تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     26-01-2021

جناب شاہ محمود قریشی کے اونچے خواب

جہاں تک قریشی صاحب کا تعلق ہے تو وہ نام کے شاہ اور خطابت کے شہنشاہ ہیں اس لیے جب کبھی ارشاد فرماتے ہیں تو کوئی نہ کوئی بڑی بات ہی کہتے ہیں۔ شاید انہوں نے وائٹ ہائوس کی بزم سے بادل ناخواستہ اُٹھ کر جانے والے سابق صدر کا ایک قول پلے باندھ رکھا ہے۔ قول سننے سے پہلے آپ فیض احمد فیضؔ کی زبانی یہ سن لیں کہ جناب ٹرمپ کس دل سے وائٹ ہائوس کی بزم سے اٹھ کر گئے ہیں۔ فیض کہتے ہیں ؎
اُٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
ٹرمپ کا قول یہ ہے کہ جب کبھی سوچو تو کچھ بڑا سوچو۔اب میں یہ بھی بتا دوں کہ وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی کیا فرماتے ہیں۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ ہم امریکہ اور چین میں مصالحت کرانے کو تیار ہیں۔ 1972ء میں امریکہ نے چین کے ساتھ تعلقات اُستوار کرنے کا فیصلہ کر لیا تو پاکستان نے اُسے راہداری اور ابتدائی سفارت کاری کی سہولیات فراہم کیں۔ آج 2021ء کے حالات یکسر مختلف ہیں۔ امریکہ اور چین اپنے تعلقات بگاڑنے اور سنوارنے میں خودکفیل ہیں۔ دو عالمی طاقتوں کے اس بنائو بگاڑ میں پاکستان کہیں نہیں آتا اس لیے شاہ صاحب بڑوں کے معاملات سنوارنے کے بجائے اپنے بگڑے خارجہ تعلقات سدھارنے پر توجہ مرکوز کریں۔
اس سے پہلے پاکستان کے موجودہ حکمران سعودی عرب اور ایران کے تعلقات سنوارتے سنوارتے اپنے تعلقات بگاڑ بیٹھے ہیں۔ اگرچہ موجودہ وزیراعظم بار بار انگلستان کی جمہوری و پارلیمانی فضا میں پلنے اور بڑھنے کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ بھی ویسے ہی ثابت ہوئے جیسے گزشتہ ادوار کے حکمران تھے۔ خارجہ پالیسی کی تشکیل فردِ واحد کا کام نہیں یہ ایک بڑا ٹیم ورک ہے جس میں وزارتِ خارجہ‘ پارلیمنٹ‘ تھنک ٹینک اور سابقہ وزرائے خارجہ اور سفارتکار شامل ہوتے ہیں۔ مگر یہاں ہمیں کوئی ایسا منظر دکھائی نہیں دیتا۔ 
2019 ء میں جنرل اسمبلی کے نیویارک میں سالانہ اجلاس کے موقع پر جناب وزیراعظم نے ملائیشیا کے وزیراعظم جناب مہاتیر محمد اور ترکی کے صدر جناب طیب اِردوان کے ساتھ مل کر اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس بلانے اور اس میں پاکستانی وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی بھرپور شرکت کرنے کی یقین دہانی کرائی مگر جب اُن پر سعودی دبائو پڑا تو عین آخری وقت میں وہ اس کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے۔ اس طرح ہمارے دوطرفہ ہی نہیں کئی طرفہ تعلقات ناخوشگوار ہوگئے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل جناب شاہ محمود قریشی نے یہ کہہ دیا کہ ہم سعودی عرب کے بغیر بھی اسلامی سربراہی کانفرنس بلا سکتے ہیں۔ سعودی عرب‘ کہ جس کے ساتھ ہمارے ستر سالہ پُرجوش برادرانہ تعلقات ہیں‘ نے اس کا بہت برا منایا اور ایک بلین ڈالر کا قرض بھی واپس مانگ لیا۔ گزشتہ دوچار برس سے پاکستان ڈپلومیٹک ایکٹوازم کے نام پر کچھ ایسی عالمی طاقتوں کے ساتھ کارآمد دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے جن سے گزشتہ دہائیوں میں ہمارے تعلقات برائے نام تھے۔ اسی طرح چند ایک چھوٹے ممالک بھی ہماری ترجیحی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں۔ ہمارے لائوڈ تھنکنگ کرنے والے حکمرانوں کو ادراک ہونا چاہئے کہ نئے تعلقات قائم کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ پرانے دوستوں سے بے رخی اختیار کرلی جائے۔
خارجہ تعلقات کے حوالے سے ہم کہاں کھڑے ہیں؟ سبب کچھ بھی ہو مگر اس وقت ایک پڑوسی‘ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات انتہائی کشیدہ اور دوسرے پڑوسی‘ افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی کے ساتھ بھی تعلقات کشیدگی کی ہی ذیل میں آتے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوستوں بلکہ بھائیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ نہیں تو شدید سردمہری کا شکار ضرور ہیں۔ ڈاکٹر مہاتیرمحمد کے بعد ملائیشیا سے بھی ہمارے تعلقات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ملائیشیا کی ایک مقامی عدالت نے ہمارا مؤقف سنے بغیر یکطرفہ طور پر ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا اور پی آئی اے کے جہاز سے مسافروں کو اتار کر اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس طرح ساری دنیا میں پاکستان جگ ہنسائی ہوئی۔ یہ ہماری سفارتکاری کی بدترین ناکامی تھی۔ 
جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے بھارت نے وہاں کے حریت پسندوں اور عام شہریوں کو مجبور و محصور کر دیا اور 5 اگست 2019ء کو کشمیر کا سپیشل سٹیٹس بھی بدل دیا اور آئے روز وہ نہتے اور معصوم کشمیریوں کو شہید کر رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کو ظلم و ستم سے باز رکھنے کے لیے ہمارے حکمران کامیاب ڈپلومیسی سے کام لے رہے ہیں نہ ہی عالمی کمیونٹی کو مودی کے خلاف ایکشن لینے پر آمادہ کر سکے ہیں۔ گویا ہمارے حکمران بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ 
اب آئیے ان چیلنجز کی طرف جو امریکہ کو خارجہ میدان میں درپیش ہیں۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کے کسی خطے میں کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑی مگر اس نے دنیا کے مختلف علاقوں میں ہلچل مچانے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ ٹرمپ سے پہلے امریکہ کے چین کے ساتھ بڑی حد تک خوشگوار و ہموار تعلقات تھے۔ خاص طور پر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات تو نقطۂ عروج پر تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا سے پہلے ہی چین کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔ کورونا کی وبا کے چین میں پھوٹ پڑنے پر ٹرمپ نے اس کی ساری ذمہ داری چین پر ڈال دی۔ اس طرح امریکہ چین تعلقات بگاڑ کا شکار ہو گئے۔ ان تعلقات کو پہلے جیسی سطح پر لانا نئے امریکی صدر جوبائیڈن کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ 
امریکہ نے ایران کے ساتھ جو جوہری معاہدہ کر رکھا تھا ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے بھی تار تار کرنے کی کوشش کی اور ایران کے خلاف بیان بازی کر کے حالات کو اتنا کشیدہ کر دیا تھا کہ یوں لگتا تھا کہ اگلے لمحے واشنگٹن اور تہران میں جنگ ہوئی کہ ہوئی۔ بائیڈن کے لیے یہ دوسرا چیلنج ہے۔ اگرچہ روایتی طور پر امریکہ ہمیشہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتا چلا آرہا ہے اور امریکہ میں یہودی لابی بھی بہت مضبوط ہے؛ تاہم گزشتہ امریکی حکومتوں نے بڑی حد تک فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں غیرجانبداری کا تاثر قائم رکھا تھا مگر ٹرمپ نے علی الاعلان اسرائیل کی بے جا حمایت اور مالدار عرب ملکوں پر دبائو ڈال کر اُن کے اسرائیل سے تعلقات قائم کروا دیئے اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں کوئی پیشرفت نہ کی۔ یہ تیسرا چیلنج ہے۔
ان تینوں چیلنجز کے بارے میں تو پاکستان کوئی مدد کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کے وزیر خارجہ کو ایسی کوئی بات کہنی چاہئے جو ہماری بساط سے ماورا ہو۔ البتہ امریکہ ہمیں افغانستان کے مسئلے کے بارے میں اپنا اہم پارٹنر سمجھتا ہے۔ ابھی کل ہی امریکہ نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر نظرثانی کرنا چاہتا ہے۔ یہ وہ چیلنج ہے جس میں ہم بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں بلکہ پہلے سے کر رہے ہیں۔ افغانستان میں امن کے قیام سے پاکستان میں بھی امن و آشتی کی فضا قائم ہو گی۔ پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین طاہر جاوید صاحب جوبائیڈن کے نہایت قریب ہیں‘ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ اب پاکستان امریکہ تعلقات میں ایک نئی گرمجوشی دیکھنے میں آئے گی۔ 
وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی اونچے خوابوں کو چھوڑ کر زمینی حقائق پر توجہ مرکوز کریں۔ پاک امریکہ تعلقات کی متوقع گرمجوشی کو کام میں لاکر کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی رکوائیں اور مودی کو وہ سارے غیردستوری اقدامات واپس لینے پر آمادہ کروائیں جو اس نے کشمیر کی ہیئت تبدیل کرنے کیلئے کوئی سال ڈیڑھ سال پہلے اٹھائے تھے۔ وہ خواب کہ جنہیں حقیقت کا روپ دینا ممکن نہ ہو اُن خوابوں سے گریز ہی اچھا ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved