کسی بھی معاشرے میں اعلیٰ تعلیم کا کردار اہم ہوتا ہے کیونکہ اس کا براہ ِ راست تعلق قومی سطح پرسماجی اور معاشی ترقی سے ہوتا ہے ۔ پچھلے 74برسوں کے دوران پاکستان میں جامعات اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔اعلیٰ تعلیم کی ضروریات پوری کرنے کیلئے سرکاری جامعات کے ساتھ ساتھ نجی شعبے میں جامعات کا قیام ایک خوش آئند اقدام ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت جہاں صرف دو جامعات تھیں اب نجی اور سرکاری شعبوں میں جامعات / ڈگری دینے والے اداروں کی تعداد بڑھ کر 216ہو گئی ہے‘تاہم جامعات کی بڑھتی ہوئی تعداد مسئلے کے صرف ایک پہلویعنی رسائی (Access) سے نمٹ سکتی ہے‘ تعلیمی مسئلے کا دوسرا پہلو‘ معیاراتنا ہی اہم ہے۔ جامعات کے معیار کے ایک رُخ کا تعلق طلبا اور اساتذہ کو میسرمادی وسائل سے ہے اور دوسرا رُخ کلاس رومز میں تدریس اور آموزش کے عمل سے متعلق ہے ۔تعلیمی معیار کے مختلف پہلوؤں میں نصاب‘ درسی کتب‘ اساتذہ‘ طلبا اور جامعہ کا ماحول (Milieu) شامل ہیں۔
لیکن ایک اور اہم عنصر جو معیار کا تعین کرنے‘ اس کی عملی صورت گری کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہ جامعات کے وائس چانسلر کا ہے۔ بطور لیڈر وائس چانسلر کا سب سے اہم کام جامعہ کو ایک ویژن دینا ہوتا ہے ‘اس ویژن کی تشکیل میں وہ جامعہ میں کام کرنیوالے افراد کی شمولیت یقینی بنا تاہے ۔ دوسرا اہم مرحلہ اس ویژن کی بنیاد پر اپنے اہداف کو مقرر کرنا اور اپنے رفقائے کار کو تواتر سے ان اہداف کی یاد دہانی کرانا ہوتی ہے تاکہ مشترکہ منزل کے نقوش واضح ہوجائیں ۔ اہداف کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ایک مؤثر حکمتِ عملی کا خاکہ بہت اہم ہے تاکہ ان راستوں کی بھی نشاندہی کر لی جائے جن پر چل کر مقررہ اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ایک مؤثر رہنما اپنے ساتھیوں پر محض حکم چلانے کے بجانے انہیں انسپائر کرتا ہے اور جامعہ میں ایک ایسے ماحول کا قیام یقینی بناتا ہے جہاں اساتذہ اور طلبا کے ہنر‘ تخلیقی صلاحیتوں اور علم کی تشکیل و تعمیر ہو سکے ۔
ایک دور وہ تھا جب جامعات کے لیے وائس چانسلرز کا انتخاب ان کی ساکھ ‘ شہرت اور علمی مرتبے کی بنا پر کیا جاتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں برصغیر (پاکستان ‘ بھارت) میں وائس چانسلرز کی فہرست میں متعدد نمایاں افراد نظر آتے ہیں‘ جیسے ڈاکٹر ذاکر حسین (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)‘ ڈاکٹر محمود حسین‘ ڈاکٹر جمیل جالبی‘ ڈاکٹر منظور احمد اور ڈاکٹر اشتیاق قریشی (کراچی یونیورسٹی)‘ ڈاکٹر حمید احمد خان (پنجاب یونیورسٹی) اور پروفیسر کرار حسین (بلوچستان یونیورسٹی)۔ یہ صرف چند نام ہیں جو اس رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں تعلیمی فضیلت اور ویژن قیادت کی خصوصیات سمجھی جاتی تھیں۔
جامعات کے لیے وائس چانسلرز کے انتخاب کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوا جب سیاسی جماعتوں نے یونیورسٹی کے معاملات میں مداخلت شروع کی۔ پاکستان میں‘ ضیا الحق کی حکومت سے قبل یونیورسٹیوں کو سیاست کی نرسری سمجھا جاتا تھا۔ طلبہ کی تنظیمیں بہت متحرک تھیں اور طلبہ برادری سیاسی طور پر باشعور تھی اور اہم قومی فیصلوں کے عمل میں ایک پریشر گروپ کی حیثیت سے کام کرتی تھی اور سیاسی جماعتوں کے لیے وائس چانسلر کا عہدہ اہم ہوتاتھا۔ اُس دور میں کچھ متنازع فیصلے بھی کیے گئے۔
وائس چانسلرز کے انتخاب کا تیسرا مرحلہ انڈسٹری کی توسیع کے ساتھ شروع ہوا‘ جب کاروباری تنظیموں نے ایک نئے ماڈل کے ساتھ کام کرنا شروع کیا جہاں انتظامی صلاحیتوں نے علم وفضیلت کی جگہ لے لی۔ کارپوریٹ کلچر کی ابتدا سے یونیورسٹیوں پر براہ راست دو اثرات مرتب ہوئے۔ ایک تو یونیورسٹیوں کو ایک کارپوریٹ یونٹ سمجھا جانے لگا اور انتظامی مہارتوں کو وائس چانسلر کا بنیادی معیار قرار دیا گیا۔ اس ترجیح کا بنیادی مفروضہ یہ تھا کہ جامعہ کو چلانے کیلئے صرف انتظامی مہارت کافی ہے۔ تعلیمی قیادت کے اس نظریہ کی بدولت جامعہ کی قیادت کو علم وفضل کے بجائے صرف مینجمنٹ کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔یہاں لیڈر اور منیجر کے مابین فرق کو پہچاننا ضروری ہے۔ منیجرعام طور پر کسی دیے ہوئے کام تک محدود رہتا ہے جبکہ لیڈر لوگوں کو ایک نیا ویژن دیتا ہے ‘ انہیں انسپائر کرتا ہے‘ بااختیار بناتا ہے اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کیلئے مواقع فراہم کرتا ہے۔ وائس چانسلرز کے انتخاب کا چوتھا دور اُس وقت شروع ہوا جب ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے وائس چانسلرز کے انتخاب کے عمل کا ایک لائحہ عمل بنایا جس کا مقصد حکومتی صوابدید کو کم سے کم کرنا تھا تا کہ کسی فرد کی خواہشوں کے بجائے سرچ کمیٹیوں کی اجتماعی دانشمندی پر انحصار کیا جائے‘ لیکن یہ مفروضہ کہ وائس چانسلر کا بنیادی کام محض مینجمنٹ ہے‘ فیصلہ سازوں کیلئے اس دور میں بھی اہم رہا۔
وائس چانسلرز کے انتخاب کا پانچواں دور دو سال قبل شروع ہوا جب وائس چانسلرز کی اہلیت اور قابلیت کو اعدادو شمار کے ترازو میں تولا جانے لگا جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ سوشل سا ئنسز اور ہیومینیٹیز سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے مقابلے میں نیچرل سائنسز کے امیدواروں کے انتخاب کے مواقع کئی گنا بڑھ گئے ۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے ایک دو برس میں ان وائس چانسلرز کی تعداد بہت کم ہے جن کا تعلق سوشل سائنسز اور ہیومینیٹیز کے علوم سے ہے۔یہ رجحان ایک معتدل معاشرے کی تشکیل کیلئے نیک فال نہیں۔ ہمارے معاشرے کو ترقی کرنے کیلئے جہاں نیچرل سائنسز کی ضرورت ہے وہیں سوشل سائنسز اور ہیومنیٹیز کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کو درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔ ان میں عدم برداشت‘ تشدد اور انتہا پسندی جیسے مسائل شامل ہیں جو ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ وائس چانسلر کے انتخاب میں سوشل سائنسز کو نیچرل سائنسز کے مساوی مواقع ملیں۔ میڈیکل ‘ انجینئرنگ اور آئی ٹی یونیورسٹیوں میں صرف نیچرل سائنسز کے لوگ درخواست دے سکتے ہیں‘ سماجی سائنسدان ان یونیورسٹیوں میں درخواست دینے کے اہل نہیں اس کے برعکس نیچرل سائنسز کے لوگ تمام جامعات میں اپلائی کر سکتے ہیں۔
وائس چانسلرز کے انتخاب میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے اکثر ایسے امیدواروں کو ترجیح دی جاتی ہے جنہیں غیر ملکی یونیورسٹیوں میں کام کا تجربہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تجربہ بری طرح ناکام رہا ہے۔اس کی بڑی وجہ زمینی حقائق سے ان کی لا علمی اور غیر حقیقی منصوبہ بندی ہے۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ ان ''غیر ملکی ماہرینِ تعلیم‘‘نے فارغ التحصیل ہونے کے بعدملکی ترقی میں کیا شراکت کی؟ اپنے پیشہ ورانہ دورِ زوال میں ہی انہیں اپنے ملک کی یاد کیوں ستانے لگتی ہے؟ جامعات کے وائس چانسلرز کے انتخاب کے لیے ضروری ہے کہ درج ذیل نکات پر غور کیا جائے۔
1 : سکالرشپ یا علمی فضلیت کو ترجیح دی جانی چاہئے اور انتظامی مہارتوں کو ضروری تکمیلی مہارتیں(Complementary Skills) سمجھا جانا چاہئے۔ 2:پی ایچ ڈی کی ڈگری کیلئے ترجیح صرف انتظامی علوم تک ہی محدود نہیں رہنی چاہئے۔ 3:مقامی طور پر پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر اور غیر ملکی ڈگری ہولڈر سے مساوی برتاؤکیا جانا چاہئے۔ 4: سرچ کمیٹی کو اشتہارات سے آگے بڑھ کر مناسب امیدواروں کی شناخت کرنے کا مینڈیٹ دیا جانا چاہئے۔ 5:وائس چانسلر کے عہدے کیلئے زیادہ سے زیادہ مدت دو ادوار کی ہونی چاہئے۔ 6: صوابدید کے استعمال کو ہر سطح پر کم سے کم کیا جانا چاہئے۔
وائس چانسلرز کے انتخاب کے طریقہ کار کو مزید بہتر بنانے سے ہماری یونیورسٹیوں میں حقیقی تعلیمی رہنماؤں کی شمولیت کو یقینی بنایا جاسکے گا‘ جو ایک متاثر کن ویژن دینے‘ سازگار ماحول بنانے‘ اساتذہ اور طلبا کو متحرک کرنے اور بااختیار بنانے اور علم کی تشکیل و تعمیر کو ممکن بنا سکیں گے۔