تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-01-2021

جائیں تو جائیں کہاں؟

عجب مصیبت اور مشکل آن پڑی ہے کہ سیاست سے ہٹ کر لکھنا چاہتے ہیں‘ مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی بند گلی میں آن پھنسے ہیں۔ ہر معاملہ کسی نہ کسی طرح گھوم پھر کر سیاست پر آن ٹھہرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کم از کم میری نیت بالکل غیر سیاسی ہوتی ہے مگر یار لوگ اس میں سے سیاسی پہلو نکال لیتے ہیں۔ اب اگر زراعت برباد ہو رہی ہو اور میں اس موضوع پر لکھتے ہوئے حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کروں یا حکومتی بے حسی کا رونا رؤں تو یہ سیاست کب ہے؟ اگر میں یہ لکھوں کہ میاں شہباز شریف کے زمانے میں بیج کی جدید ٹیکنالوجی کی عالمی لیڈر کمپنی نے پاکستان میں بی ٹی سیڈ کی ترویج و تعارف کیلئے نہایت ہی ارزاں نرخوں پر کپاس کے بیج کی تیاری اور فراہمی کیلئے اس ٹیکنالوجی کی فراہمی کی جو آفر کی تھی وہ تب کے وزیر زراعت ہمارے ملتان کے حاجی سکندر بوسن کی مخالفت کی بنیاد پر اور خود میاں شہباز شریف کے تحفظات کی بنا پر مسترد کر دی گئی تھی۔ اس سلسلے میں مقامی سیڈ مافیا نے میاں شہباز شریف کو گمراہ کر کے جہاں پاکستان کے کاشتکار کو کپاس کی کاشت سے دور کیا وہیں ٹیکسٹائل سے وابستہ ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ اسی جدید ٹیکنالوجی سے لیس بیج کے طفیل بھارت آج دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ 2007ء میں پاکستان میں روئی کی پیداوار ایک کروڑ پچاس لاکھ گانٹھ اور بھارت کی پیداوار ایک کروڑ پچھتر لاکھ گانٹھ تھی۔ کپاس کی پیداوار میں ہمارا اور بھارت کا باہمی فرق صرف پچیس لاکھ گانٹھ تھا‘ یعنی بھارت اس فصل کے حوالے سے ہم سے محض سولہ فیصد آگے تھا۔ آج 2020ء میں پاکستان کی روئی کی پیداوار ڈیڑھ کروڑ گانٹھ سے ساٹھ لاکھ گانٹھ پر آچکی ہے جبکہ بھارت میں روئی کی پیداوار پونے دوکروڑ سے چار کروڑ گانٹھ کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں کپاس کی پیداوار کا باہمی فرق جو تیرہ سال قبل صرف سولہ فیصد تھا اب چھ سو چھیاسٹھ فیصد زیادہ ہو چکا ہے۔ بھارت کی پیداوار پاکستان کی کپاس کی پیداوار سے ساڑھے چھ گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔اس میں سے بیشتر کپاس ہماری سرحد کے ساتھ جڑے ہوئے بھارتی پنجاب میں پیدا ہوتی ہے جہاں کا موسم‘ زمین اور دیگر تمام قدرتی عوامل ایک جیسے ہیں۔ اگر فرق ہے تو صرف منصوبہ بندی‘ حکومتی ترجیحات‘ سرکاری پالیسیوں‘ کسان کو دی جانے والی سہولتوں اور زراعت کیلئے کی جانے والی تحقیق اور وہ بھی خصوصاً اعلیٰ پیداوار کے حامل بیج کے باعث ہے۔ یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد کا قیام 1906ء میں عمل میں آیا اور یہ پورے جنوبی ایشیا میں زرعی تعلیم کی سب سے پرانی اور نامور یونیورسٹی تھی۔ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تب بھارت کے پاس زرعی تحقیق کے سلسلے میں اس پائے کا ایک بھی اعلیٰ تعلیمی ادارہ موجود نہ تھا۔ بھارت میں پہلی ایگریکلچرل یونیورسٹی جی بی پنٹ یونیورسٹی آف ایگریکلچر اینڈ ٹیکنالوجی پنٹ نگر تھی۔ اس کا قیام 17 نومبر 1960ء کو عمل میں آیا۔ اس کا افتتاح تب کے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے کیا۔ بھارت میں دوسری ایگریکلچرل یونیورسٹی کا قیام بھی 1962ء میں عمل میں آیا۔ یہ اوڈیشا یونیورسٹی آف ایگریکلچر اینڈ ٹیکنالوجی تھی۔ تیسرا اور بعد ازاں زراعت کے حوالے سے سب سے نمایاں تعلیمی ادارہ پنجاب ایگریکلچرل یونیورسٹی لدھیانہ تھی۔ یہ بھی 1962ء میں بنی۔ یعنی بھارت کی تین زرعی یونیورسٹیاں 1960ء سے 1962ء کے درمیان بنیں۔
چند سال قبل یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد کی الومینائی کی ری یونین کی تقریب تھی اور میں بھی بطور مہمان اس میں مدعو تھا۔ بھارت سے اس یونیورسٹی کے فارغ التحصیل دس بارہ پرانے طالبعلم بھی دوبارہ اپنی مادرِ علمی میں آئے ہوئے تھے۔ یہ سب اسی پچاسی سال سے زیادہ عمر کے بزرگ تھے۔ ظاہر ہے 1947ء سے قبل اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل لوگ اس سے کم عمر کے کیا ہوں گے؟ اتفاق سے اس اجتماع میں بھارت سے آنے والے سارے پرانے طالبعلم سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور کسی نہ کسی حوالے سے بھارت میں زرعی تعلیم و تحقیق سے وابستہ رہے تھے۔ ان میں سے کئی لوگ تو وہ تھے جنہوں نے بھارتی پنجاب میں پنجاب ایگریکلچر یونیورسٹی لدھیانہ کے قیام میں نہ صرف بنیادی کردار سر انجام دیا بلکہ ان میں سے دو تو ایسے بھی تھے جو ایگریکلچرل یونیورسٹی لدھیانہ کے وائس چانسلر بھی رہے۔ یعنی فیصل آباد کی ایگریکلچرل یونیورسٹی کے فارغ التحصیل افراد بھارت کی اس سب سے نامور اور اعلیٰ معیار کی زرعی یونیورسٹی کے معمار تھے۔ انہی لوگوں کی محنت سے قائم کردہ یہ زرعی یونیورسٹی آج بھارت کی زراعت میں تحقیق و ترقی کے حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ادھر ہمارے ہاں یہ ہوا کہ زرعی تحقیق کے حوالے سے ایک بے مثال تعلیمی ادارہ نیچے گرتے گرتے اس حال میں پہنچ گیا ہے کہ اب محض نوکری کیلئے درکار ڈگریاں تقسیم کرنے کے علاوہ اس کے دامن میں اور کچھ بھی باقی نہیں رہا۔اب اگر اس قحط الرجال اور اداروں کی بربادی بارے لکھیں تو اس کو بھی یار لوگ کھینچ تان کر سیاست پر لے جاتے ہیں۔ بھلا اس میں سیاست کہاں سے آ گئی؟ یہ تو اجتماعی ابتری کی کہانی ہے‘ اور اس میں کسی ایک کو مورد الزام تو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس میں سیاستدان اور آمر سبھی شامل ہیں۔ کیا شریف فیملی‘ کیا بھٹو خاندان اور کیا عمران خان۔ اداروں کی بتدریج تباہی و بربادی کا جائزہ لیں تو جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف بھی اسی شمار و قطار میں آتے ہیں۔ سب نے اپنے اپنے اقتدار کو طوالت اور حکومت کو دوام دینے کی غرض سے اداروں میں میرٹ کے بجائے سفارش‘ اقربا پروری اور دوست نوازی کو فروغ دے کر ان کی بربادی میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ آج ہم جس ادارے کی بات کریں وہی اس انحطاط کی تصویر کشی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
ملتان میں کبھی سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہوتا تھا اور ایک کاٹن ریسرچ سنٹر ہوا کرتا تھا۔ یہ جو میں نے ان دونوں اداروں کے ساتھ لفظ ''تھا‘‘ لگایا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب یہ ادارے ختم ہو چکے ہیں، یہ دونوں ادارے آج بھی موجود ہیں‘ ان کے ملازمین تنخواہیں بھی لے رہے ہیں، تحقیق کے نام پر بے مقصد سیاہ کے گئے کاغذوں سے بھری ہوئی فائلیں بھی ان اداروں میں منوں کے حساب سے موجود ہیں لیکن عملی طور پر یہ سفید ہاتھی کسی کام کے نہیں۔ یہی حال فیصل آباد میں موجود زرعی تحقیق کے ماضی کے نہایت ہی تابناک اور شاندار نتائج دینے والے تحقیقی اداروں ایوب ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور نیاب (نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ آف ایگریکلچر اینڈ بیالوجی) کا ہے۔ پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل بھلا کون سی مریخ پر تھی؟ اس کا حال بھی وہی ہے جو ملک کے باقی تحقیقاتی اداروں کا ہے۔ اسی کا ذیلی ادارہ نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سنٹر اسلام آباد بھی اسی انحطاط کی کہانی بیان کرتا ہے۔ تحقیقاتی اداروں کے کل وقتی سربراہوں کا تقرر اب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ تقریباً ہر جگہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت عارضی سربراہان سے کام چلایا جا رہا ہے۔
یونیورسٹیوں میں تحقیقاتی کام کاغذوں تک محدود ہے۔ ریسرچ پیپرز کا بنیادی مقصد صرف اگلے گریڈ میں ترقی سے جڑا ہوا ہے۔ عملی طور پر دیکھیں تو نتیجہ صرف بٹا صفر کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ریسرچ پیپر عملی طور پر کسی کام کے نہیں اور ان کو لکھنے والے کا زور معیار پر نہیں بلکہ تعداد پر ہے تاکہ وہ اپنے پیپرز کی تعداد کے تمغے سینے پر سجا کر ڈینگیں مار سکے۔ یہ سب کچھ کس نے ٹھیک کرنا ہے؟ ظاہر ہے یہ میرا یا آپ کا نہیں‘ حکمرانوں کا کام ہے اور اس حوالے سے بات کریں تو پھر سیاست درمیان میں آ جاتی ہے۔ بندہ آخر جائے تو کہاں جائے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved