تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     30-01-2021

جمہوریت دشمنی کا نیا روپ

انتہا پسند‘ مذہبی ہوں یا لبرل‘ جمہوریت کی دشمنی میں یک زبان ہیں۔ آج دونوں ایک ہی مقدمہ پیش کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اقتدار کو کسی اخلاقی جواز کی ضرورت نہیں۔ اقتدار کا بنیادی مطالبہ ڈسپلن اور کمانڈ ہے۔ جس گروہ کو میسر ہے‘ اس کا حقِ اقتدار ثابت ہے۔ اگر کوئی منظم مسلح دستہ ڈسپلن اور کمانڈ رکھتا ہے تو وہ اقتدار پر قابض ہو سکتا۔ یہ ریاست کی چھتری کے بغیر ہو سکتا ہے اور اس کے نیچے بھی۔ طالبان کی حکومت بھی جائز ہے اور مارشل لا بھی۔ طریقہ واردات‘ دونوں کا وہی ہے جو لبرل بالعموم مذہب کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ جب مذہب کو براہ راست کچھ کہنا مشکل ہو تو اہلِ مذہب کو ہدف بنا لیا جاتا ہے۔ یہ انتہا پسند جمہوریت پر براہ راست وار کرنے کے بجائے‘ سیاست دانوں کو اپنی قلم یا زبان کی نوک پر رکھ لیتے ہیں۔ اس داستان گوئی سے ایک ہی نتیجہ نکلتاہے: 'سیاست دان برے ہیں‘ پس ثابت ہوا جمہوریت بری ہے‘۔
ان طبقات کی ایک نشانی یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف ان کا مقدمہ سیاست دانوں کے خلاف جھوٹے سچے واقعات کی جگالی سے شروع ہوتا اور اسی پر تمام ہو جاتا ہے۔ اگر مجبوراً کسی دوسرے طبقے کا ذکر کرنا پڑ جائے تو وہ اتنا ہی ہوتا ہے جتنا ایک متن کا حاشیہ۔ اس داستان گوئی میں ان سیاست دانوں کا استثنا ہے جو ان خواتین و حضرات کے ذاتی دوست ہیں۔ ان کے نزدیک‘ ان کی حیثیت جوہڑ میں کھلے کنول کی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت کے خلاف کوئی منطقی اور عقلی دلیل پیش نہیں کی جا سکتی۔ کم ازکم میری نظر سے تو نہیں گزری۔ اس میں شبہ نہیں کہ جمہوریت میں کمزوریاں ہیں‘ لیکن ان کے باوجود جمہوریت سے بہتر سیاسی نظام آج تک دریافت نہیں کیا جا سکا۔ اس کی وجہ جمہوریت کی یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنی اصلاح کر سکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ اسے موقع دیا جائے۔
جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ آئی۔ اس لیے اس کے دیے ہوئے نظام میں سرمائے کا ایک کردار ہے۔ یہ کردار اگر حد سے بڑھ جائے توسرمایہ رائے عامہ کو یرغمال بنا سکتا ہے۔ یہ امریکہ میں ہوتا ہے‘ برطانیہ میں ہوتا ہے‘ جاپان میں ہوتا ہے جہاں کے سیاسی نظم کے گیت گائے جاتے ہیں۔ وہاں مختلف مفاداتی گروہ انتخابات کے موقع پر متحرک ہوتے ہیں۔ امیدواروں کے انتخابی فنڈز میں چندہ دیتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ اگر وہ امیدوار کامیاب ہو جائے تو ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔
جمہوریت نے اس خرابی کا حل بھی تلاش کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو پابند بنایا ہے کہ وہ اپنے فنڈز کا ریکارڈ رکھیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں جمہوریت ہمیشہ آمریت کے بوجھ تلے بمشکل سانس لیتی رہی ہے‘ وہاں بھی یہ نظام موجود ہے۔ تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس اس کی ایک مثال ہے۔ اصولاً اس کا فیصلہ پچھلے انتخابات سے پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔
یہاں سرمایے کے سوئے استعمال کی ذمہ دار جمہوریت نہیں‘ وہ قوتیں ہیں جو جمہوریت کو پنپنے نہیں دیتیں۔ آج کون فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کی راہ میں حائل ہے؟ اگر اس سوال کاجواب تلاش کیا جائے تو جمہوریت کو مطعون کرنے والے شرمندہ ہوں۔ دنیا بھر میں جمہوری ریاستوں نے یہ انتظام کیا ہے کہ سرمایہ سیاسی عمل پر کم سے کم اثرانداز ہو۔ جمہوریت ہر لمحہ اپنی اصلاح پر آمادہ ہے۔
جمہوریت پر لب کشائی اور قلم فرسائی کرنے والوں کے تضادات خود ان کے مقدمے کو کمزور کر رہے ہیں۔ ایک طرف وہ اہلِ سیاست کو طعنہ دیتے ہیں کہ انہوں نے آمریتوں کی کیاریوں میں نشوونما پائی ہے اور دوسری طرف خرابی کا سارا ملبہ سیاستدانوں کے سر ڈال دیتے ہیں۔ گویا پنیری لگانے والے پر تو کوئی الزام نہیں‘ سارا جرم پودے کا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کیوں نتیجہ خیز نہیں ہو سکی؟ اہلِ دانش کو اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے۔ جب وہ اپنا یہ وظیفہ سرانجام نہیں دے سکتے تو تن آسانی یا کسی اور وجہ سے جمہوریت کو تنقید کا ہدف بنا لیتے ہیں۔ پھول اگر اپنی مہک سے محروم ہو جائیں تو پھولوں کو جھاڑ جھنکاڑ کی طرح اکھاڑا نہیں جاتا‘ ان اسباب کو تلاش کیا جاتا ہے جنہوں نے گلاب اور چنبیلی کو خوشبو سے محروم کر دیا۔
جو لوگ ایک اسلامی ریاست پر یقین رکھتے ہیں‘ وہ ان معاشرتی عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جو اس کے قیام کی راہ میں حائل ہیں۔ جو لوگ اشتراکیت پر ایمان لائے‘ انہوں نے سماج کو تبدیل کرنا چاہاکہ اس کیلئے ان کا نظریہ قابلِ قبول بن جائے۔ اسی طرح نخلِ جمہوریت اگر ثمربار نہیں ہو رہا تو ہمیں بھی ان عوامل کو تلاش کرنا جو اس پر برگ و بار نہیں آنے دیتے۔ اگر ہمارے دانشور اس کی قدرت رکھتے تو ان کی تنقید کا ہدف سیاستدان نہیں‘ کوئی اور ہوتا۔
پھر یہ دانش بھی بڑی عجیب ہے کہ اگرکوئی سیاستدان اس سے نکلناچا ہے تووہ اس کویہ موقع دینے کیلئے تیار نہیں۔ آئے دن اس کو ماضی کی یاد دلاتی ہے جب وہ کسی کیاری میں بڑے ہو رہے تھے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی برائی کا راستہ چھوڑکر نیکی کی راہ اپنانا چاہے تواس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے‘ اسے روزانہ ماضی کاطعنہ دیاجائے۔ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے سیاستدانوں کا خیر مقدم کیا جائے تاکہ یہ ایک قابلِ تقلید عمل بن جائے۔
جمہوریت کے خلاف یہ مقدمہ اخلاقی بنیادوں سے بھی محروم ہے۔ مذہب‘ عقل‘ تاریخ‘ سب اس پر متفق ہیں کہ اقتدارکی بنیادی ضرورت استحکام ہے اور استحکام قوت سے نہیں‘ عوامی تائید سے آتا ہے۔ انسانیت بادشاہتوں اور سلطنتوں کے عہدسے بہت آگے نکل چکی۔ یہ وہ دور نہیں کہ کوئی گھڑسوار مسلح فوج اور جتھوں کے ساتھ یونان سے چلے‘ افغانستان تک روندتا چلاجائے اور اس کے حقِ اقتدار کو قبول کر لیا جائے۔
یہ ظلم ہے اور ظلم اس وجہ سے قابلِ قبول نہیں ہو سکتاکہ اس میں ڈسپلن ہے اوروہ ایک کمانڈ کے ساتھ قائم ہے۔ کمانڈر کے اشارے پر لوگ ایک ساتھ پاؤں اٹھاتے اور رکھتے ہیں۔ جمہوریت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ جہاں یہ شرط پوری ہورہی ہے وہاں حقِ اقتدار ثابت ہے۔ عوام اس قابل ہی نہیں کہ ان سے کوئی رائے لی جائے۔ یہ دیدہ دلیری کم لوگوں کو میسر ہوتی ہے کہ وہ ظلم کا مقدمہ سرِ بازار پیش کریں اوراس پر شرمندہ بھی نہ ہوں۔
اقتدار کے جائز ہونے کی ایک ہی بنیادی شرط ہے اور وہ ہے عوام کا اعتماد۔ اگر یہ میسر نہیں تو فرشتہ صفت لوگوں کی حکومت بھی ناجائز ہی ہوگی۔ سیدنا عمرؓ نے بحیثیت فرمانروا‘ یہ فرمایا تھاکہ جو عوام کی مرضی کے بغیران پر مسلط ہونے کی کوشش کرے گا‘ میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہ بات دلیل کی محتاج نہیں کہ حکمران اخلاقی اور ذہنی اعتبار سے پست ہوں گے تو سارا معاشرہ اس کے ا ثرات بھگتے گا۔ اس بات کا لیکن حقِ اقتدار سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ صرف عوامی تائید سے ثابت ہوتا ہے۔
جو لوگ سیاستدانوں کی مبینہ کرپن کو سب سے بڑا مسئلہ بنا کرپیش کرتے اور عوام کو ایک ہی کہانی روز سناتے ہیں‘ وہ دراصل غیرجمہوری قوتوں کیلئے فضا ہموار کرتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ عقلِ عیار کاکیا دھرا ہے یا دانش کی کوتاہ نگاہی۔ سبب جو بھی ہو‘ مقصد ایک ہی ہے کہ لوگوں کو جمہوریت سے متنفر کیا جائے اور غیرجمہوری قوتوں کے حقِ اقتدارکو ثابت کیا جائے کیونکہ وہاں کمانڈ بھی ہے اور ڈسپلن بھی۔
لبرل اور مذہبی انتہاپسندوں کی جمہوریت دشمنی انہیں یہاں لے آئی ہے کہ دونوں اب ایک اور نظامِ حکومت کی بات کر رہے ہیں۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت مخالف سکہ کسی انتہا پسند مذہبی کے ہاتھ میں ہو یا لبرل کے‘ ایک ہی ٹکسال میں ڈھلا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved