تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     31-01-2021

کرپشن میں اضافہ

کرکٹ، کرپشن، اور عمران خان تین ایسے الفاظ ہیں، جنہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ کرکٹ نے خان صاحب کو عالمی شہرت دی، وہ ایک عظیم کپتان کے طور پر اب تک یاد رکھے جا رہے ہیں۔ دُنیا بھر کے کرکٹ لورز اب بھی اِس حوالے سے اپنا ووٹ ان کی نذر کرنے کو تیار پائے جاتے ہیں، ایک حالیہ بین الاقوامی سروے اس کا تازہ ترین ثبوت بھی فراہم کر چکا ہے۔ کرپشن کے خلاف مہم کو وہ اپنی زندگی کا مقصد نہ بناتے، تو سیاست کے میدان میں قدم رکھ پاتے، نہ تحریک انصاف کی بنیاد رکھی جاتی، اور نہ ہی وہ آج وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوتے۔ کرکٹ سے فراغت کے بعد، انہوں نے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر کیلئے خود کو وقف کر دیا۔ خالی ہاتھ گھر سے نکلے، اور نہ صرف ہسپتال بنا کر بلکہ اسے چلا کر بھی دکھا دیا۔ پاکستانی قوم اربوں روپے ان پر نچھاور کر چکی ہے۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی با وسیلہ گھرانا ایسا ہو جس نے کسی نہ کسی طور خان صاحب کا ہاتھ نہ بٹایا ہو۔ شوکت خانم کے کرشمے ہی نے ان کی مسیحائی کا لوہا منوایا، اور اہلِ وطن کی ایک بڑی تعداد اپنے دُکھوں کے مداوے کیلئے ان کی طرف دیکھنے لگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا سکّہ بھی خدمت خلق کے میدان میں چلتا ہے۔ لوگ اسے قربانی کی کھالوں کا اولین مستحق سمجھتے، اور اس کی جھولی عطیات سے بھرتے چلے جاتے ہیں۔ آج بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد یقین رکھتی ہے کہ رفاہی کاموں کے لیے جماعت اسلامی کو دیا جانے والا روپیہ تو کیا ایک پیسہ بھی ضائع نہیں ہوتا۔ جب بھی کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے، کسی آفت کا سامنا ہوتا ہے، جماعت اسلامی کے کارکن دیوانہ وار گھروں سے نکلتے، اور سر دھڑ کی بازی لگا کر چوٹوں کو سہلاتے چلے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی برسوں سے قائم اس کریڈیبلٹی نے اس کے ووٹوں میں البتہ کوئی اضافہ نہیں کیا۔ اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیا جائے تو اس کے ووٹ بینک میں کمی آتی چلی گئی ہے۔ جماعت اسلامی کی کریڈیبلٹی میں کمی نہیں ہوئی، تنظیمی صلاحیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، کارکنوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے، لیکن ووٹوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہو پا رہا۔ گویا، اس کے مداح اس کو سیاست کے بجائے خدمت کی چیز سمجھتے ہیں، اپنی قیادت اس کے سپرد کرنے کو اب تک تیار نہیں ہو پائے۔ یہ اور بات کہ جماعت اسلامی کے سکّہ بند حامی اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب تک سیاست کے میدان میں بھی لوگ اپنی باگ ڈور جماعت کے سپرد نہیں کریں گے، وہ ''گڈ گورننس‘‘ کے ذائقے سے محروم رہیں گے کہ تربیت یافتہ کارکنوں کو کام میں لائے بغیر ایوانوں میں قدم رکھنے والے نمک کی کان میں نمک تو بن جاتے ہیں، کوئی تبدیلی لا نہیں پاتے۔ جماعت اسلامی کے برعکس معاملہ عمران خان کے ساتھ ہوا۔ شوکت خانم ہسپتال نے انہیں ایک ایسے سماجی اور رفاہی رہنما کے طور پر منوایا، جسے ووٹ کا مستحق بھی سمجھ لیا گیا۔ یہ مرحلہ برسوں کی جدوجہد کے بعد آیا، لیکن بہرحال آیا، اور اب خان صاحب اسی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کو ماش کی جو دال راس نہیں آئی، خان صاحب کو وہ کیسے گھی ہو کر لگی، یہ تحقیق و جستجو کا ایک الگ موضوع ہے، جس پر خان صاحب کو تو غور کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن جماعت اسلامی کا کام اس کے بغیر نہیں بن سکتا، اسے بہرحال اور بہرطور اس پر غور کرنا چاہیے۔
عمران خان نے جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو اُس وقت ایک انتخابی سیاسی جماعت کے طور پر اس کا تعارف نہیں کرایا گیا‘ اسے کرپشن کے خلاف ایک غیرجماعتی پلیٹ فارم قرار دیا گیا۔ کسی بھی جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر اسے ملک میں انصاف کا بول بالا کرنے کی کوشش کرنا تھی، اور کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والا اس کے ایجنڈے سے متفق ہوکر اس کا ساتھ دے سکتا تھا۔ یہ اور بات کہ، تھوڑے ہی عرصے بعد اسے انتخابی جماعت کے قالب میں ڈھالنے والے کامیاب ہو گئے، اور کسی تیاری کے بغیر 1997ء کے انتخابی اکھاڑے میں دھکیل دیا۔ گزشتہ دو عشروں سے خان صاحب کی زبان سے جو لفظ سب سے زیادہ ادا ہوا ہے، وہ کرپشن ہی ہے۔ کرکٹ کے بعد کرپشن ان کی ''اکلوتی محبت‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے وہ دن رات ایک کیے رہتے ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے اسے صلواتیں سناتے ہیں، اور اپنے ہر مخالف میں کرپشن ڈھونڈنے کی کوشش میں مبتلا رہتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈرکے طورپر انہوں نے مسلسل یہ گردان جاری رکھی کہ اگرلیڈر کرپٹ نہ ہوتو کرپشن کا خاتمہ چٹکیاں بجاتے ہو سکتا ہے۔ ایماندار لیڈر وزیراعظم بنے گا، تو اوپر سے نیچے تک لوگ ایمان میں ہاتھ ''رنگنے‘‘ لگ جائیں گے، اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کے چہرے نورانی ہو جائیں گے، لیکن خان صاحب کے اقتدار کو دو برس سے زیادہ ہو چکے، کرپشن نہ صرف موجود ہے، بلکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق بڑھ گئی ہے۔ دُنیا کے 180 ممالک میں بدعنوانی کے تاثر (پرسیپشن) کے بارے میں جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان چار درجے نیچے گر گیا ہے۔ پاکستان 180 ممالک میں 124ویں درجے پر آ چکا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس کا سکور 32 سے کم ہو کر 31 رہ گیا ہے۔ گزشتہ سال جاری ہونے والی رپورٹ میں پاکستان 180 ممالک کی فہرست میں 120ویں درجے پر تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اس ''ایٹمی دھماکے‘‘ نے درودیوار تو ہلانا ہی تھے، لیکن اس کے اسباب کا جائزہ لینے کے بجائے جناب وزیراعظم نے آسان حل یہ نکالا کہ اسے گزشتہ حکومت کے کھاتے میں ڈال دیاکہ یہ رپورٹ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے اعدادوشمار پر مبنی ہے۔ ان کا یہ بھی فرمانا تھا کہ انگریزی سے جب اُردو میں ترجمہ ہو گا تو نون لیگیوں کو لگ پتہ جائے گا۔ وزیراعظم کے معاونِ برائے سیاسی رابطہ کاری ڈاکٹر شہباز گل بھی فوراً حرکت میں آئے، اور پی ڈی ایم کے رہنمائوں کو للکار کر رپورٹ ان کی جھولی میں ڈال دی۔ مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان بھی پریس کانفرنس میں یہی دعویٰ کر گزرے۔ برادرم شہباز گل نے تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک پرانی رپورٹ کے سکرین شاٹس بھی اپنے ٹویٹر پر پوسٹ کر دیئے، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس ادارے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پرانا ڈیٹا استعمال کیا ہے۔ ان کی پی ایچ ڈی، اس طرح ان کے اور پوری قوم کے کام آ رہی تھی کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بی بی سی کو بتا دیاکہ استعمال ہونے والا ڈیٹا 2019ء اور 2020ء کا ہے ؎
شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے، وہی مال ندارد
جناب وزیراعظم پر لازم ہے کہ وہ اپنا نہیں تو اپنے رفقا کا سر بلکہ گریبان پکڑ کر بیٹھیں، انتخابی مہم کے ماحول سے باہر نکلیں، اور الفاظ کی نہیں اقدامات کی گولہ باری کریں۔ محض حریفوں کو نشانہ بنانے سے کام نہیں چلے گا۔
حافظ سلمان بٹ مرحوم
جماعت اسلامی کے ایک شعلہ صفت رہنما حافظ سلمان بٹ دِل کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ انہوں نے ایک طالبعلم کے طور پر اور پھر جماعت اسلامی کے پُرجوش کارکن کے طور پر اپنا نقش جمایا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں علامہ اقبالؒ کے داماد اور لاہور کے ایک ممتاز سیاسی خاندان کے چشم و چراغ میاں صلاح الدین (عرف صلی) کو شکست دی۔ ان کا اندازِ خطابت، حالات پر رواں تبصرہ اور عوام سے گہرا رابطہ اُنہیں ممتاز کرتا چلا گیا۔ فٹ بال فیڈریشن کے روح رواں تھے، ریلوے کی مزدور یونین کی قیادت بھی کی، انہیں تادیر یاد رکھا جائے گا، اور جماعت اسلامی کے نوجوان ان کے تذکرے سے ولولۂ تازہ حاصل کرتے رہیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved