تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     30-01-2021

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

آج تک کی انسانی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ آزاد اور غلام، اعلیٰ طبقے اور ادنیٰ طبقے، مالکان اور خانہ زاد غلام، دستکار اور آقا یعنی دوسرے الفاظ میں ظالم و مظلوم طبقات تاریخ کے ہر دور میں ایک دوسرے کے خلاف مستقل طور پر کھڑے رہے۔ یہ لوگ ایک دوسرے کے خلاف مسلسل ایک خفیہ اور کھلی لڑائی لڑتے رہے۔ اس لڑائی کا خاتمہ ہر دفعہ یا تو سماج کی انقلابی تنظیم نو پہ ہوا یا دعوے دار طبقات کی مشترکہ بربادی پر۔ یہ اس پیغام کا مفہوم ہے، جو کارل مارکس اور فیڈرک اینجلز نے اپنی مشہور تخلیق کمیونسٹ مینی فیسٹو میں دیا۔ اس منشور کو دنیا کی سب سے زیادہ با اثر سیاسی دستاویز قرار دیا جاتا ہے۔ پیٹر آسبارن جیسے دانشور نے اس دستاویز کو انیسویں صدی کی سب سے اہم ترین تحریر قرار دیا ہے۔ کچھ دانشور اسے اکیسویں صدی کا منشور بھی قرار دیتے ہیں۔ اتفاق یا اختلاف اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ اس تحریر کو ان معدودے چند سیاسی دستاویزات میں شامل کیا جاتا ہے، جن کو پوری دنیا میں کثرت سے پڑھا جاتا ہے۔ ''زوم ریڈنگ روم‘‘کی گزشتہ مطالعاتی نشست میں ہم نے سیاسی تاریخ کی اس اہم ترین دستاویز پرگفتگو کی۔
کمیونسٹ منشور ابتدائی طور پر اٹھارہ سو اڑتالیس اور اٹھارہ سو انچاس کے ہنگامہ خیز سالوں میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت پورے یورپ کے اندر زیادہ جمہوری اور نمائندہ اداروں کے قیام کی بات ہو رہی تھی۔ یورپ کے بیشتر ملکوں میں قدیم اشرافیہ اور مطلق العنان آمرانہ حکومتوں کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب اٹھارہویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے اوائل کے صنعتی انقلاب نے پیداوار، نقل و حمل اور مواصلات میں ناقابل یقین پیشرفت شروع کر رکھی تھی‘ لیکن اس صنعتی انقلاب کے بطن سے جنم لینے والے نئے حالات نے مزدور طبقے کیلئے بھی کام کرنے کے خوفناک حالات پیدا کردیئے تھے۔ ابھی تک مزدور طبقات کے حقوق کو تسلیم کرنے اور ان طبقات کے حقوق کے تحفظ کا کوئی باقاعدہ نظام سامنے نہیں آیا تھا۔ ان حالات میں یورپ کے مرد، خواتین اور بچے خطرناک حالات میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور تھے۔' ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات‘ کے مصداق ان کے اوقات کار بہت طویل، کام بہت پُرمشقت اور معاوضے بہت غیر منصفانہ اور حقیر تھے۔
ان تلخ اور ناگفتہ بہ حالات کے جواب میں نئے سرمایہ دار طبقے کے استحصال کے خلاف جگہ جگہ سوشلسٹ اور اصلاح پسند تحریکیں بھی ابھرنا شروع ہو رہی تھیں۔ اس نئے سرمایہ دار طبقے کو‘ جو صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ابھرا‘ ''بورژوازی‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس عہد میں سرمایہ دار طبقے کی مزاحمت کے لیے کئی نئی تحریکیں ابھریں۔ کارکنوں کی نت نئی تنظیمیں سامنے آئیں۔ کام کرنے والے اور مزدور پیشہ لوگوں کی ایسی ہی ایک تنظیم کمیونسٹ لیگ تھی۔ اس تنظیم نے اس وقت کے مشہور جرمن فلسفیوں کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز سے کمیونسٹ منشور لکھنے کی درخواست کی۔ اس درخواست کے جواب میں کمیونسٹ منشور لکھا گیا۔ اس منشور کے بنیادی مصنف کارل مارکس تھے جبکہ ان کے ساتھی اینجلز نے متن میں کچھ ترامیم تجویز کی تھیں۔ یہ منشور جرمن زبان میں لکھا گیا تھا، اور ابتدائی طور پر لندن میں 1848 میں شائع ہوا تھا۔ اس منشور کے اندر مارکس اور اینجلز نے یورپی سوشلسٹوں کیلئے جدوجہد کے رہنما اصول وضع کیے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے ایک ایسی تحریر پیش کی جو دنیا بھر میں ''کمیونسٹ مینی فسٹو‘‘کے نام سے مشہور ہوئی اور پوری دنیا میں کمیونسٹوں نے اس منشورکو اپنی جدوجہد کیلئے ایک رہنما دستاویز کے طور پر استعمال کیا۔
اس منشور نے 19ویں صدی کے محنت کش طبقے کی جدوجہد کو انسانی تہذیب کے تاریخی تناظر میں پیش کیا۔ اس دستاویز میں محنت کش طبقے کی آزادی کا ایک باقاعدہ پلان پیش کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ کے مطالعے اور اس کو سمجھنے کا ایک نیا طریقہ تجویز کیا گیا۔ مصنفین نے اس بات پر زور دیاکہ طبقاتی جدوجہد یہ سمجھنے کی بنیاد ہے کہ انسانی سماج کیسے کام کرتا ہے۔ تاریخی طور پر عموماً ایک مضبوط اقلیت نے ہمیشہ ایک کمزور اقلیت پر ظلم کیا ہے لیکن جلد ہی مزدور طبقہ جسے ''پرولتاریہ‘‘ کا نام دیا گیا‘ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دار طبقے کو شکست دے گا۔ یہ انقلاب بالآخر طبقات کو مٹا کر دنیا میں ایک غیر طبقاتی سماج کے قیام کا موجب بنے گا۔
اس انقلابی منشور کا حصہ اول ''بورژوا اور پرولتاریہ‘‘ معاشرے کا مجموعی جائزہ پیش کرتا ہے۔ منشور کا یہ سب سے طویل اور مضبوط حصہ ہے۔ یہ تاریخ کی ترقی پسند فطرت کے بارے میں مارکس کے نظریہ کو متعارف کراتا ہے۔ یہ سرمایہ دار اور مزدور طبقے کے درمیان رشتے پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس منشور کا دوسرا حصہ اشتراکی نظریے پر اٹھائے گئے اعتراضات اور تنقید کے خلاف کمیونزم کا دفاع کرتا ہے۔ یہ سوشلزم پر عامیانہ قسم کی تنقید اور اعتراضات تھے، جو گاہے اب بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ ان اعتراضات کا نشانہ عام طور پر اوسط درجے کے ذہن رہے ہیں، جو فلسفے، سماجیات اور معاشیات کے پیچیدہ علوم سے زیادہ واقف نہیں۔ حقائق سے متصادم ان عامیانہ اعتراضات میں ایک یہ تھاکہ اشتراکیت سماج میں سستی کو فروغ دیتی ہے۔ یا پھر کمیونزم انفرادیت اور آزادی کو ختم کرتا ہے۔ اشتراکیت معاشرتی سطح پر خواتین اور خاندان کیلئے نقصان دہ ہے۔ ان اعتراضات کے مدلل اور واضح جواب دیے گئے ہیں۔ اس منشور کا تیسرا حصہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ ادب پر بحث کرتا ہے۔ اس کی جڑیں سب سے زیادہ مارکس اور اینجلز کے وقت کی سیاسی صورتحال میں پیوست ہیں۔ اس میں حریف سوشلسٹ یا اشتراکی تحریکوں کا جائزہ لیا جاتا اور یہ واضح کیا جاتا کہ مارکسزم کیوں ان سے بہتر ہے۔ منشور کا چوتھا حصہ مختلف اپوزیشن جماعتوں کے مقابل مارکسی پوزیشن کو واضح کرتا ہے۔ منشور میں کارل مارکس نے یہ معرکہ آرا فقرہ لکھا کہ یورپ پر ایک عفریت منڈلا رہا ہے‘ کمیونزم کا عفریت۔ قدیم یورپ کی تمام طاقتیں اس عفریت سے بچنے کے لیے یکجا ہو گئی ہیں۔ ان میں پوپ، زار، فرانسیسی بنیاد پرست اور جرمن پولیس کے جاسوس سمیت میٹرینچ اور گائزوٹ شامل ہیں۔ اس طرح یورپی طاقتوں نے کمیونزم کی طاقت کا اعتراف کیا ہے ۔ اب وقت گیا ہے کہ کمیونسٹ پوری دنیا کے سامنے کھل کر اپنے خیالات، رجحانات اور مقاصد کو شائع کریں۔ یہ منشور آگے چل کر دنیا میں کئی انقلابات کا موجب بنا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی یورپ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں کئی ممالک میں اس منشور کی بنیاد پر کئی سوشلسٹ انقلاب پھوٹ پڑے۔ آگے چل کر کئی ملکوں میں قومی جمہوری اور عوامی جمہوری انقلاب کی وجہ بھی یہی دستاویز رہی۔ یہ دستاویز پاکستان میں بھی پڑھی جاتی رہی، اس پر مباحثے بھی ہوتے رہے، مگر یہ یہاں کسی بڑی سماجی یا فکری تبدیلی کا باعث نہ بن سکی۔ پاکستان میں سوشلزم کا ڈھنڈورا تو بہت پیٹا گیا، مگر اس کی فکری اور علمی بنیادوں کے سنجیدہ مطالعے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسی کرشماتی شخصیات نے بھی اپنی پارٹی کے منشور میں سوشلزم کو اپنی معیشت قرار دینے کے باوجود عوام کو کبھی یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ سوشلزم آخر ہے کیا، اور یہ ہمارے سماج میں کیسی تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ موجودہ حکومت بھی سوشلزم کا نام لیے بغیر تبدیلی اور سماجی و معاشی مساوات کی بات کرتی، اور اعلان کرتی ہے کہ ہمارے لیے چین کا نظام سب سے بہتر ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ چین کی تیز رفتار ترقی کا راز بھی انیس سو انچاس کا سوشلسٹ انقلاب ہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved