محترم آصف علی زرداری کو یہ کیوں کہنا پڑا کہ پاکستان جمہوری تحریک متحد ہے‘ ایک رہے گی اور اس میں دراڑیں نہیں پڑیں؟ پھر ایک شام بلاول بھٹو زرداری صاحب نے عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اعلان کر ڈالا۔ اس کے بعد نون لیگ کے رہنمائوں نے سوال اٹھانے شروع کر دیے کہ حساب کتاب درست کریں تو حزبِ اختلاف کے پاس اکثریت نہیں‘ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہ ہو سکے گی‘ بلاول بھٹو زرداری نے یہ بیان کیوں جاری کیا؟ اصل میں سیاسی بیان بازوں اور ہمارے مبصرین نے ان کے تمہیدی جملے پر زیادہ غور نہیں کیا۔ ایسا کیا ہوتا تو سوال عدم اعتماد کی تحریک پر نہیں اٹکنا تھا۔ ان کاکہنا تھا کہ حکومت گرانے کے لئے حزبِ اختلاف کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانا ہو گی‘ اور اس تبدیلی کی صورت گری انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک لانے میں کی۔ اصل ماجرا کیا ہے یہ تو حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتیں ہی آگاہ کر سکتی ہیں‘ اگر کوئی پردہ داری حائل نہیں‘ مگر معلوم ہوتا ہے کہ تحریک نے وہ اٹھان نہیں لی‘ جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ شروع دن ہی سے لوگوں کا خیال تھا کہ اس بار بھی مولانا صاحب کو پھرتیوں میں کھجور پر چڑھا کر سیڑھی کھینچ کر بھاگ جانے سے گیارہ جماعتی اتحاد میں شامل کچھ جماعتیں احتراز نہیں کریں گی۔ دراصل قابلِ احترام مولانا صاحب کو جلدی بہت ہے۔ روز اول سے کمربستہ ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو نہیں چلنے دیں گے‘ گرا کے دم لیں گے‘ اور اگر دیگر سیاسی جماعتیں ان کا ساتھ دیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جن رہنمائوں کے ساتھ بیٹھ کر انہوں نے حکومت گرانے کی منصوبہ بندی کی‘ انہیں اپنی قیمتی مشوروں اور مدبرانہ نصائح کے علاوہ یہ بھی بتایا ہو گا کہ حکومت کیسے گرائی جائے گی۔ اندر کی باتیں تو اندر والے ہی جانیں‘ اور نہ ہمیں ایسی کہانیوں سے کوئی دلچسپی ہے‘ ہمارا تعلق تو ان باتوں سے ہے جو عوام کے سامنے کی جاتی ہیں اور اس عمل سے ہے جو سنتے کانوں‘ دیکھتی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔ حقائق سے باتیں بنتی ہیں‘ کہی سنی سے نہیں۔
جو اعلانات کئے گئے‘ پریس کانفرنسیں کی گئیں‘ دھوم دھام کے ساتھ سیاسی مذاکروں میں سینہ تان کر جو نعرے لگائے گئے‘ ان سے تو کوئی انکار کر سکتا ہے اور نہ ہی چھپ سکتا ہے۔ پہلا اعلان یاد پڑتا ہے کہ یہ تھا: جنوری کے آخر تک حکومت رخصت ہو جائے گی۔ وہ کیسے؟ عوامی دبائو اس قدر بڑھایا جائے گا کہ عمران خان ڈر کے مارے حکومت چھوڑ کر پتا نہیں کہاں کی راہ لیں گے۔ چند 'کامیاب‘ جلسوں کے بعد جن لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ عوام کو حاضر کیا جائے تاکہ وہ قومی رہنمائوں کے ارشادات سے مستفیض ہوں‘ وہ پتا نہیں کہاں چلے گئے۔ پہلے اعلان میں تبدیلی کر دی گئی۔ یہ الٹی میٹم بھی محترم بلاول بھٹو زرداری سے منسوب ہے کہ حکومت کو جنوری کے آخر تک مستعفی ہو جانا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا تو پھر کیا ہو گا‘ اس بارے میں کوئی وضاحت نہ آئی۔ چلو مان لیتے ہیں کہ یہ خالی خولی دھمکی نہیں تھی‘ بلکہ مطلب یہ تھا کہ حکومت نے خود بخود اقتدار کی کرسی چھوڑ کر دوڑ نہ لگائی تو تحریک چلے گی۔ کیا کہنے‘ تحریک تو پہلے سے ''زوروں‘‘ پہ تھی‘ اور ایک ''کامیاب‘‘ جلسے کے بعد دوسرا ''کامیاب‘‘ جلسہ تواتر سے ہو رہا تھا۔ جنوری کے تمام ہونے میں اب محض چند روز باقی رہ گئے ہیں۔ دیکھتے ہیں‘ اس سے اگلے روز حکومت پر کیا قیامت برپا ہوتی ہے۔
سب سے اہم اعلان تو یہ تھاکہ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کے اراکین دسمبر‘ یعنی گزشتہ سال کی آخری تاریخ تک استعفے اپنی اپنی پارٹی کے سربراہوں کی جیب میں ڈال کر سب کو آگاہ کریں گے۔ ہم تو کمزور لوگوں میں سے ہیں‘ سوال کرنے کی جرأت نہیں کہ کسی سے پوچھ لیں‘ اب تک کتنے استعفے جیبوں میں ڈالے جا چکے ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سب کے استعفے موصول ہو چکے ہیں‘ تو اس کی قانونی اور آئینی اہمیت کیا ہے؟ سب کو معلوم ہے کہ کسی بھی رکن کا استعفا تو سپیکر اسمبلی کو بھیجا جاتا ہے‘ رکن کو تصدیق کے لئے آنے کی زحمت بھی اٹھانا پڑتی ہے اور اعتراض بھی اٹھائے جا سکتے ہیں کہ ان پر دبائو ڈالا گیا ہے۔ بے وقت اعلانوں میں وزن ڈالنے کے لئے محترم مولانا صاحب سے بہتر انداز میں گفتگو شاید ہی ہم عصر سیاست دانوں میں سے کوئی اور کر سکے۔ فرمایا: مناسب وقت آنے پر سب جمع شدہ استعفے اسمبلی کے سپیکر حضرات کی میزوں پر کیمروں کے سامنے رکھ دیے جائیں گے۔ اب سب کو 'مناسب وقت‘ کا انتظار ہے۔ اس سے نہ کوئی انکار ہے‘ نہ ہی انحراف کہ ایسا بالکل ممکن ہے‘ اور ہو سکتا ہے کہ وہ مناسب وقت انتخابات سے چند ماہ پہلے آ ہی جائے‘ مگر مقصد تو پارلیمانی نظام میں رنگی اسمبلیوں کو مفلوج کرنا تھا۔ اس سے بڑا مقصد تو کچھ اور تھا‘ و ہ یہ کہ سینیٹ کے انتخابات کے لئے ضروری الیکٹورل کالج مکمل نہ رہ سکے۔ ہم تو نہیں کہہ سکتے مگر اعداد و شمار سے قیاس یہی کیا جا رہا ہے کہ تحریکِ انصاف اور ان کے اتحادیوں کی سینیٹ میں بھی اکثریت بن جائے گی۔ وہ رکاوٹیں‘ جو قانون سازی کیلئے کھڑی کی جاتی رہی ہیں‘ دھڑام سے گر کر ریت کا ڈھیر بن جائیں گی۔
ہمارے سیاست دان بھی کمال کا طرزِ بیان اور بیان بازی پر قدرت رکھتے ہیں۔ پتا نہیں کس جماعت اور کس جوشیلے رہنما کی طرف سے اعلان ہوا تھا کہ ہم سینیٹ کا میدان تحریکِ انصاف کے لئے کھلا نہیں چھوڑیں گے۔ معذرت کے ساتھ‘ سوال تو بنتا ہے کہ پھر استعفوں سے‘ اگر یہ اطلاع درست ہے‘ جیبیں بھرنے اور انہیں اتنی دیر تک ٹھنڈ میں رکھنے کا کیا جواز ہے؟ آئینی ماہرین تو یہ کہہ رہے تھے کہ خالی سیٹوں پر ضمنی انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے‘ مگر ایک کثیر تعداد اسمبلیوں سے نکل جائے تو سیاسی بحران ضرور پیدا ہو سکتا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ سندھ‘ جہاں تواتر کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے‘ میں وہ اپنی حکومت کیوں ختم کرے گی؟ دوسری بات یہ کہ سینیٹ کے انتخابات میں اندازہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے حصے میں سات آٹھ سیٹیں آ سکتی ہیں‘ تو وہ کیوں خسارے کا سودا کرے گی۔ کبھی ایسا انہوں نے کیا ہے؟ وہ تو کرتے ہی فائدوں کا کام ہیں۔ دھندا ہی ایسا ہے۔ آصف علی زرداری صاحب میرے نزدیک مولانا اور شریفوں کی نسبت پاکستانی سیاست کے اسرار و رموز بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ مولانا صاحب کے ارد گرد گھومتی پھرتی ''جمہوری‘‘ تحریک‘ جس پر میاں نواز شریف نے انقلابی نظریات کا تڑکا لگا کر اس کڑاکے نکال ڈالے ہیں‘ اگر زرداری صاحب کے زیرِ اثر چلتی تو ہم اس میں بصیرت دیکھتے۔
تحریک کے تمام مقامات تو گزر چکے‘ جلسے جلوس‘ سینیٹ کے انتخابات‘ قریب ہی ہونے والے ضمنی انتخابات‘ اب کیا رہ گیا ہے؟ یاد آیا‘ لانگ مارچ ابھی رہتا ہے۔ غلطی معاف‘ مگر میرا اندازہ ہے کہ لاہور کے ''تاریخی‘‘ جلسے کے بعد الیکشن کمیشن کے باہر جو جلوس نکالا گیا‘ اس نے لانگ مارچ کے بارے میں سوالوں کو جنم دینا شروع کر دیا ہے۔ جنوری میں چونکہ سردی ہے‘ اس لئے نہیں ہوا۔ مارچ میں ہو سکتا ہے۔ چلو وہ بھی ہو جائے‘ اور ''عوامی‘‘ لشکر اسلام آباد کی سڑکوں پر قابض ہو جائیں‘ تو کیا صوبائی حکومتیں گر جائیں گی‘ کیا وفاقی حکومت کام نہیں کر پائے گی؟ تاریخ یہی کہتی ہے کہ بھلے پاکستان میں لانگ مارچوں کی سینچری بنائیں‘ آئین اور جمہوریت میں حکومت گرانے کی گنجائش نہیں ہے۔