پی پی پی اور پی ٹی آئی اُس وقت ششدر رہ گئیں جب 2017 ء میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سینئر ایڈوائزر سید عادل گیلانی صاحب کو میاں نواز شریف نے کمال مہربانی سے سربیا میں پاکستان کا سفیر نامزد کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔اس حکم سے بہت سے لوگوں پر عیاں ہو گیا کہ میاں نواز شریف کو کلین چٹ اور پیپلز پارٹی پر کرپشن کے الزامات کیوں تھوپے جاتے تھے۔اس سے پہلے27 جنوری2015 ء کو میاں نواز شریف نے پرائم منسٹر انسپیکشن کمیشن میں انہیں کنسلٹنٹ مقرر کیا‘ پھر28 فروری کو میاں شہباز شریف نے ایک ایم او یو سائن کرتے ہوئے پنجاب حکومت کیلئے پاکستان میں ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کے اس کرتا دھرتا کی خدمات حاصل کیں ۔عادل گیلانی صاحب پر مسلم لیگ (ن ) کی ان عنایات پر پیپلز پارٹی کا ردعمل آج بھی میڈیا کی فائلوں میں موجود ہے۔12 اپریل 2017ء کو سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا یہ بیان اخبارات میں شائع ہواکہ ان صاحب کو سفیر مقرر کرنا انصاف کا قتل ہے‘ انہیں یہ عہدہ لیتے ہوئے خود ہی خیال کرنا چاہیے تھا‘انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ایک جانبدار شخص ہیں اور ان کی تعیناتی کوٹے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ حکومت سیاسی کوٹے سے20فیصدزیادہ بھرتی کرچکی ہے۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ عادل گیلانی کوپیپلزپارٹی کے خلاف بے بنیادرپورٹس جاری کرنے پرنوازا گیا‘ جبکہ انہیں مسلم لیگ( ن) میں کہیں کرپشن نظرنہیں آئی۔سلیم مانڈوی والا نے مزیدکہا کہ عادل گیلانی کی تعیناتی پر وزارت خارجہ خاموش تماشائی بنی رہی اور یہ خاموشی معنی خیز تھی۔ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی سیاسی سفیروں کی تعیناتی کے خلاف ہر فورم پر احتجاج کرے گی۔
ان چند ظاہری عنایات اور بخش سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف ٹرانسپیرنسی کی جس رپورٹ کا شور برپا ہے اسے کہاں سے اخذ کیا گیا ہے۔ اگر ملک کے ہر چھوٹے بڑے سرکاری اور نیم سرکاری محکموں کی بات کریں تو بلا شبہ کرپشن اسی طرح جاری و ساری ہے جو پچاس ساٹھ برسوں سے اس عوام کا مقدر بنی ہوئی ہے ۔پولیس‘ بجلی ‘گیس ‘ ایکسائز ‘ کسٹمز ‘ایف بی آر‘ زراعت ‘ تعلیم اور مرکزی وصوبائی آڈیٹر جنرلز کے دفاترسے انصاف کی راہداریوں تک ہر دفتر اورا دارہ بد عنوانی سے متاثر ہے اور یہ کام بدستور اور بے خوف و خطر ہو رہا ہے۔ یہ وہ کرپشن ہے جسے تسلیم کرنے میں ہٹ دھرمی دکھانے کی بجائے وزیر اعظم عمران خان بار ہا تسلیم کر چکے ہیں کہ نچلے درجے میں ابھی تک کرپشن ختم نہیں کی جا سکی جسے کسی بھی صورت سراہا نہیں جا سکتا۔
جنوری2020ء میں سوئٹزر لینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم کا ہال دنیا بھر کی ریا ستوں کے سربراہان ‘ میڈیا اور مالیتی اداروں کے سربراہوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور عمران خان بحیثیت وزیر اعظم پہلی مرتبہ اس اہم ترین فورم سے خطاب کر تے ہوئے بتا رہے تھے کہ انہو ں نے اپنی ڈیڑھ سالہ حکومت کے ابتدائی دور میں اوپر کی سطح پر کی جانے والی کرپشن میں 50 سے70 فیصد کمی کی ہے۔سابق کرکٹر کا بین الاقوامی فورم پر ایک سٹیٹس مین کی حیثیت سے خطاب سننے کے لیے بین الاقوامی میڈیا اور عالمی شخصیات امڈی چلی آ رہی تھیں اور ابھی ان کے اس فورم پہ کہے گئے الفاظ گونج ہی رہے تھے کہ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی ایک رپورٹ کی گونج دار آواز سنائی دینے لگی کہ پاکستان کے معزول وزیر اعظم نواز شریف کے مقابلے میں عمران خان کی حکومت کے پہلے سال ہی میں کرپشن پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ اس سرجیکل سٹرائیک نے تحریک انصاف کی حکومت کو چکرا کر رکھ دیا تو پہلے سے طے شدہ حکمت عملی سے نواز لیگ اور ان کا حامی میڈیا اور سوشل میڈیا تحریک انصاف کے خلاف پے در پے حملوں میں مصروف ہو گیا‘ جس پرپاکستان میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے نمائندے نے وضاحتی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہماری ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے اس رپورٹ کو سیا ق و سباق سے ہٹ کر بیان کیا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں کہیں نہیں کہا گیا کہ 2019ء میں پاکستان میں کرپشن بڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا سکور ایک درجہ نیچے جانا کرپشن میں اضافے یا کمی کی نشاندہی نہیں کرتا۔انہوں نے مزید کہا کہ سیاستدانوں اور میڈیا نے رپورٹ کو غلط رپورٹ کیا‘ غلط اعداد و شمار پیش کر کے پاکستان کی ساکھ کونقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔چیئرمین ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کہا کہ حکومت پاکستان کے بدعنوانی کے خلاف اقدامات قابل ستائش ہیں اور موجودہ حکومت میں نیب کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔تاہم میاں شہباز شریف‘ جو اُن دنوں لندن میں تھے‘نے ایون فیلڈہائوس سے باہر میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اس رپورٹ کی تصدیق کئے بغیر اپنی شرافت اور ایمانداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرتے ہوئے بد دیانتی کے تمام پہاڑ عمران خان پر گرانا شروع کر دیے۔مگر اپوزیشن کی جانب سے جیسے ہی اس رپورٹ کا چرچا ہونے لگا تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان میں ذمہ داروں نے پریس ریلیز میں تحریک انصاف سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی یہ رپورٹ تو میاں نواز شریف کے دور اقتدار پر مشتمل تھی جسے بد قسمتی سے کچھ افراد نے عمران خان حکومت سے اپنا سیاسی حساب برا بر کرنے کے لیے حقائق سے ہٹ کر بیان کرنا شروع کر رکھا ہے۔انہوں نے اپنے وضاحتی بیان میں یہ بھی کہا کہ بعض گروپوں نے اس رپورٹ کو غور سے نہیں دیکھا ورنہ وہ اس معاملے میں مغالطے کا شکار نہ ہوتے۔
وزیر اعظم عمران خان کی ذات چونکہ آج بھی دنیا بھر کے اداروں اور تحقیقی میڈیا کی نظروں میں کرپشن کے الزامات سے پاک تسلیم کی جاتی ہے‘ لیکن ان کا مقابلہ نواز لیگ‘ پی پی پی‘ مولانا فضل الرحمن اور پی ڈی ایم کے دیگر بڑے کھلاڑیوں سے ہے‘ وزیر اعظم عمران خان سے جن کی سیا سی مخالفت اب ذاتی عناد میں بدل چکی ہے ‘اس لئے پی ٹی آئی کو آئے دن ایک نئی کہانی اور نئے حملے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ لیکن یہ اس حکومت کی بد قسمتی ہے کہ ابلاغی حکمت عملی میں یہ اب تک وہ کامیابیاں حاصل نہیں کر پائی جو اس کے استحکام کی بنیادی ضرورت ہے۔حکومت کو مفاد پرستوں کے ٹولے کی جانب سے پھیلائے گئے پراپیگنڈے کاسا منا ہے لیکن اس کا توڑ کرنے کے لیے جامع حکمت عملی ترتیب دینے کی بجائے حکومت ڈنگ ٹپائو پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ چند شخصیات کی ذاتی پروجیکشن اور چوٹ پڑنے کے بعد اسے سہلانے کے سوا اس حکمت عملی کا کسی ا ورچیز سے سرو کار دکھائی نہیں دیتا‘ حالانکہ انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں جوابی حکمت عملی کی پیشگی تیاری کی ضرورت ہے اور لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکہ اپنے منہ پر مارنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
سروے کیا ہوتے ہیں اور یہ رپورٹیں کس طرح اور کیوں جاری کی جاتی ہیں اس کا تھوڑا سا اندازہ کرنے کے لیے مئی2013ء کی خیبر پختونخوا کی انتخابی سیا ست بارے جاری کئے گئے ایسے ہی ایک سروے رپورٹ کی جانب چلتے ہیں۔ مستند سمجھے جانے والے اس سروے ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ کے پی کے میں نواز لیگ کو 35 فیصد‘ مولانا فضل الرحمن کو19 فیصد جبکہ عمران خان کی تحریک انصاف کو صرف گیارہ فیصد عوام کی سپورٹ حاصل ہے۔ لیکن جب2013ء کے انتخابات ہوئے تو نتیجہ سب کے سامنے اس کے بالکل الٹ تھا۔مگراس رپورٹ کو نہایت تیزی اور ہر طرف چکا چوند پیدا کرتے ہوئے دکھانا شروع کر دیا گیا ‘ اسی تناظر میں حکومت کے خلاف ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ اور اس کی پروجیکشن کو دیکھا جانا چاہیے۔اگر غیر جانبداری سے یہ سب دیکھا جائے توسوائے ذاتی دشمنوں کے کوئی بھی ملک کے دیگر سیاست دانوں کی طرح عمران خان کو کرپٹ تسلیم نہیں کرتا۔ وزارت خزانہ سمیت حکومتی میڈیا کے ستونوں پر جھولنے والے مشیران کو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ ٹرانسپیرنسی کی اس رپورٹ کے سیا ق و سباق کو ایک ایک کر کے میڈیا اور عوام کے سامنے رکھتے ہوئے بتاتے کہ اس میں سال2017-18ء کا ڈیٹا کس قدر سمایا ہوا ہے اور2019-20 ء کے اعدادو شمار کتنے ہیں؟
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی بات چل ہی پڑی ہے تو یہ بھی تسلیم کرتے ہوئے قوم کو جواب دیجئے کہ اس ادارے کے ایڈوائزر عادل گیلانی نے خواجہ آصف کو ایک خط لکھا تھا جس کے مطا بقIPPs نے گزشتہ دس برسوں میں ایک ہزار ارب روپے اس غریب قوم کی جیبوں سے اضافی کیوں وصول کئے؟عادل گیلانی نے سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کو بھی شکایت بھیجی تھی کہ نجی پاور پلانٹس کو منافع کی مد میں ان کے اخراجات کے18 فیصد کے برابر ریا ستی ضمانت فراہم کی گئی لیکن IPPs نے غیر قانونی طور پر اٹھارہ فیصد سے زائد فوائد حاصل کرنے کے لیے اپنے اخراجات اور پیداواری لاگت کو اصل سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ٹی وی سکرینوں پر جب پی پی پی کے لیڈروں کو تحریک انصاف کی حکومت میں زیادہ کرپشن کے الزامات پر وعظ کرتے سنا تو24 دسمبر2012ء کو سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کو لکھا گیا یہ خط یاد آیا جس کے مطا بقIPPs کی اضافی ادائیگیوں میں ٹیکنیکل سروسز اورآپریشن کے اخراجات میں کئی ارب روپوں کی مبا لغہ آرائی سے کام لیا گیا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved