اپوزیشن کے دعوے تو بہت بڑے ہیں لیکن ان دعووں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جو حکمت عملی درکار ہے وہ ابھی تک طے نہیں ہو سکی۔ چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ عوام کو یہ بتانے سے قاصر ہے کہ وہ حکومت کو کیوں اور کیسے گرائے گی۔ ابتدا میں یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کوئی معنی نہیں رکھتی‘ ہم تو عمران خان کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتے‘ یہ تو دراصل اینٹی اسٹیبلشمنٹ تحریک ہے۔ لیکن تیسرے ہی جلسے میں اندر سے آوازیں اٹھنے لگیں۔ پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں نے شروع میں دبے لفظوں اور بعد میں کھل کر کہنا شروع کر دیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا ایندھن نہیں بنیں گے۔ صرف مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی (ن) لیگ کے بیانیے سے مکمل طور پر متفق تھے۔ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں کسی کا نام لیے بغیر عمومی تنقید تک محدود رہیں۔ مبصرین اور تجزیہ کاروں نے ابتدا میں ہی بھانپ لیا تھا کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھنے والی۔ مسلم لیگ( ن) کی قیادت اور مولانا فضل الرحمن کو پیپلزپارٹی کے اس رویے پر تحفظات تھے۔ بلاول بھٹو مسلسل مریم نواز سے رابطے میں تھے اور ہیں‘ وہ شہباز شریف سے جیل میں ملاقات کرنے گئے اور زداری صاحب کا پیغام پہنچایا۔ اس طرح عوام کو تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ دونوں بڑی جماعتیں ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کیلئے کوشاں ہیں‘لہٰذا عوام اب ان دونوں جماعتوں کا ماضی بھلاکر ان کی اس عظیم جدوجہد میں جوق درجوق شامل ہو جائیں۔ لیکن کیا یہ بھلانا اتنا آسان ہے کہ 90ء کی دہائی میں دونوں جماعتیں کس طرح دست و گریباں تھیں۔بدزبانی کا کلچر نوٹ کے بدلے ووٹ‘ انتقامی سیاست‘ محلاتی سازشیں یعنی ہر جمہوریت کش کام دنوں جماعتوں کی جانب سے کیا گیا۔
مشرف کے مارشل لا میں جب دنوں جماعتوں کو دیوار سے لگایا گیا تو پھر دونوں ہی ہاتھ ملانے پر مجبور ہو گئیں۔ مشرف کی قید میں موجود میاں نواز شریف نے ظفر علی شاہ کے ہاتھ بے نظیر بھٹو کو مفاہمت کا پیغام بھیجو ایا تو مشرف سے مایوس بے نظیر نے فوراً ہی ہامی بھر لی۔ بے نظیر اور آصف زرداری نے سرور پیلس جدہ میں میاں نواز شریف سے ملاقات بھی کی اور پھر دونوں جماعتوں نے چارٹر آف ڈیمو کریسی سائن کر لیا۔ ملک میں وکلا تحریک زوروں پر تھی‘ مشرف کمزور ہو رہے تھے‘ بین الاقوامی دباؤ بھی بڑھنے لگا‘ لوہا گرم تھا لہٰذا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ( ن) کی قیادت کی وطن واپسی کی راہیں ہموار ہو گئیں۔ 2007ء میں سفید دوپٹے اور سبز لباس میں بے نظیر بھٹو کی واپسی نے ملک میں حقیقی جمہوریت کی نئی امید جگا دی۔ پھر نواز شریف واپس آئے تو نعرہ لگا کہ ملک کا بیٹا واپس آگیا ہے۔ جیالے اور متوالے بہت خوش تھے کہ طالع آزماؤں کے دن ختم ہوئے۔ اب جمہوریت کا نیا سورج طلوع ہو گا۔ اس سورج کو پہلا گرہن اُس وقت لگا جب 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی شہادت ہو گئی۔
حکومت انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوئی۔ پھر ایک وصیت کے ذریعے پارٹی آصف زرداری کے ہاتھ آگئی۔ 2008ء میں آصف زرداری نے نواز شریف سے ہاتھ ملایا اور مل کر پرویز مشرف کو ایوانِ صدر سے نکال دیا۔ اب دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی تیسری طاقت نہیں تھی۔ ایک بار پھر دونوں جانب سے پرانے کھیل کھیلے جانے لگے‘ کبھی پیپلز پارٹی نے پنجاب میں گورنر راج لگا دیا توکبھی نواز شریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ جاپہنچے۔ پھر اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زرداری کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا نعرہ لگایا۔ چیف جسٹس ریٹائرڈ افتخار چوہدری کی بحالی بھی نواز شریف کے لانگ مارچ سے ہی ممکن ہوئی۔ پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف ان کے سخت سوموٹوز اور فیصلوں نے بھی مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر مضبوط کیا۔ پیپلزپارٹی اس دوران (ن) لیگ پر کرپشن کیسزکی بارودی سرنگیں بچھاتی رہی جو آج ایک ایک کرکے پھٹ رہی ہیں۔
اکتوبر 2011ء میں عمران خان نے مینار ِپاکستان پر ایک بڑا جلسہ کر کے دونوں جماعتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ 2013ء کے الیکشن کی رات پیپلزپارٹی کی بیڈ گورننس پنجاب سے پیپلزپارٹی کا صفایا کر چکی تھی۔ شہباز شریف نے لاہور کو پیرس بنانے کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ الیکشن سے قبل میٹرو بس چلائی گئی اور وعدہ کیا گیا کہ پورے پنجاب کو پیرس بنا دیں گے۔ عمران خان الیکشن کے دوران حادثے میں زخمی ہو کر عملاً الیکشن سے آؤٹ ہوگئے۔ (ن) لیگ کو پنجاب سے کلین سویپ ملا‘ پیپلزپارٹی کا پنجاب سے چیپٹر کلوز ہوگیا‘ ان کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئیں‘ کہنے والوں نے زرداری صاحب کو یاد دلایا کہ واقعی جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کسی نہ کسی طرح 30‘35 سیٹیں لینے میں کامیاب ہو گئی۔ عمران خان اور آصف زرداری دونوں نے 2013ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا۔ آصف زرداری نے اسے آر اوز کا الیکشن قرار دیا۔ عمران خان نے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا‘ مطالبات بڑھتے چلے گئے‘ پھر پنجاب حکومت سے سانحہ ماڈل ٹاؤن سرزد ہوا۔ اگست 2014ء میں ایک تحریک تشکیل دی گئی جس میں عمران خان کے ساتھ طاہر القادری بھی میدان میں اترے۔ طاہر القادی اس سے قبل پیپلز پارٹی کے دور میں ڈیمانسٹریشن دے چکے تھے۔ عمران خان اور طاہر القادری کے لانگ مارچ کا ہدف نواز شریف حکومت تھی۔ سیاسی کزنز نے دھاندلی زدہ قاتل حکومت کے نعرے لگائے اور اسے گرانے کا عزم کیا۔ ایسے میں آصف زرداری نے دوبار ہ مفاہمت کا ڈول ڈالا اور نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ عمران خا ن 126 دن کا دھرنا دے کر لوٹ گئے لیکن اس دوران پیش آمدہ واقعات نے ملک کے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو انتہائی کمزور کر دیا۔ دوسری جانب آصف علی زرداری نے (ن) لیگ کی حکومت کوسہارا دینے کی پوری قیمت وصول کی۔ کھل کر سندھ پر راج کیا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی وزیراعظم ہاؤس بھیجی جانے والی ہر فائل کو پہیے لگتے رہے۔ (ن) لیگ احتیاطاً پیپلزپارٹی پر کرپشن کے کیسز بھی بناتی رہی جسے بھگتنے سے بچنے کیلئے پیپلزپارٹی مقتدر حلقوں سے ہاتھ ملانے پر مجبور ہوئی۔ دونوں جماعتیں شیشے کے گھر میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو پتھر مارتی رہیں اور سیاست کی راہیں مسدود کرتی رہیں۔ اس کے بعد بھی یہ جماعتیں چاہتی ہیں کہ عوام ان کیلئے باہر نکلیں‘ حالانکہ اس حکومت کی کارکردگی دیکھ کر اپوزیشن کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بیڈ گورننس اور ٹوٹتے خواب ہی اس حکومت کیلئے کافی تھے۔ لیکن کل کے حکمران آج خود زد پہ ہیں تو انہیں پھر سے عوام یاد آئے ہیں۔ عوام ان کا یہ ماضی بھولنا بھی چاہیں تو تحریک انصاف روزانہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر سب کچھ یاد دلاتی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم اب تک وہ عوامی حمایت حاصل نہیں کر سکی جس کی توقع تھی۔ شاید اسی لئے اب ان جماعتوں کو لانگ مارچ اور جلسوں سے نکلنے کا راستہ چاہیے اور شائد اسی لئے اب مسلم لیگ ن نے بھی پیپلز پارٹی کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔