تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-01-2021

بچے ہمارے عہد کے…

اب تو اُس زمانے کو یاد کرکے صرف رویا ہی جاسکتا ہے جب بچے واقعی بچے ہوا کرتے تھے۔ معصومیت تادیر سلامت رہتی تھی۔ تب بچوں کا بھولپن ایسا پختہ ہوتا تھا کہ اُنہیں دنیا داری سکھانا خاصا دشوار گزار مرحلہ ہوتا تھا۔ خیر سے ہم بھی ایک زمانے میں بچے تھے‘ جب وہ زمانہ یاد آتا ہے اور ہم اپنے ماحول میں پائے جانے والے بچوں کو دیکھتے ہیں تو شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے کہ ہم تو نرے بچے ہی ہوا کرتے تھے! کسی نے ڈانٹ دیا تو ڈر گئے، کسی نے کچھ دے دیا تو خوش ہولیے۔ اتنا شعور تھا نہ ہمت کہ کوئی ڈانٹے تو اُس کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جائیے اور اگر کوئی کچھ دینے پر آمادہ نہ ہو تو بڑھ کر لے لیجیے بلکہ چھین لیجیے! ہم نے سکول کا زمانہ اِس قدر شرافت کے ساتھ گزارا کہ آج وہ دن یاد آتے ہیں تو ہم من ہی من بجھنے لگتے ہیں، شرمندہ سے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ سکول کے ماحول میں کیا کیا ہلّا گلّا ہوا کرتا ہے مگر ہائے ری قسمت کہ ہمارے سکول میں ایسا کچھ نہ تھا۔ سکول سرکاری تھا مگر پھر بھی پڑھائی پر زور تھا اور اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہم بہت چھوٹی عمر میں مطالعے کی طرف مائل ہوئے اور اِس کوچے میں کچھ ایسی سنجیدگی و دلچسپی سے قدم رکھا کہ پھر کسی اور دنیا کا رخ کرنے کے بارے میں سوچنے کی توفیق ہی نصیب نہ ہوئی۔
آج ہم بچوں کو دیکھتے ہیں تو یہ دیکھ کر دل کو عجیب سی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ اُن میں اعتماد غضبناک حد تک ہے۔ یہ اعتماد ہی تو ہے جو آج ہر شعبے میں اور ہر سطح پر مثالی نوعیت کی کامیابی کی بنیادی شرط و ضرورت ہے۔ وہ زمانے کب کے ہوا ہوئے جب بچوں کی نمایاں ترین خصوصیت معصومیت ہوا کرتی تھی۔ تب کے بچوں کی دنیا خاصی محدود تھی۔ بچپن جیسا ہونا چاہیے ویسا ہی ہوا کرتا تھا۔ بچوں کی سادگی قابلِ دید ہوا کرتی تھی۔ اُن کی شرارتوں میں بھولپن اور سادگی خاصی نمایاں ہوتی تھی اِسی لیے اُن کی شخصیت کا فطری حُسن و طلسم بھی عجیب ہی تاثر کا حامل ہوا کرتا تھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن کی حدود عبور کرکے نویں اور دسویں جماعت میں قدم رکھنے والے لڑکوں اور لڑکیوں میں بھی واضح طور پر محسوس ہونے والی چالاکی ہوا کرتی تھی نہ ''بے باکی‘‘۔ اور دنیا داری تو خیر اُنہیں بہت بعد میں ہاتھ لگا پاتی تھی۔ سوچ پوچھئے تو بڑا ہی بھلا دور تھا کہ ہر چیز اپنے فطری مقام و وقت پر آیا کرتی تھی۔ انٹرمیڈیٹ کی سطح تک لڑکوں اور لڑکیوں میں بدگوئی عام نہ تھی اور بدنظری بھی خال خال پائی جاتی تھی۔ آج کی طرح دیدے پھاڑ کر صنفِ مخالف کو دیکھنے، بلکہ گھورنے کا رواج پنپتا تو تب کہ جب موجود ہوتا۔ صد شکر کہ سوشل میڈیا کی وبا بھی ناپید تھی، یوں بدگوئی بھی راہ نہ پاسکی تھی۔ سکول سے نکل کر کالج کی انوکھی اور قدرے بے باک دنیا میں قدم رکھنے والے بھی ابتدائی دنوں میں خاصے شرمیلے دکھائی دیتے تھے اور بیشتر معاملات میں کھل کر اظہارِ رائے کرنے میں بھی شرم دامن گیر رہا کرتی تھی۔ ہائے! اب تو وہ زمانہ محض خواب و خیال ہوکر رہ گیا ہے یا پھر حافظے کے دور افتادہ گوشوں میں کہیں محفوظ ہے۔
کل نور فاطمہ ہمارے گھر آئی۔ خیر! وہ خود کہاں آسکتی تھی؟ ابھی وہ ڈیڑھ سال کی ہے۔ اُسے اُس کی نانی زبیدہ باجی لائیں۔ اُن کی بیٹی مہک کی گود میں 6 ماہ کا محمد علی تھا۔ اُس نے ابھی ڈھنگ سے بیٹھنا بھی نہیں سیکھا اِس لیے ماں کے آغوش ہی میں مہکتا، چہکتا رہا۔ مہک خود ابھی کل تک ننھی مُنّی سی تھی۔ جب وہ ہمارے گھر آتی تھی تو زبیدہ باجی کے پَلّو سے بندھی ایک طرف بیٹھی رہتی تھی مگر خیر! مہک کے دونوں بچے نِچلے بیٹھنے والے نہیں۔ بس یوں سمجھیے کہ ماں کے مزاج سے یکسر ''بغاوت‘‘ دونوں کے مزاج کا نمایاں ترین جز ہے! جون بھائی نے کہا تھا ع
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا؟
بس کچھ ایسا ہی معاملہ نور فاطمہ اور محمد علی کا بھی ہے۔ دونوں ایک پل کے لیے سُکون سے نہیں بیٹھتے اور دوسروں کو بھی سُکون کا سانس نہیں لینے دیتے۔ ہمارے ہاں نور فاطمہ اور اُس کے بھائی کی یہ پہلی انٹری تھی۔ ابتدائی دس پندرہ منٹ تو قدرے اجنبیت زدہ ماحول میں گزرے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے کِلکاریوں کا نور بکھرتا چلا گیا۔ اجنبیت کی دیوار نے گِرنے میں زیادہ وقت نہ لیا، ڈیڑھ سال کی نور فاطمہ ہم سمیت گھر کے تمام افراد سے آن کی آن میں یوں فری ہوئی گویا برسوں کی شناسائی ہو۔ بعض بچوں میں کسی اجنبی سے بھی تیزی سے فری ہونے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے۔ نور فاطمہ نے ذرا سی دیر میں اپنے 6 ماہ کے بھائی کو ایک طرف ہٹاکر ہم میزبانوں سے تعلقات اِس طور اُستوار کرلیے کہ تھوڑی سی دیر کی پہلی ملاقات شاندار و یادگار سی ہوگئی۔ آج کے بچوں میں سب سے نمایاں وصف ہے ماحول سے مطابقت۔ کل کے بچے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں خاصا وقت لیتے تھے۔ آج سال ڈیڑھ سال کے بچے میں بھی اِتنی تیزی پائی جاتی ہے کہ وہ ''باخبریت‘‘ کے در پر سَربسجود رہتا ہے۔ جو کچھ ماحول میں ہے وہ آج کے بچوں کے مزاج اور معمولات کا حصہ بننے میں دیر نہیں لگاتا۔ آج بڑوں کی زندگی میں جتنی چیزیں ہیں وہ بچوں کے لیے بھی اجنبی نہیں۔ سال ڈیڑھ سال کے بچے کو ریموٹ کنٹرول ڈیوائس تھمائیے تو وہ پکڑتے ہی اُس کا رخ ٹی وی کی طرف کرکے بٹن دبانے لگتا ہے۔ ہم نے اپنی (ظاہر ہے گناہ گار) آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ڈھائی تین سال کے بچے کو سمارٹ فون دے کر کہیے کہ ''موٹو پتلو‘‘ لگاؤ تو وہ آن کی آن میں انٹرنیٹ ڈیٹا آن کرکے مطلوب لوکیشن تک پہنچ کر اپنی پسندیدہ وڈیو آن کرلیتا ہے! نور فاطمہ کا بھی یہی حال ہے۔ ہمارا فون ہاتھ میں آنے کی دیر تھی کہ اُس نے ''کاری گری‘‘ شروع کردی۔ ہم سب باتوں میں مصروف تھے اس لیے عملِ سماعت میں مخل ہو رہے تھے۔ اس نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی اور ہماری ہینڈ فری تک پہنچ کر فون میں اُس کی پن داخل کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے یہ تماشا دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے۔ ایک ہمارا دور تھا کہ ہم ڈیڑھ سال کی عمر میں فیڈر اور دلیے سے زیادہ کچھ پہچانتے نہ تھے اور ایک یہ دور ہے کہ محض ڈیڑھ سال کے بچوں کو بھی معلوم ہے کہ سب باتیں کر رہے ہوں تو فون میں ہینڈ فری لگاکر سُکون سے اپنی پسند کی چیز سُنیے! پروین شاکر نے خوب اور بروقت کہا تھا ؎
جگنو کو دِن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
ہم اُس عہد میں جی رہے ہیں کہ جب بچے اپنے ماحول سے آشنا ہونے میں دیر نہیں لگاتے۔ ماحول سے یہ آشنائی ایک طرف تو ہم جیسے ڈھلتی عمر والوں کو شرمندہ کرتی ہے کہ ہم اپنے بچپن میں ایسے تیز و طرار نہ تھے مگر دوسری طرف یہ سوچ کر دل کو عجیب سی طمانیت بھی نصیب ہوتی ہے کہ آج کے بچے اپنے ماحول میں ذرا سی بھی اجنبیت محسوس نہیں کرتے۔ یہ وصف ہی انسان کو آگے لے جاتا ہے مگر یہ دیکھ کر دل رنج بھی محسوس کرتا ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کی باخبری کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے معاملے میں کماحقہٗ سنجیدہ نہیں۔ آج کے بچے ماحول سے اچھی طرح باخبر ہیں۔ اِسے ہم ذہانت سمجھ کر خوش ہولیتے ہیں۔ بچوں کی یہ باخبری خام مال ہے جس سے ہمیں اُن کا مستقبل تعمیر کرنا ہے۔ ہمارا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم کسی بھی حوالے سے ہاتھ آنے والے خام مال ہی کو تیار شدہ یعنی حتمی چیز سمجھ کر مطمئن ہو رہتے ہیں۔ ڈھائی تین سال کے بچوں میں پائی جانے والی چُستی اور پُھرتی صرف اِس لیے نہیں ہوتی کہ ہم محظوظ ہوتے ہوئے اُن کی بلائیں لیتے پھریں۔ ایک قدم آگے جاکر اُنہیں بہتر زندگی کیلئے تیار کرنے پر متوجہ ہونا بھی لازم ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved