تاج محل کی مرکزی عمارت زمین سے240 فٹ بلند ہے، یعنی قطب مینار دہلی سے بھی تین فٹ بلند۔ مقبرے کی عمارت ایک چوکور چبوترے پر قائم ہے جس کے چاروں کونوں پر بلند مینار ہیں۔ چالیس میٹر بلند یہ مینار قصداً 137 فٹ کے فاصلے پر رکھے گئے اور انہیں پیازی شکل کے مرکزی گنبد سے نیچا رکھا گیا تاکہ مقبرے کی اصل عمارت نمایاں رہے۔ یہ مینار معمولی یعنی دو ڈگری باہر کی طرف جھکے ہوئے بنائے گئے ہیں۔ یہ مغلوں کا خاص طریقہ تھا اور اس کا مقصد یہ تھاکہ زلزلے کی صورت میں مینار اصل مقبرے پر نہ گریں۔ لاہور میں جہانگیر کے مقبرے پر جائیں تو وہاں بھی آپ کو مینار معمولی سے باہر کی طرف جھکے ہوئے نظر آئیں گے۔
مغلوں کے عام رواج کے مطابق اصل قبریں تہہ خانے میں ہیں جہاں تک عام آدمی کی رسائی نہیں جبکہ ان کے ٹھیک اوپر ہشت پہلو ایوان میں بناوٹی قبریں بنائی گئی ہیں۔ دونوں مصنوعی قبریں قیمتی پتھروں اور ننانوے اسماء الحسنیٰ سے مزین ہیں اور ہر سمت میں جھجھریاں (مرمر کی جالیاں) ان تک روشنی اور ہوا پہنچاتی ہیں۔
خطاطی کو دیکھیے تو بس دیکھتے رہیے۔ لفظ کاغذ پر لکھے گئے۔ پھر پتھر پر اتارے گئے۔ پھر سنگ تراشوں نے ان لفظوں کی شکل میں سنگ مرمر کو کھودا اور جڑاؤ کاروں نے سنگ سیاہ روشنائی کی صورت میں بھر دیا۔ ویسے تو دروازوں اور محرابوں پر بھی کمال کی خطاطی ہے‘ لیکن اس میں مزید کمال یہ ہے کہ خطاط کو معلوم تھاکہ بلند دروازے کی اونچائی پر لکھا ہوا لفظ چھوٹا دکھائی دے گا؛ چنانچہ وہ نیچے سے اوپر کی طرف غیر محسوس طریقے سے ان حروف اور الفاظ کو بڑا کرتا گیا‘ اس لیے سامنے کھڑے ہوئے شخص کو اپنے قریب لکھا ہوا الف جس سائز کا نظر آرہا ہے‘ اسی سائز کا الف چالیس فٹ بلندی پر بھی نظر آتا ہے۔ میں مقبرے کے اندر جنوبی محراب میں امانت خان شیرازی کے دستخط اور تاریخ رقم دیکھ رہا تھا، 1045 ہجری۔ یہ وہ فنکار ہے جس نے نہ حرف کی خوبصورتی میں فرق آنے دیا اور نہ تناسب کے حسن میں۔
تناسب اور موزونیت تاج محل پر ختم ہے۔ مقبرے کے دونوں طرف مسجد اور مہمان خانہ یکساں نقشے پر اور سنگ سرخ سے بنائے گئے تاکہ سنگ مرمر اور نمایاں ہو۔ پانی کی نکاسی کے لیے ستاروں کی شکل والے سوراخ جو توجہ نہ دلائی جائے تو نظر بھی نہیں آتے، پرنالوں کا کام کرتے ہیں۔ 300 میٹر لمبا اور 300 میٹر چوڑا باغ چار یکساں قطعات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ چار کا عدد بھی معنی خیز ہے۔ پختہ بلند راستے ان قطعات کو 16 پھولوں کے تختوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ایک تختے میں 400 پودے لگائے گئے۔ درمیان میں فوارے اور نہریں جاری ہوتی ہیں۔ یہ باغ سکون، ٹھنڈک بخشنے اور تاج محل کے بھرپور نظارے کے لیے بہشت مثال ہے۔
مہمان خانے کے ذکر سے ایک اور بات یاد آئی۔ معمار کو اعتماد تھاکہ پوری عمارت پتھر سے بنائی گئی ہے اور صدیوں قائم رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے؛ تاہم مرکزی عمارت میں ایک چیز پتھر کی نہیں دھات کی ہے اور وہ ہے بڑے گنبد کا کلس یعنی (Finial)۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ اس کلس کا قد کیا ہے؟ اونچائی پر نصب ہونے کی وجہ سے چھوٹا لگنے والا یہ کلس تیس فٹ لمبا ہے۔ ایک چوتھائی ٹن وزنی یہ کلس پیتل کا ہے۔ روایت ہے کہ یہ کلس ابتداً خالص سونے سے ڈھالا گیا تھا۔ معمار کو فکر ہوئی کہ یہ دھاتی کلس مستقبل میں خراب ہو گیا تو دوبارہ کیسے بنے گا؛ چنانچہ اس نے مہمان خانے کے قریب فرش پر اس کلس کا پورا سائز نقشے کے مطابق بنادیا۔ دیکھیے اور معمار کی فکر کو داد دیجیے۔
تاج محل کے فنّی عجائبات بہت سے ہیں‘ جن میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے رنگ اور روپ بدلتا رہتا ہے۔ سورج طلوع ہوتا ہے تو یہ ہلکے گلابی رنگ کا دکھائی دینے لگتا ہے۔ سورج بلند ہوتا جاتا ہے اور مقبرہ سفید برّاق ہوتا جاتا ہے۔ دن بھر سنگ مرمر کی نقرئی چھوٹ اطراف کو چاندی کرتی ہے۔ دن ڈھلے سورج کی ترچھی کرنوں میں یہ نارنجی رنگ اختیار کرتا ہے جو سورج ڈوبنے کے ساتھ ہلکے شفق رنگ میں تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ پورے چاند کے سیمیں سحر میں تاج محل چاندی اور آتشی رنگوں کے ملاپ والی دلہن ہوتی ہے۔ کہنے والے نے کہاکہ یہ سب عورت کے بدلتے موڈز اور رنگا رنگ کیفیات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دراصل سنگ مرمر، سنگِ سرخ، مرمر میں جڑاؤ پتھروں اور بہتی جمنا سے روشنیاں اور کرنیں منعکس ہوتی ہیں تو سب مل کرانسانی کیفیات کی تجسیم کر دیتے ہیں۔
میں اس یادگار عمارت میں بے چین پھرتا رہا۔ کیوں؟ مجھے نہیں معلوم۔ انسانوں کے درمیان غیرمرئی لہریں سفر کرتی ہیں جو بناکچھ کہے ایک دوسرے تک اپنی بات پہنچا دیتی ہیں‘ لیکن یہاں سنگ و خشت سے بنی ایک عمارت دھڑکتے انسان کی طرح کچھ کہتی تھی۔ کچھ بتاتی تھی۔ میں اس کی آواز سنتا تھاکہ مجھے ٹھیک سے دیکھو، مجھے سراہو، میرے ساتھ سانس لو اور میری دھڑکن میں اپنی دھڑکن شامل کرو۔
لیکن تاج محل کو کون ٹھیک سے دیکھ سکتا ہے؟ کون سراہ سکتا ہے؟ اس کی طرح سانس کون لے سکتا ہے؟ اس کی طرح کون دھڑک سکتا ہے؟ ہے کسی کی ایسی ہمت؟ ہے کسی کی ایسی محبت؟
سنگ مرمر کے ٹھنڈے فرش پر جمنا کو دیکھتے ہوئے مجھے یہی لگاکہ یہ ایک ہشت پہلو آنسو ہے جس کی ارجمند اور خرم کی محبت نے تجسیم کردی۔ محبت کے علاوہ آنسو کی تجسیم اور بھلا کون کرسکتا تھا؟
میں نے ممتاز محل کے مقبرے میں ارجمند بانو اور شہزادہ خرم کو یاد کیا جو ممتاز محل اور شاہ جہاں کے لقب سے امر ہونے والے تھے۔ ان کی امر محبت کو یاد کیا جو سفید سنگ مرمر میں مجسم ہونے والی تھی۔ کتنے حرف سازوں نے اس محبت کو یاد کیا۔ کتنے شاعروں نے اس پر شعر لکھے۔ کیا میں بھی کبھی اس کیفیت کو بیان کرسکوں گا۔ کیا میں کبھی اس ہشت پہلو آنسو کی تجسیم کرسکوں گا؟
پتھر ہے مگر پھول کے پیکر سے بنا ہے
کیا خواب ہے جو سنگِ منور سے بنا ہے
اس خواب نے تو مجھ میں پلک تک نہیں جھپکی
یہ خواب تو آنکھوں کے مقدر سے بنا ہے
اس حُسن کو تو ہاتھ بنا ہی نہیں سکتے
یہ حسن تو معمار کے اندر سے بنا ہے
یہ صبحِ ازل رنگ کہ چاندی سے سجی ہے
یہ ماہِ ابد گیر کہ مرمر سے بنا ہے
شمشیر کے مانند یہ مڑتی ہوئی جمنا
یہ آب کہ جو پگھلے ہوئے زر سے بنا ہے
یہ آئنہ خانے کے شکستہ در و دیوار
یہ عکس جو ٹوٹے ہوئے منظر سے بنا ہے
یہ حجرۂ ویران میں آباد کبوتر
یہ گھر جو اسی اجڑے ہوئے گھر سے بنا ہے
سینے سے گزرتا ہوا یہ لمحۂ موجود
ایسا ہے کہ جیسے کسی خنجر سے بنا ہے
دل حُسن کے اس حزن پہ شق کیوں نہیں ہوتا
معلوم نہیں کون سے پتھر سے بنا ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved