سفید سنگِ مرمر کے ٹھنڈے فرش پر میں سنگِ مرمر کی جالی پر ہاتھ رکھے دریائے جمنا کے پار دیکھ رہا تھا۔ میرے جوتوں پر ہلکے نیلے رنگ کے کپڑے کا غلاف چڑھا تھا‘ جو سنگ مرمر کو گرد، مٹی اور خراشوں سے محفوظ رکھنے کی احتیاطی تدبیر تھی۔ تاج محل آگرہ کی اس بلند کرسی سے بل کھاتی جمنا کو دیکھنا ایک مبہوت کن نظارہ تھا۔ اس بلندی سے میں نے نیچے جھانک کر دیکھا۔ میرے بالکل نیچے سرخ اور سفید پتھروں کا گنگا جمنی چبوترہ تھا۔ وہ چبوترہ جس کے چاروں کونوں سے تاج محل کے سفید سبک اور نازک مینار آسمان کی طرف بلند ہوتے تھے۔ اس چبوترے سے اور نیچے سرخ اینٹوں کا فرش تھا۔ ذرا آگے مٹی کا کنارہ جس سے دریائے جمنا کی لہریں ٹکراتی تھیں۔
لیکن یہ آج اچانک تاج محل کیوں یاد آگیا۔ 27 دسمبر1998 کی وہ ابرآلود صبح اورپندرہ اکتوبر 2006 کی دھوپ بھری دوپہر آنکھوں کے عدسوں میں کیسے لوٹ آئیں؟ کوئی سبب تو ضرور ہوگا۔ شاید اخبارات میں کچھ عرصہ پہلے چھپنے والی یہ خبرکہ 130 کلومیٹر کی رفتار والی تندوتیز ہواؤں اور بارش میں تاج محل کے داخلی جنوبی دروازے ''دروازۂ روضہ‘‘ کا 12میٹر لمبا ستون اور اس سے منسلک مینار اور گنبد زمین پر گر پڑے اور ان کے کئی ٹکڑے ہوگئے۔ ایک ٹکڑا دل میں بھی پیوست ہوگیا۔ کسی نے کان میں سرگوشی کی۔ یہ تو وہی دروازہ ہے نا جہاں سے تاج محل کی پہلی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
تاج محل کی پہلی جھلک اور ''دروازۂ روضہ‘‘۔ 27 دسمبر کی صبح ایک دم عدسوں میں جھلملانے لگی۔ نیم روشن راہداری کے دوسرے خمدار سرے پر جڑا ہوا تاج محل، جیسے نقرئی تصویر، جیسے رُو پہلا منظر، جیسے پہلودار ہیرا، جیسے تاج محل۔ جیسے سانس لیتی ہوئی صبح۔ نو زائیدہ کرنوں نے ابھی کہرے اور دُھند کو دور نہیں کیا۔ دُھند کے جھالے سے رہ رہ کر گزر رہے ہیں۔ اس چلمنی جھلملاہٹ میں کچھ روشن کچھ روپوش۔کچھ خواب کچھ بیداری۔ کچھ نقرئی شب۔کچھ ماہ نما سورج۔
تاج محل عمارات کا ایک مجموعہ ہے ۔ بیرونی احاطے، مہمان خانہ ، مسجد اور مرکزی مقبرہ ۔ کھلے قطعات ،چمن زار، دروازے ، غلام گردشیں ، حجرے اور رہائشی کمرے اس کے علاوہ ہیں۔تاج محل کو خود یکھنے سے پہلے میں اس کی لا تعداد تصویریں ، ٹرانس پیرنسیز ،فلمیں وغیرہ دیکھ چکا تھا لیکن سچ اور بالکل سچ یہ ہے کہ کوئی بھی کیمرہ اس حسن، اس خوب صورتی، اس نزاکت، اس جمال کو بیان نہیں کر سکتا جس کا احساس تاج کے سامنے ہوتا ہے۔ویسے بھی بہترین کیمرہ بہترین کیمرہ مین کے ساتھ بھی کسی منظر کا جو حصہ محفوظ کرنے پر قادر ہے وہ تمام تر منظر کا بہت ہی چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔اگر کسی عدسے کا مقدور ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جزئیات کے ساتھ منظر محفوظ کرسکے تو وہ انسانی آنکھ ہے ۔اتنی بڑی عمارت اور اتنی نازک ؟ اتنی سبک؟۔ ہمیشہ یہی دیکھا کہ وسعت، بلندی،اور عمارت کی لمبائی چوڑائی نزاکت کو ختم کردیتی ہیں۔ بڑی اور بلند عمارتوں میں رعب ،جاہ وجلال ملتا ہے ۔ نزاکت اورسبک پن دور دور نہیں ملتا۔ لیکن اس کلیے کو تاج محل ختم کرکے رکھ دیتا ہے ۔
بات صرف تناسب ،تعمیری کمال اورنزاکت پر ختم نہیں ہوتی۔تاج محل خوب صورتی، اداسی،دل گرفتگی اور ان کیفیات کا مجموعہ ہے جن کے لیے میں ابھی تک موزوں الفاظ ڈھونڈ رہا ہوں۔ہر خوبصورت چیز میں ایک اداسی ہوتی ہے ۔ ذرا سی اوٹ میں ۔ ذرا سا جھانکنے پر یہ اداسی اپنے پٹ کھول دیتی ہے ۔آ پ اس دریچے سے اس کے دل میں اترتے ہیں اور یہ اداسی آپ کے دل میں اترتی ہے ۔ زینہ بہ زینہ ۔ہر قدیم عمارت میں یہ کیفیت شامل ہوتی ہے لیکن تاج محل میں شاید شاہ جہاں کا دکھ بھی شامل ہوگیا ہے ۔ کہیں پڑھا تھا (ممکن ہے روایت درست نہ ہو یا مبالغہ آمیز ہو) کہ برہان پور میں تدفین کے بعد شاہ جہاں نے درباریوں کو حکم دیا کہ ایک رات کے لیے مجھے یہاں اکیلا چھوڑ دو۔رات بھر اس سوگوار نے محبوبہ کا غم کیا ۔ صبح جب درباری بادشاہ کو لینے آئے تو وہ پہچانا نہ جاتا تھا۔کمر خمیدہ ،بال سفید، رنگ پھیکا، حالت دگرگوں۔
کیا تھا ایسا اس ملکہ میں کہ شاہ جہاں جس کی ایک نظر کو حسین شہزادیوں کی کہکشاں ترستی تھی،اس کے سوگ میں ساری عمر مبتلا رہا ؟ممتاز محل کی محبت میں آخری عمر میں اس نے قلعہ آگرہ کا وہ برج منتخب کیا جسے مثمن برج(ہشت پہلو برج) کہتے تھے کیوں کہ وہاں سے تاج محل چند میل کے فاصلے پر صاف دکھائی دیتا تھا۔پھر جب بادشاہ بستر سے اٹھنے کے قابل بھی نہ رہا تواس نے بستر کا وہ رخ اختیار کیا جہاں دیوار میں جڑے ہوئے ایک ہیرے سے تاج محل کا عکس نظر آتا تھا۔ایسی لازوال محبت،؟ایسا کیا تھا اس باکمال ملکہ میں؟ اکتوبر کی ایک دھوپ بھری دوپہرسنگ ِسرخ سے بنے ہوئے مثمن برج میں کھڑے ہوکر میں نے سامنے کھلے منظر کو دیکھا۔قلعہ آگرہ کی فصیل کے پار جمنا ۔کھلے دریائی بستر میں لہریں لیتی اور بل کھاتی ہوئی ـ آتی ہیں اور ممتاز محل کے پاؤں کو بوسہ دے کر قلعے کے پاؤں چومنے آتی ہے اور پھر الٹے پاؤں دور ہٹتی جاتی ہیں۔ایک با ادب خادم کی طرح۔
تاج محل کے ٹھنڈے فرش پر جمنا کے اس پار دیکھتے ہوئے میں نے وہ برجیاں اور آثار دیکھے جو تاج محل کے ٹھیک سامنے دریا کے پار سیاہ تاج محل کے تھے۔ شاہ جہاں دریا کے دوسری طرف اپنے لیے سنگ ِ سیاہ کا بالکل ایسا ہی مقبرہ چاہتا تھا۔ہو بہو تاج محل کا عکس لیکن سیاہ پتھر میں ۔سفید اور سیاہ تاج محل آمنے سامنے اور دونوں کے درمیان چاندی کا پل۔ کام کا آغاز ہوا لیکن گردش نے شاہ جہاں کا یہ خواب پورا نہ ہونے دیا۔ عنان ِ مملکت شاہ جہاں کے ہاتھ میں نہ رہی ۔پھر ایک دن چند وفاداروں نے مثمن برج آگرہ سے ایک بوڑھے شخص کی لاش اتاری ۔ کشتی میں رکھی اور لہروں پر ممتاز محل کے پاس لے گئے ۔اسی خواب گاہ میں جہاں ملکہ سو رہی تھی بادشاہ بھی ابدی نیند سو گیا ۔ تاج محل کے ہر تناسب اور موزونیت میں بادشاہ کی قبرایک غیر موزوں اضافہ ہے ۔ ہال کے وسط سے ہٹی ہوئی قبر ۔ اس لیے کہ مقبرہ بناتے ہوئے اس قبر کی گنجائش کا سوچا بھی نہیں گیا تھا۔یہ قبر تو دریا کے پار بننی تھی ۔لیکن قسمت کا فیصلہ یہی تھا کہ دونوں محبت کرنے والے پہلو بہ پہلو سوئیں ۔ دونوں قبروں کے سامنے کھڑے ہوئے میرے ذہن میں 14 سالہ ارجمند بانو اور15سالہ شہزادہ خرم کی تصویریں گھومنے لگیں۔میں مغل نہ سہی ، شہزادہ نہ سہی ، ویسا خرم بھی نہ سہی لیکن شہزادہ خرم سے میری ایک نسبت تو تھی۔وہ بھی میری طرح لاہوری تھا۔شہزادہ 5جنوری 1592کو لاہور میں پیدا ہوا تھا۔کسی نے کان میں سرگوشی کی کہ شاید لاہوری ہونا بھی اس کے شدتِ عشق کی ایک وجہ تھی ۔
ارجمندبانو ایرانی امیر ابوالحسن آصف بیگ کی بیٹی اور نورجہاں کی بھتیجی تھی۔لیکن نسبت کی یہ بات تب کی ہے جب جہانگیر سے نورجہاں کی شادی نہیں ہوئی تھی۔خرم اور ارجمند بچپن سے باہم مانوس تھے۔ نہ معلوم کس مرحلے پر دونوں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے۔ 1607میں نسبت طے ہونے کے بعد پانچ سال دونوں کو انتظار کرنا پڑا۔10 مئی1612کو 19 سال کی عمر میں ارجمند بانو 20 سالہ خرم کے محل میں آگئی اور اسے ممتاز محل کا لقب عطا ہوا۔لیکن رشتہ طے ہونے سے شادی ہونے تک کی پانچ سالہ مدت میں شہزادہ خرم کو سیاسی اور انتظامی مصلحتوں کے سبب دو شادیاں کرنا پڑیں۔ مؤرخ قزوینی کے مطابق خرم کو ان بیگمات سے کوئی وابستگی نہیں تھی۔ممتاز محل شہزادہ خرم کی تیسری بیگم تھیں۔ممتاز محل کی قبر کے سرہانے میں نے خود سے یہ سوال پوچھا تھا کہ اس عورت میں وہ کیا تھا جس نے خرم کو اس کا دیوانہ بنا رکھا تھا۔ جواب کیلئے ماضی کا سفر کرکے 1612عیسوی میں جھانکنا پڑیگا۔جب خرم شاہ جہاں نہیں بنا تھا۔جہانگیر کو تخت نشین ہوئے سات سال اور نورجہاں کو ملکہ بنائے ہوئے صرف ایک سال ہوا تھا۔مستقبل میں کبھی کوئی جھانک سکا ہے کہ جہانگیر، نورجہاں اور شہزادہ خرم جھانک لیتے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ (جاری)