عالمی بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹل منٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ICSID) نے جب آسٹریلیا کی ٹیتھیان (Tethyan) کاپر کمپنی کے حق میں دیے گئے فیصلے میں حکومت پاکستان پر 6 بلین ڈالر جرمانہ عائد کیا تو یہ خبر گردن تک قرض میں ڈوبے ہوئے ملک کے ہر شہری کو ہلا کر رکھ گئی۔ بے خبر لوگ شاید نہیں جانتے کہ آئی ایم ایف سے ملنے والے 6 ارب ڈالر قرض کے برابر جرمانہ پاکستان کے وجود پر کسی خوفناک حملے سے کم نہیں۔ کاش کہ کوئی اعلیٰ اختیاراتی کمیشن 1993ء سے اب تک ریکوڈک پروجیکٹ کے ذمہ داروں اور اس کے کنٹریکٹ منسوخ کرانے والے تمام پس پردہ ہاتھوں کو تلاش کر کے عوام کے سامنے لائے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے ہر مجرم کو اس کے جرم کے مطابق عبرت کا نشان بنا دے۔ انسان اپنی ذات یا خاندان کے خلاف کی گئی زیادتی اور نقصان کو تو برداشت کر سکتا ہے لیکن جب پائوں پائوں چلتے اس مقروض ملک کی ہڈیوں سے گودا نکال کر فروخت کرنے والے ذمہ داروں کو دندناتے دیکھتا ہے تو اس کا صبر جواب دے جاتا ہے لیکن ان حالات پر وہ سوائے کڑھنے کے کر بھی کیا سکتا ہے؟
پاکستان کے اندر تو ہر سڑک‘ ہر پل اور ہر ادارہ آئی ایم ایف کے پاس گروی پڑا ہے‘ مزید ستم یہ کہ دنیا بھر میں موجود اپنے قومی اثاثے بھی اب اس کے اپنے نہیں رہے۔ ریکوڈک کی صورت میں وطن کو آکسیجن مہیا کرنے کی آس دلائی گئی اور اس حوالے سے تین چار دہائیوں سے نجانے کیا کیا خواب دیکھے گئے۔ جب یہ رپورٹ آئی کہ 130 بلین ڈالر تک کے سونے اور تانبے کے ذخائر ریکوڈک اپنے اندر سمائے ہوئے ہے تو سب نے مستقبل کے سہانے خواب دیکھنا شروع کر دیے‘ ملک کو قرضوں کی دلدل سے باہر نکلتا دیکھا جانے لگا اور عالمی ساہوکاروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے نجات ملنے کے مناظر آنکھوں میں سمانے لگے لیکن پھر نجانے کیا ہوا‘ کس آسیب کا سایہ اس وطن عزیز کی قسمت پر پڑا کہ ریکوڈک پر کام کرنے والی دنیا کی تمام کمپنیوں کے ہاتھ پائوں باندھ کر وہ تمام خواب کسی اندھی کھائی میں دھکیل دیے گئے۔
اس حوالے سے ملک و قوم سے کس نے جفا کی‘ اس کے لیے 30 جون 2014ء کو روزنامہ دنیا کے بیک پیج پر شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں جس کے مطابق ''ارسلان افتخار چودھری کو بلوچستان کے سونے کی رکھوالی بھی سونپ دی گئی، واضح رہے یہ وہی سونے کی کانیں ہیں جن کے مختلف کمپنیوں کو دیے جانے والے حکومتی کنٹریکٹس افتخار چودھری نے بحیثیت چیف جسٹس سو موٹو لیتے ہوئے منسوخ کر دیے تھے اور اب ارسلان افتخار کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ اس سونے کیلئے بیرونی سرمایہ کار تلاش کریں‘‘۔ واضح رہے کہ جاتی امرا سے ملنے والے خصوصی حکم پر اس وقت بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک نے ارسلان افتخار کو بورڈ آف انویسٹمنٹ بلوچستان کا وائس چیئر مین مقرر کرتے ہوئے یہ کام انہیں سونپا تھا۔ ریکوڈک کا علاقہ‘ جسے Sandy Peak بھی کہا جاتا ہے‘ ایک عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا کے پانچویں بڑے سونے کے ذخائر کا حامل ہے۔
جب مذکورہ تقرری کی گئی تو اس وقت موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بہاولپور میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ''چیف صاحب آپ اپنے بیٹے کو نواز شریف سے وائس چیئرمین مقرر کرا کر بہت سستے میں بکے ہیں‘‘۔ افتخار چودھری کے دور میں لیے گئے سوموٹو نیویارک میں پاکستان کی پہچان روز ویلٹ ہوٹل، فرانس میں ہوٹل اور ورجن آئی لینڈ میں پی آئی اے کے چالیس فیصد شیئرز ضبط کرا چکے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کے علاوہ امریکا اور برطانیہ سمیت کچھ یورپی ممالک میں ہمارے سفارت خانوں کی عمارتیں بھی اس دور کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھ کر ضبط کی جا چکی ہیں۔
آسڑیلوی کمپنی نے ریکو ڈک کنٹریکٹ کی افتخار چودھری کے حکم سے ہونے والی منسوخی کے بعد ریاستِ پاکستان کے خلاف معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر عالمی عدالت میں درخواست دائر کر دی اور گزشتہ ماہ آسٹریلوی کمپنی کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے عالمی عدالت نے پاکستان پر چھ بلین ڈالر جرمانہ عائد کر دیا اور اس کی ادائیگی کی ضمانت کے طور پر پاکستان کے اثاثے ضبط کرا دیے۔ واضح رہے کہ یہ جرمانہ آئی سی ایس آئی ڈی کے ذریعے جاری کیا جانے والا اب تک کا دوسرا سب سے بڑا جرمانہ ہے اور یہ پاکستان کی سالانہ مجموعی ملکی پیداوار کا 2 فیصد اور مجموعی لیکویڈ فارن ایکسچینج کا 40 فیصد ہے۔ یہ ہے تیزاب کا وہ چھینٹا جس نے پاکستان کے پہلے سے کمزور اور بیمار جسم کو جگہ جگہ سے جلا کر رکھ دیا۔ حیرانی کی بات ہے کہ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں مسلم لیگ نواز کے ترجمان محمد زبیر ریکوڈک پر عائد کئے جانے والے جرمانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ افتخار چودھری کے فیصلے اس ملک اور اس کے عوام کو مدتوں رلاتے رہیں گے۔ تیزاب کا دوسرا بڑا چھینٹا پاکستان سٹیل مل کراچی کی تباہی کی صورت میں اس وطن عزیز کے جسم کو اس طرح جھلسا گیا کہ اس سے وابستہ ملازمین اور کاروباری حضرات کے ہزاروں خاندان اور لاکھوں لوگوں کا وسیلہ روزگار تار تار کر گیا۔ اعتزاز احسن کے 2014ء میں کہے گئے یہ الفاظ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں کہ افتخار چودھری، الیکشن کمیشن اور نون لیگ سب ایک پیج پر ہیں۔سٹیل مل کا قصہ یہ ہے کہ مئی 2006ء میں ایک عرب ملک کے ایک بہت بڑے صنعتی گروپ نے پاکستان سٹیل مل کے 75 فیصد حصص کی نجکاری کیلئے 362 ملین ڈالر کی سب سے زیادہ بولی لگاتے ہوئے 21.6 ملین ڈالر حکومت پاکستان کے خزانے میں جمع کرا دیے‘ اس طرح کراچی سٹیل مل کی زمین کے بغیر سٹیل مل کراچی کو 13 ملین ڈالر منافع پر بیچنے کی تیاریاں کر لی گئیں۔ اس صنعتی گروپ‘ جو کراچی سٹیل مل کے حصص خرید رہا تھا‘ نے روس کے ساتھ بھی ایک معاہد ہ کیا کہ وہ پاکستان میں ایک نئی سٹیل مل لگائے گا‘ اس سلسلے میں روسی کمپنی کے لوگ کراچی میں آ گئے اور اس گروپ نے نئی سٹیل مل کیلئے بھی ملکی بینکوں میں کروڑوں ڈالر جمع کرا دیے لیکن جیسے ہی افتخار چودھری نے سٹیل مل کی نجکاری کے خلاف فیصلہ سنایا تو اگلے ہی لمحے اس صنعتی گروپ نے اپنی تمام جمع پونجی پاکستانی بینکوں سے نکال لی۔ صدر مشرف نے اس گروپ کے چیئرمین کو کئی فون کئے کہ ہم ریویو پٹیشن سے معاملات سلجھا رہے ہیں لیکن اس کا کہنا تھا: جناب اب گیم آپ کے ہاتھ نکلنے والی ہے‘ آپ اپنا بچائو کیجئے۔
وہ دن اور آج کا دن‘ سٹیل مل سے وابستہ ہزاروں خاندان افتخار چودھری کے ایک فیصلے کے سبب غربت اور فاقہ کشی کا شکار چلے آ رہے ہیں اور ان پر سب سے بدترین وقت وہ ہوتا ہے جب انہیں کئی کئی ماہ تک تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں۔ گزشتہ پندرہ برسوں سے ہر چند ماہ بعد وزارتِ خزانہ کی طرف سے کئی کئی ارب روپے کا پیکیج دیا جاتا ہے جس سے انہیں تنخواہوں کی ادائیگیاں کی جاتی ہیں‘ اب تحریک انصاف کی حکومت نے ان ملازمین کیلئے گولڈن شیک ہینڈ کی سکیم متعارف کرائی جس پر وہ سیاسی جماعتیں اور لسانی ٹولے‘ جنہوں نے افتخار چودھری کو کاندھوں پر اٹھایا ہوا تھا‘ حکومت کو مزدور دشمن اور غریب دشمن ثابت کرنے کے لیے بے تاب نظر آنے لگے۔ وہ سٹیل مل جسے 360 ملین ڈالر میں فروخت کیا جا رہا تھا‘ کو ایک میڈیا ہائوس اور افتخار چودھری کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے یہ کہہ کر جہنم میں جھونک دیا گیا کہ جس قیمت میں یہ سٹیل مل بیچی جا رہی ہے‘ اس سے زیادہ تو اس زمین کی قیمت ہے۔پس پردہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا نہیں چاہتا تھا کہ روس ایک نئی سٹیل مل کی تنصیب کیلئے مذکورہ صنعتی گروپ کی معاونت کرنے کیلئے اپنے فنی ماہرین پاکستان بھیجے۔ 2006ء سے اب تک پاکستان سٹیل مل کس قدر نقصان میں گئی‘ کتنے کھرب روپے اس بند سٹیل مل کے اخراجات اور اس کے ہزاروں ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگیوں پر خرچ ہوئے‘ ان سب کا حساب کون لے گا؟