تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-01-2021

سرخیاں، متن ’’گم گشتہ‘‘ اور مسعود احمد

آپ کی شخصیت ہی پی ڈی ایم کو آگے لے کر چل
سکتی ہے، آئندہ شکایت نہیں ہوگی: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے کہا ہے کہ ''آپ کی شخصیت ہی پی ڈی ایم کو آگے لے کر چل سکتی ہے، آئندہ شکایت نہیں ہوگی‘‘ کیونکہ میری تقریروں نے پی ڈی ایم کو جتنا پیچھے لے جانا تھا، لے جا چکی ہیں کہ تحریکوں کا آگے پیچھے ہوتے رہتا ہی ان کے زندہ رہنے کی نشانی ہوتی ہے‘ اس لیے پیچھے ہو کر اب اس کے پھر آگے ہونے کی باری ہے، لیکن ہمارے ملک میں باریوں کا کوئی احترام نہیں کیا جا سکتا اور سارا جھگڑا ہی اس کا برپا کیا ہوا ہے۔ آپ اگلے روز فون پر مولانا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان مافیاز کے خلاف لڑ رہے ہیں: فردوس عاشق
معاونِ خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''عمران خان مافیاز کے خلاف لڑ رہے ہیں‘‘ اور یہ کام زیادہ مشکل اس لیے بھی ہے کہ انہیں ایک وقت میں بے شمار مافیاز کے خلاف لڑنا پڑ رہا ہے کیونکہ ملک میں جو مافیاز پھیلے ہوئے ہیں وہ انہیں کچھ کرنے نہیں دے رہے، اس لیے پہلی کوشش یہی ہو گی کہ ان سارے مافیاز کو آپس میں ہی لڑا دیا جائے تا کہ اس طرف سے فراغت ہو تو حکومت دوسرے مسائل کی طرف توجہ دے سکے، اگرچہ دیگر مسائل تو اپنے آپ ہی حل ہوتے رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز ٹائیفائیڈ ویکسین منصوبے کے افتتاح پر میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
پی ڈی ایم متحد‘70 فیصد مقاصد حاصل کر چکے : فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم متحد ہے اور ہم اپنے 70 فیصد مقاصد حاصل کر چکے ہیں‘‘ اور اب صرف حکومت کو گرانا باقی رہ گیا ہے جو اب میری ذمہ داری نہیں ہے کیونکہ سارے فیصلے اب بلاول اور مریم کر رہے ہیں اور میں حاصل شدہ اور غیر حاصل شدہ مقاصد کا حساب لگانے پر مامور ہوں اور شاید پی ڈی ایم کی سربراہی کا مقصد بھی یہی تھا جبکہ ہمیں حساب لگانا خوب آتا ہے، میں ساتھ ساتھ یہ حساب بھی لگا رہا ہوں کہ میرے کن کن اثاثوں پر جواب طلبی کی جا رہی ہے، کتنے ساتھی پکڑے جا چکے ہیں اور کتنے باقی ہیں، کتنے اپوزیشن رہنما جیلوں میں ہیں اور کتنے باہر۔ آپ اگلے روز فون پر نواز شریف اور آصف زرداری سے گفتگو کر رہے تھے۔
کسی دشمن کو ملک کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں : شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''کسی دشمن کو ملک کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘ البتہ دوستوں کے لیے صلائے عام ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ کرتے رہیں کیونکہ یہ کام زیادہ تر دوستی ہی کے پردے میں کیا جاتا ہے اور جو ہمارے آس پاس گھیرا بنائے بیٹھے ہیں، کبھی کبھار یہ گھیرا تنگ بھی ہونے لگتا ہے لیکن ہم گھبرانے والے نہیں ہیں اور جب سے پی ڈی ایم کا تیا پانچہ ہونا شروع ہوا ہے ہمیں گھبرانا ویسے ہی بھولتا جا رہا ہے اور اب حکومت نے بھی صورت حال کے پیش نظر گھبرانا بالکل چھوڑ دیا ہے۔ آپ اگلے روز دورۂ پشاور میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی کی صفوں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی کی صفوں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں‘‘ جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ یہاں تو صفیں ہی باقی نہیں رہیں تو ان میں دراڑیں کہاں سے پڑیں گی، اور ایسا لگتا ہے کہ نیا بیانیہ دے کر ہمارے قائد نے ہم سے کوئی پرانا بدلا لیا ہے کیونکہ آدھی جماعت اس بیانیے کے حق میں ہے اور آدھی مخالف، اور جو باقی بچے ہیں وہ الگ تھلگ ہو کر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ الگ ناراض ہیں کہ اگر سارے فیصلے دونوں بڑی پارٹیوں نے کرنے ہیں تو سربراہی انہیں کیوں سونپی گئی اور ان کے پی ڈی ایم کی سربراہی سے استعفے کی خبریں بھی گشت کرنے لگی ہیں، خدا خیر ہی کرے! آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
گم گشتہ
یہ ممتاز شاعر شہاب صفدر کا مجموعۂ کلام ہے جسے تسلسل ادبی فورم بلوٹ شریف ڈیرہ اسماعیل خان نے شائع کیا ہے۔ انتساب بابا کی جان بلال اطہر خان کے نام ہے، دیباچہ ہمارے دوست اور سینئر شاعر غلام حسین ساجد نے تحریر کیا ہے، جبکہ تحسینی رائے دینے والوں میں خاور احمد، ڈاکٹر شاہین مفتی، ڈاکٹر نجیبہ عارف اور قمر رضا شہزاد شامل ہیں۔ نمونۂ کلام کے طور پر چند شعر دیکھیے:
ملتوی کر دی اچانک اس نے تقریبِ وصال
اور دل سا تحفۂ نایاب رکھا رہ گیا
٭......٭......٭
یقیں ہے دستِ مہرباں یہ آسماں فریب ہے
تنا ہوا زمیں کے سر پہ سائباں فریب ہے
٭......٭......٭
بھول جانا بھی بُری بات ہے لیکن اے دوست
تُم کسی روز ہمیں یاد تو کر کے دیکھو
٭......٭......٭
اور، اب آخر میں مسعود احمد کی تازہ غزل:
یہ جب سے تیری محبت کے بال و پر لگے ہیں
ہمیں یہ چاند ستارے بھی ہم سفر لگے ہیں
جہاں جہاں سے مری خاک کو نمو ملی ہے
وہاں وہاں پہ ثمر سوختہ شجر لگے ہیں
کہاں سے آیا مقدر کو یاوری کرنا
حضور! ہم تو کنارے بھی ڈُوب کر لگے ہیں
ہماری ذات کے گرداب میں سمندر ہے
ہمارے پیچھے تو خشکی میں بھی بھنور لگے ہیں
لگانے والوں کو گزرے ہوئے زمانہ ہوا
مگر وہ پیڑ ابھی تک ہمارے گھر لگے ہیں
ہمارا دستِ ہُنر جس قدر سراہا گیا
ہم اپنے آپ کو اتنے ہی بے ہُنر لگے ہیں
جھکی ہے شاخِ بدن معنی آفرینی سے
ہمارے قصے کہانی کے پیڑ پر لگے ہیں
تمارا بال برابر بھی تو نہیں ہم میں
تمہارے نام مری جان سر بسر لگے ہیں
خدا کی شان کو پہنچا رہے ہیں دنیا تک
ہمیں پرندے بھی قدرت کے نامہ بر لگے ہیں
شجر جلا کے پرندوں کو بے ٹھکانہ کیا
یہ آدمی تو سراسر ہی جانور لگے ہیں
آج کا مقطع
پایا تھا ظفرؔ کوششِ بسیار سے جس کو
کھویا بھی ہے اس کو بڑی تدبیر سے ہم نے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved