تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     31-01-2021

کاروباری اخلاقیات

ملکِ عزیز میں ہر آدمی دوسرے کا رونا رو رہا ہے۔ ہر کام سرکار کے ذمے ڈال کر ہر شخص اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جاتا ہے اور ہر بندہ دوسرے کی خرابی بتا کر اپنی ساری خامیوں کو پاک صاف کر لیتا ہے۔ بظاہر یہ چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جو ہماری اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ میں نے ڈرائیور کو بھیجا کہ جا کر ایک دکان سے کشمیری چائے کی پتی لے آئے۔ سردیوں میں کشمیری چائے کی علت کی ذمہ داری شاہ صاحبان پر عائد ہوتی ہے۔ سید عطااللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے سید کفیل بخاری سے دوستی تھی جو ہوتے ہوتے اس کے چھوٹے بھائی سید ذواکفل بخاری مرحوم تک آن پہنچی۔ متواضع خاندان کا چشم و چراغ سال میں دو تین بار ناشتے کا اہتمام کرتا اور دوستوں کو مل بیٹھنے کے ساتھ ساتھ سردیوں میں کشمیری چائے اور باقر خانیوں کے مزے بونس میں ملتے۔ ظاہر ہے صرف سال میں ایک آدھ کشمیری چائے والے مکمل ناشتے سے تو کام نہیں چلتا تھا، ہفتے ڈیڑھ ہفتے بعد ان کے ڈرائنگ روم میں چھوٹی سی منڈلی جم جاتی اور کشمیری چائے چلتی۔
کشمیری چائے کا چسکا پڑا تو شاہ صاحبان سے اس کے فارمولے اور دستیابی کا مطالبہ داغ دیا‘ بلکہ کہا کہ پورا نسخہ ترکیب تیاری وغیرہ فراہم کیا جائے۔ ایک کاغذ پر سارا طریقہ کار اور ایک لفافہ قہوے کی پتی کا ہمارے ہاتھ میں تھما دیا گیا۔ نسخہ ترکیب تیاری برائے کشمیری چائے تو آئندہ کے لیے ازبر کر لیا لیکن قہوہ زیادہ دن نہ چلا۔ جب اس کی جائے فراہمی کے بارے استفسار کیا تو کفیل بخاری نے گھر سے قہوے کی پتی اٹھائی اور ہمارے ہاتھ میں پکڑا دی۔ یہ سلسلہ تقریباً دو سال چلا پھر میں نے تنگ آکر ان کی بیٹھک میں دھرنا دے دیا اور کہا کہ اب اس پتی کا تحفہ نہیں، بلکہ دکان کا پتا درکار ہے وگرنہ میں یہاں سے ہلنے والا نہیں، بصد مشکل کفیل بخاری نے بتایا کہ ویسے تو یہ قہوہ ملتان میں بھی ایک دو جگہوں سے دستیاب ہے‘ لیکن ہم اسے انصاری ٹی کمپنی لاہور سے منگواتے ہیں۔ میں نے پتا لیا اور کشمیری چائے کی پتی کی لاہور سے سپلائی شروع ہو گئی۔ لاہور میٹرو بننا شروع ہوئی تو فیروزپور روڈ کی کشادگی کے دوران کشمیری چائے کے پتی کی یہ دکان اس کی زد میں آ گئی اور قہوے کی پتی مجبوراً ملتان سے ہی لینا پڑ گئی۔ دکاندار نے پتی تول کر لفافے میں ڈالی اور ڈرائیور کو پکڑا دی۔ گھر آ کر دیکھا تو اس پتی کی شکل بالکل مختلف تھی۔ بہرحال چیک کرنے کی غرض سے تھوڑی سی پتی کا قہوہ بنا کر رنگ نکالنے کی کوشش کی تو نتیجہ صفر نکلا۔ اب دوبارہ واپس کرنے کی غرض سے دکاندار کے پاس گیا تو اس نے واپس لینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ خریدا ہوا مال واپس نہیں ہوگا۔ میں نے کہا: خواہ آپ مجھے غلط پتی ہی کیوں نہ دے دیں؟ آگے سے کہنے لگا: آپ کو قہوہ بنانا ہی نہیں آتا۔ آپ اس میں گلابی رنگ ڈالیں گے تو رنگ بنے گا۔ ویسے کس طرح گلابی رنگ نکل سکتا ہے؟ میں نے کہا: بندۂ خدا! میں اس چائے کا قہوہ گزشتہ کئی سال سے بنا رہا ہوں۔ وہ آگے سے کہنے لگا: اور میں کئی سال سے فروخت کر رہا ہوں۔ میں نے لفافہ واپس اٹھایا اور اسے کہا: اچھا کوئی بات نہیں۔ اب آپ سے کنزیومر کورٹ میں ملاقات ہو گی۔ اس نے جھپٹ کر لفافہ میرے ہاتھ سے واپس چھینا اور قہوے کے پیسے واپس مجھے پکڑاتے ہوئے کہا‘ بابو جی! غلطی بے شک ساری آپ کی ہے اور آپ کو قہوہ خود بنانا نہیں آتا۔ یہ ملتان کا سب سے اچھا سبز چائے کا قہوہ ہے‘ لیکن پھر بھی میں واپس لے رہا ہوں۔ اب بھلا اس سے کیا بحث کی جاتی، جسے سبز چائے اور کشمیری چائے کی پتی میں فرق کا علم تک نہیں تھا۔
دوسرا واقعہ نیلا گنبد میں پیش آیا۔ مجھے Edema کا مسئلہ درپیش ہے۔ زیادہ دیر پائوں لٹکائے رکھوں تو پائوں اور ٹخنے سوج جاتے ہیں۔ لمبے سفر میں اس سے بچائو کی غرض سے اس مقصد کے لیے خاص جرابیں ہوتی ہیں جو عام دکانوں سے دستیاب نہیں بلکہ سرجیکل کا سامان فروخت کرنے والوں کے ہاں ملتی ہیں۔ نیلا گنبد میں ایک جگہ سے خریدیں۔ یہ تب ایک ہزار روپے میں ملی تھیں۔ دکاندار نے رسید کاٹنے کے بعد اس پر مہر لگائی جس پر لکھا تھا کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ یہ دنیا بھر میں رائج دکانداری اور کاربار کے اصولوں کے بالکل منافی اور برعکس ہے لیکن اتنے بڑے نام والے سرجیکل سٹور نے بڑے دھڑلے سے رسید پر مہر لگا کر فروخت کیے گئے سامان کی واپسی یا تبدیلی کے میرے حق کو یکسر ختم کر دیا۔ یہاں کسی کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔
برسوں پرانی بات ہے‘ میں برطانیہ میں تھا۔ میں نے وہاں ایک سٹور ٹی کے میکس سے ایک شرٹ خریدی اور اسے اپنے بیگ میں رکھ لیا۔ تقریباً بارہ پندرہ روز بعد میں مانچسٹر سے گلاسگو گیا اور وہاں دو چار دن گھوم پھر کر واپس مانچسٹر آنے لگا تو میرے ایک عزیز نے‘ جو تب گلاسگو ہوتا تھا‘ مجھے ایک گفٹ پیک دیا۔ میں اسے اپنے ساتھ مانچسٹر لے آیا۔ دو چار دن بعد جب اسے کھول کر بیگ میں رکھنا چاہا تو دیکھا یہ ایک شرٹ تھی، لیکن حیرانی اس بات کی ہوئی کہ یہ شرٹ ہوبہو ویسی تھی جیسی میں نے خریدی تھی۔ سائز، کمپنی اور ڈیزائن، حتیٰ کہ بنیادی رنگ بھی وہی تھا؛ تاہم صرف شیڈ کا فرق تھا۔ یہ شاید ایسا اتفاق تھا جو لاکھوں میں ایک بار ہی ہو سکتا ہے‘ میرے ساتھ ایسا ہی ہوا۔
اگلے روز میں اپنی مانچسٹر سے خریدی گئی شرٹ اسی سٹور میں واپس کرنے چلا گیا کیونکہ میرے پاس اس شرٹ کی رسید موجود تھی۔ کائونٹر پر کھڑی خاتون نے بلا کسی ردوکد کے اس شرٹ کی واپسی اور رقم کی واپسی کی کارروائی شروع کر دی۔ اسی دوران وہ مجھ سے پوچھنے لگی کہ آپ یہ شرٹ کیوں واپس کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس نے یہ سوال ساری کارروائی شروع کرنے کے بعد کیا۔ پھر کہنے لگی: آپ مجھے وجہ بتانے کے پابند ہرگز نہیں؛ تاہم میں یہ صرف اس لیے پوچھ رہی ہوں کہ اگر آپ کو ہماری اس شرٹ میں کوئی نقص نظر آیا ہے یا کوئی خرابی محسوس ہوئی ہے تو ہم آئندہ اس کی اصلاح کر سکیں۔ میں نے کہا:ایسی کوئی بات نہیں‘ میں اسے صرف اس لیے واپس کر رہا ہوں کہ مجھے تحفے میں بالکل اس جیسی ایک اور شرٹ مل گئی ہے اور میرے لیے ایک جیسی دو شرٹس رکھنے کا کوئی منطقی جواز نہیں، اس لیے اس کو واپس کر رہا ہوں۔ خاتون نے اس گفتگو کے دوران واپسی کا عمل مکمل کرتے ہوئے مبلغ بائیس پونڈ میرے ہاتھ پر رکھے اور ایک خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دن اچھا گزرنے کی دعا دی اور دوسرے گاہک کی طرف متوجہ ہو گئی۔
تجارت اور کاروبار کے بارے میں میرے آقا اور رحمت اللعالمین حضرت محمدﷺ نے جو باتیں تاکید کے ساتھ ہمیں کہی تھیں، ہم اس پر عمل کرنے سے انکاری ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ جو ایمان سے محروم اور آقائے دو جہانﷺ کی تعلیمات کے منکر ہیں کاروباری اخلاقیات کے اس درجے پر فائز ہیں، جن پر مجھے عمل کرنا چاہیے اور ان کی پابندی کرنی چاہیے۔ خراب شے کو آنکھ بچا کر گاہک کے تھیلے میں ڈالنا، کم تولنا، گراں فروشی کرنا، گاہک کی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کا استحصال کرنا‘ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو آج ہمارے روزمرہ کے کاروبار کا حصہ بن چکی ہیں۔ عام دن تو رہے ایک طرف، رمضان کے مبارک مہینے میں جو لوٹ مار مچتی ہے، اس کی مثال شاید ہی دنیا میں کسی اور معاشرے میں نظر آتی ہو۔ ایک طرف عالم کفر کرسمس، بلیک فرائیڈے اور باکسرز ڈے پر حقیقی سیل لگا کر اپنے معاشرے میں اعلیٰ کاروباری اخلاقیات کا ثبوت دے رہا ہے، دوسری طرف ہمارا حال کیا ہے؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں، تمام قارئین بھی روزانہ اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں، بھلا میرے ساتھ کون سا خصوصی سلوک ہو رہا ہے، جس سے دوسرے بچے ہوئے ہوں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved