تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-01-2021

سرخیاں، متن اور تازہ غزل

عدم اعتماد کی تحریک پر وزیراعظم
ہائوس میں بھونچال آ گیا: نیّر بخاری
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سید نیّر بخاری نے کہا ہے کہ ''عدم اعتماد کی تحریک پر وزیراعظم ہائوس میں بھونچال آ گیا‘‘ جس کے جھٹکے اب بھی محسوس کیے جا رہے ہیں اور بھونچال کی شدت اس لیے ذرا کم ہے کہ پی ڈی ایم کی باقی جماعتیں اس کی سراسر مخالف ہیں بلکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ اس تجویز سے خود پی ڈی ایم کے اندر ایک بھونچال کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے او یہ اتحاد ٹوٹتا اور بکھرتا نظر آ رہا ہے اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھ رہی ہیں حالانکہ اگر تھوڑی سی بھی معاملہ فہمی ہو تو انہیں یہ شک یقین میں تبدیل کر لینا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے احتساب کے
نعروں کی قلعی کھول دی: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے احتساب کے نعروں کی قلعی کھول دی‘‘ اور مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اب ان نعروں پر قلعی کس طرح کروائی جائے گی کیونکہ ماضی میں تو قلعی کرنے والے گلی محلوں میں ''بھانڈے قلعی کرا لو‘‘ کی آواز لگاتے اکثر نظر آ جاتے تھے، جواب بالکل ہی عنقا ہو کر رہ گئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اب ہمیں ان قلعی اترے نعروں پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا اور حیرت ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں یہ دن بھی دیکھنا پڑ رہے ہیں لیکن احتساب کے نعرے لگانے والوں کے کان پر جُوں تک نہیں رینگ رہی۔ آپ اگلے روز لاہور میں علما کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
ٹانگیں کھینچنے کا رواج ختم ہونا چاہیے: گورنر پنجاب
گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ ''ٹانگیں کھینچنے کا رواج ختم ہونا چاہیے‘‘ کیونکہ ٹانگ کھینچنے اور ٹانگیں کھینچنے میں فرق ہے اور اگر ایک ٹانگ ہی کھینچنے سے مقصد حاصل ہو سکتا ہو تو دونوں ٹانگیں کھینچنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ٹانگیں چلنے کے لیے ہوتی ہیں، کھینچنے کے لیے نہیں، اور یہ ٹانگوں کا سراسر غلط استعمال ہے اور افسوسناک بلکہ تشویشناک امر یہ ہے کہ ملک عزیز میں چیزوں کے غلط استعمال کا رواج بڑھتا جا رہا ہے؛ اگرچہ یہ ایک مجبوری بھی ہے کیونکہ کچھ چیزیں خود ہی اس قدر غلط ہوتی ہیں کہ ان کا غلط استعمال کرنا پڑتا ہے۔ آپ اگلے روز مقامی ہوٹل میں صحت کے سیمینار میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
اوپن بیلٹنگ بل کی حمایت نہیں کریں گے: محمد زبیر
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے کہا ہے کہ ''اوپن بیلٹنگ بل کی کسی صورت حمایت نہیں کریں گے‘‘ کیونکہ اگر آدمی اپنی پسند کی خرید و فروخت ہی نہیں کر سکتا تو کروڑوں اربوں روپے کا کیا فائدہ؟ پی ٹی آئی جیسی جماعت اسی لیے یہ بل پیش کر رہی ہے کہ اس کے پلّے ہے ہی کچھ نہیں اور وہ مفت میں سینیٹرز بنواناچاہتی ہے جبکہ اوپن بیلٹنگ سے کسی شریف آدمی کا پردہ بھی باقی نہیں رہتا ۔اس لیے ایسے بل کی حمایت کرنا حاجت مند لوگوں کے جذبات مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
ہمارا مقصد سسٹم کو درست کرنا اور
کرپشن کا خاتمہ ہے: سینیٹر فیصل جاوید
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ہے کہ ''ہمارا مقصد سسٹم کو درست کرنا اور کرپشن کا خاتمہ ہے‘‘ اگر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن میں کمی کے بجائے اس میں اضافہ ہو رہا ہے اور سسٹم میں بھی کوئی بہتری نہیں آ رہی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کوشش نہیں کر رہے۔ اگر کوشش کا نتیجہ الٹا نکل رہا ہے تو یہ نتیجے کا قصور ہے، ہمارا نہیں اور نتیجے پر انسان کا کچھ اختیار نہیں ہے ، یہ قدرت کی اپنی حکمتیں ہیں اور جو ہوتا ہے‘ بہتری کے لیے ہوتا ہے اور اس میں نقص یا عیب نکالنا قدرت کے کاموں میں مداخلت کے برابر ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
کوئی مجھ پر کرپشن ثابت کر دے
تو گولی مار دی جائے: پرویز خٹک
وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ''کوئی مجھ پر کرپشن ثابت کر دے تو گولی مار دی جائے‘‘ کیونکہ مجھ جیسے شخص کے خلاف اتنی بڑی گستاخی کرنے والے کی سزا گولی ہی ہو سکتی ہے، گولی نہ سہی، وہ عمر قید کا مستحق تو بنتا ہی ہے جبکہ میں نے کوئی اثاثے نہیں بنائے کیونکہ میں اثاثے بنانے والوں کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کیونکہ سیاست کے میدان میں داخل ہونے سے پہلے اس کے آداب بھی سیکھنا چاہئیں جو کہ تنے ہوئے رسّے پر چلنے کے مترادف ہے اور دو چار ماہ کی پریکٹس ہی سے اس فن میں مہارت حاصل کی جا سکتی ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے ملاقات کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں یہ تازہ غزل:
اب اس کو عیب کہو یا ہنر ہمارا ہے
جواب ہے تو یہی مختصر ہمارا ہے
کیا نہیں کبھی اس پر غرور بھی ہم نے
کمالِ بے اثری ہی اثر ہمارا ہے
ہم اپنے پائوں کی مٹی بھی چھوڑتے نہیں، اور
رواں دواں یونہی پھر بھی سفر ہمارا ہے
اٹھائے پھرتے ہیں کاندھے پر اس کو شام و سحر
قیام اسی میں ہے آخر کہ گھر ہمارا ہے
جڑا ہوا وہ کہیں اور ہے تو کیا کیجے
ہمیں بہت ہے کہ وہ جس قدر ہمارا ہے
ہم اس پہ خود نہیں چلتے کہ چل نہیں سکتے
ہر ایک حال میں یہ رہگزر ہمارا ہے
ابھی نہیں کوئی تقسیم اس علاقے کی
اُدھر بھی آپ ہی کا ہے جدھر ہمارا ہے
اس ایک شرط پہ چلتا ہے کاروبار اپنا
کہ نفع اور کسی کا، ضرر ہمارا ہے
ہم اپنے دل کی، ظفرؔ، مانتے نہیں اکثر
سو، غور کیجیے، یہ بھی جگر ہمارا ہے
آج کا مطلع
آ رہا ہوں تری جانب جو جھجکتا ہوا میں
کبھی اپنے بھی قریب آئوں سرکتا ہوا میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved