تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     26-01-2021

آٹو پالیسی سب کے لیے

پاکستان میں گزشتہ تین برسوں میں گاڑیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ آٹھ سو سی سی کی جو گاڑی تیس برس سے ایک ہی ماڈل کے ساتھ بادل نخواستہ قبول کرنا پڑتی تھی‘ وہ گزشتہ برس بند ہوئی تو اس کی قیمت آٹھ لاکھ روپے تک پہنچ چکی تھی لیکن اس میں ٹیکنالوجی وہی تیس برس پرانی تھی۔ اس کی جگہ جو چھ سو ساٹھ سی سی گاڑی متعارف کروائی گئی‘ وہ ٹیکنالوجی میں تو قدرے بہتر ہے لیکن اس کی قیمت سولہ لاکھ تک ہے۔ اٹھارہ سو سی سی کی جو گاڑی تین سال قبل تک سولہ‘ سترہ لاکھ میں مل رہی تھی وہ چالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے؛ تاہم اس دوران بہت کچھ نیا بھی ہوا۔ مثلاً ملک میں عرصہ دراز سے تین کمپنیوں کی اجارہ داری تھی لیکن سابقہ حکومت کی آٹو پالیسی کی وجہ سے اب درجن بھر نئی کمپنیاں مارکیٹ میں آ چکی ہیں۔ چھ سات کمپنیوں نے تو گاڑیوں کے ماڈل لانچ کر کے بکنگ بھی شروع کر دی ہے جبکہ اس سال دس سے پندرہ نئی گاڑیاں مارکیٹ میں آ رہی ہیں۔ اس سے جہاں مسابقت بڑھے گی وہاں بہترین فیچرز کے ساتھ معیاری گاڑیاں دینے کا مقابلہ پروان چڑھے گا۔ لوگوں کیلئے چوائس کرنا آسان ہو گا اور وہ اسی گاڑی کی طرف جائیں گے جو کم قیمت میں زیادہ بہتر خصوصیات کی حامل ہو گی۔ مارکیٹ میں کوریا کے ساتھ ساتھ چینی کمپنیاں بھی گاڑیاں متعارف کروا رہی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چینی گاڑیاں اپنے وقت کے ساتھ ہی جگہ بنا پائیں گی۔ چین میں اس وقت تمام بڑے چھوٹے موبائل فون برانڈز اور کمپیوٹر وغیرہ بنا رہا ہے اور دنیا اب صرف کم قیمت نہیں بلکہ معیاری اشیا کو زیادہ ترجیح دیتی ہے۔ اس لئے مارکیٹ میں صرف سستی گاڑی دینے والا کامیاب نہیں ہو گا۔ تشہیر اور مختلف آفرز کے ساتھ ایک مرتبہ گاڑی بیچ دینا بڑی بات نہیں‘ جب تک اچھا کسٹمر فیڈبیک نہیں آئے گا اور لوگ ایک دوسرے کو ریفر نہیں کریں گے‘ تب تک فروخت نہیں بڑھے گی۔ ڈیلر نیٹ ورک وسیع ہونا بھی کافی نہیں‘ پارٹس اور سروس کی ملک گیر فراہمی بھی اتنی ہی اہم ہے۔ لوگ نئے برانڈز اس لئے بھی نہیں خریدتے کہ ان کے پارٹس شروع میں ملتے نہیں یا بہت مہنگے ملتے ہیں۔
یہ تو نئی گاڑیوں کی بات تھی۔ ملک کا متوسط طبقہ سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کی پہنچ سے بھی دور ہوتا جا رہا ہے۔ نئی گاڑیوں کی قیمتوں میں گزشتہ تین برسوں میں دس لاکھ سے لے کر پچاس پچاس لاکھ تک اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کا اثر لامحالہ استعمال شدہ گاڑیوں پر بھی پڑا ہے۔ دو ہزار چھ ماڈل کی جو گاڑی آج سے چار برس قبل آٹھ‘ نو لاکھ میں مل جاتی تھی، وہ تیرہ چودہ لاکھ میں بھی نہیں مل رہی۔ پھر جس کے پاس صاف ستھری گاڑی ہے‘ وہ بیچنے کو بھی تیار نہیں کیونکہ اسے معلوم ہے کہ آگے صرف اندھیرا ہے کیونکہ اتنی رقم میں اب چھ سو ساٹھ سی سی مینوئل ٹرانسمیشن والی گاڑی ہی آتی ہے۔ اگرچہ پرانی گاڑیوں کی مارکیٹ میں لوگوں کی کشش ختم نہیں ہوئی۔ بہت سے لوگ پرانے ماڈلز کو زیادہ مضبوط اور دیرپا سمجھتے ہیں۔ آج کی نسبت ان میں فیچرز کم ہیں لیکن یہ بات درست ہے کہ ہر نیا آنے والانیا ماڈل باڈی کے لحاظ سے پچھلے سے قدرے کمزورہے۔ گاڑی کے مضبوط ڈھانچے کی بات کریں تو ہم آج کی گاڑیوں کا ساٹھ ستر اور اسی کی دہائی سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ وہ گاڑی آج کی گاڑی سے ٹکرا جائے تو اسے معمولی ڈینٹ پڑے گا جبکہ آج کی جدید گاڑیاں پچک کر رہ جائیں گی۔آج کل فریم سے زیادہ زور فیچرز پر ہے۔ جہاں تک ایئربیگز کی بات ہے تو یہ تبھی کھلتے ہیں جب گاڑی مقررہ رفتار سے تیز چل رہی ہو‘ ایکسڈینٹ فرنٹ سے ہو اور سیٹ بیلٹ پہنی ہو۔ پھر ایئر بیگز کی دوبارہ انسٹالیشن بھی اچھا خاصا خرچہ ہے۔ ہمارے ہاں تو اس کے مکینک بھی عام دستیاب نہیں۔ امید ہے کہ وقت کے ساتھ ایئر بیگز عام اور سستے ہو جائیں گے اور عوام کی جانوں کی حفاظت بڑھ جائے گی۔
تیسرا کام جو گاڑیوں کے حوالے سے ہو رہا ہے‘ وہ الیکٹرک پالیسی ہے۔ دنیا بھر میں الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں‘ مثلاً یہ گاڑیاں ماحول دوست ہیں۔ الیکٹرک گاڑیوں کی مینٹیننس پر زیادہ اخراجات نہیں آتے۔ نہ ان میں پٹرول یا ڈیزل ڈلتا ہے، نہ موبل آئل یا پلگ اور فلٹر وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔ آپ صرف ٹائروں میں ہوا بھروائیں‘ گاڑی کو چارج کریں اور چلاتے رہیں۔ دو تین سال بعد یا استعمال کے حساب سے جب ٹائر گھس جائیں یا بریک شو خراب ہو جائیں تو وہ تبدیل کروا لیں‘ اس کے علاوہ ان کا کوئی خرچ نہیں۔ یہ گاڑیاں الیکٹرک موٹر اور بیٹریوں پر چلتی ہیں۔ الیکٹرک موٹر خراب نہیں ہوتی جبکہ بیٹریوں کی لائف بھی کم از کم آٹھ سال تک ہوتی ہے الیکٹرک پالیسی جس ملک میں بھی نافذ ہے‘ اس کا تیل کا امپورٹ بل دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہو جاتا ہے۔ پھر فضائی آلودگی سے بھی بچت ہو جاتی ہے۔ یہ جو سموگ ہم دیکھ رہے ہیں‘ اس کی بڑی وجہ فضا میں دھویں کا غبار ہے جو فیکٹریوں کے علاوہ گاڑیوں کے سیلنسر سے نکلنے والے دھویں کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں جو ای وی پالیسی نافذ ہے‘ اس کے مطابق دو ہزار تیس تک ملک کی تیس فیصد گاڑیوں کو الیکٹرک گاڑیوں میں بدل دیا جائے گا؛ تاہم اس میں ابھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ پاکستان میں ابھی صرف دو کمپنیوں نے ای وی ماڈل متعارف کرائے ہیں۔ ایک گاڑی پونے دو کروڑ میں مل رہی ہے جبکہ دوسری گاڑی کی قیمت پینسٹھ لاکھ کے قریب ہے۔ اس لئے ابھی تک ای وی گاڑیاں امیر طبقے تک محدود ہیں۔ البتہ یہ گاڑیاں چلنے میں فیول گاڑیوں کی نسبت کہیں زیادہ تیز رفتار اور موثر ہیں کیونکہ انہیں بیٹریوں کے ذریعے ہر وقت کرنٹ کا ایک جیسا تیز بہائو مل رہا ہوتا ہے؛ چنانچہ آپ جیسے ہی ایکسلیٹر پر پائوں رکھتے ہیں‘ یہ بجلی کی سی رفتار سے نکلتی ہیں۔ ابھی ان کو چارج کرنا بھی ایک مسئلہ ہے۔ حکومت تیزی سے اس پر کام کر رہی ہے اور خبریں آ رہی ہیں کہ موٹر وے اور ہائی ویز پر فاسٹ ای وی چارجنگ سٹیشنز جلد قائم کیے جائیں گے۔ اس حوالے سے سٹیشنز کو ٹیکس فری کرنے کا بھی سوچا جا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کار اس طرف راغب ہوں۔
گاڑیوں کے ساتھ ساتھ جدید پبلک ٹرانسپورٹ بھی سامنے آنی چاہئیں۔ بالخصوص ریلوے! کیونکہ نچلے اور درمیانے طبقے کی بڑی تعداد ریلوے سے سفر کرتی ہے۔ جاپان اور چین جیسے ممالک میں تو بلٹ ٹرینیں گھنٹوں کا فاصلہ منٹوں میں طے کر لیتی ہیں۔ لاہور سے کراچی اور دیگر شہروں کے درمیان بلٹ ٹرینز چلائی جائیں تو روزانہ لاکھوں شہری فائدہ اٹھا سکیں گے۔ گاڑیاں چاہے جتنی مرضی سستی ہو جائیں‘ پبلک ٹرانسپورٹ کا متبادل نہیں ہو سکتیں۔ ہر شخص کے پاس گاڑی آ گئی تو سڑکوں پر چلنے کیلئے جگہ ہی نہیں بچے گی۔ آسٹریلیا جیسے ممالک میں کورونا لاک ڈائون میں سائیکلیں ریکارڈ تعداد میں فروخت ہوئیں کیونکہ اس سے جہاں لوگوں کی صحت بہتر ہوتی ہے‘ پٹرول اور فضائی آلودگی وغیرہ کی مد میں بھی فائدہ ہوتا ہے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ ایسی پالیسی بنائی جائے کہ کل کو اسے یکدم بدلنا نہ پڑ جائے۔ جیسے موٹر سائیکل رکشوں کے معاملے میں ہوتا رہا ہے کہ پہلے انہیں اجازت دی جاتی ہے اور جب دو تین سال بعد ہر علاقے اور ہر شہر میں رکشوں کی بھرمار سے ٹریفک کے مسائل کھڑے ہوتے ہیں اور دھویں کے بادل شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں تو پھر کہا جاتا ہے کہ انہیں بند کر دیا جائے۔ بہتر ہو گا کہ جو بھی آٹو پالیسی اپنائی جائے‘ اسے ملک گیر سطح پر‘ ماحول دوست‘ ٹریفک کے جدید چیلنجز اور ملکی ضروریات کے مطابق لاگو کیا جائے وگرنہ ہر دس‘ بیس سال بعد نئی پالیسیاں آتی رہیں گی اور ملک میں ٹریفک کا اژدھام بدستور عذاب بنا رہے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved