی نظر دیگر خطوں میں رونما ہونے والی پیش رفت پر بھی ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور کئی دوسرے ممالک کی مضبوط ہوتی ہوئی پوزیشن کا بھی یورپی قائدین کو اندازہ ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا سادہ لوحی پر مبنی ہوگا کہ یورپ سوچے سمجھے بغیر ہر معاملے میں امریکا کا ساتھ دیتا رہے گا۔ عالمی سیاست میں پسند و ناپسند نہیں چلتی، صرف مفادات کو دیکھا جاتا ہے۔ جو بائیڈن وائٹ ہاؤس میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ معاملات کو درست کرنے پر خاطر خواہ توجہ دیں گے۔ خود کو بہتر ثابت کرنے کے لیے انہیں دنیا بھر میں مزید خرابیاں پیدا کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ ٹرمپ کا چھوڑا ہوا ملبہ ہٹانے کی صورت میں اُنہیں اتنا سبق تو ملنا ہی چاہیے کہ ملک کو درست راہ پر گامزن کرنے کا سوچیں اور آنے والوں کے لیے کوئی نیا ملبہ نہ چھوڑیں۔ شدید دباؤ سے دوچار امریکا کو متوازن پالیسیاں درکار ہیں، ملبہ نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved