زمین‘ عمارت اور معیشت کا گہرا تعلق ہے‘ترقی یافتہ ممالک کی اکانومی انہی کے گرد گھومتی ہے یہاں تک کہ دنیا کے بہترین شہروں کا موازنہ بھی زمین کی قیمت کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ جس شہر کی زمین مہنگی ہے وہی ترقی یافتہ تصور ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ انویسٹمنٹ کے لیے یہ شعبہ سب سے زیادہ محفوظ اور منافع بخش ہے تو غلط نہ ہو گا‘ لیکن اس سے صحیح معنوں میں معاشی فائدہ حاصل کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انویسٹر کو تحفظ کا احساس نہ ہو۔ فراڈ اور دھوکا دہی نہ ہونے کی وجہ سے جائز و ناجائز پیسہ لندن‘ نیویارک‘ دبئی اور کوالا لمپور جیسے شہروں کی عمارتوں کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے‘ کیونکہ وہاں کی حکومتیں جائیدادوں کے تحفظ کویقینی بناتی ہیں‘ قبضہ کرنا تو دور کی بات‘ وہاں اگر کوئی فلیٹ‘ گھر‘ مکان یا زمین پچاس سال بھی خالی رہے تو وہ محفوظ رہتی ہے‘ کوئی آکراپنا تالا لگا کر اور جعلی رجسٹریاں بنا کر گھر کا مالک نہیں بن سکتا حتیٰ کہ یہ معلوم کرنا بھی انتہائی مشکل ہوتاہے کہ کونسی جائیداد کس کی ملکیت ہے۔ جب تک آپ خریدو فروخت کے مراحل میں داخل نہیں ہوتے آپ زمین کے مالک تک نہیں پہنچ سکتے‘بلکہ بعض معاملات میں جائیداد آپ کے نام منتقل ہو جاتی ہے لیکن آپ کو اس کے اصل مالک کا نام نہیں بتایا جاتا۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک کے برعکس پاکستان میں حالات مختلف ہیں۔
پاکستان میں خالی گھر‘ مکان‘ پلاٹ یا عمارت کو قبضہ مافیا ناجائز سرمایہ کاری کے لیے انتہائی موضوع گردانتے ہیں کیونکہ منافع کی شرح ایک ہزار فیصد تک بھی ہو سکتی ہے۔ پہلے جعلی سٹامپ پیپر اور رجسٹری بنوائی جاتی ہے۔ عدالت سے سٹے حاصل کیا جاتا ہے۔ مقامی تھانے کو منیج کیا جاتا ہے‘ پھر بندے بٹھائے جاتے ہیں۔ عدالتوں اور کچہریوں کے چکر شروع ہوجاتے ہیں۔کمزور تنگ آ کر کچھ رقم ان سے لے کوڑیوں کے بھاؤ جائیداد قبضہ مافیا کو بیج دیتا ہے۔ اگر زمین سرکاری ہے تو حلقے کے ایم پی اے یا ایم این اے کی سرپرستی حاصل کی جائے گی۔ حصہ طے ہو گااور سرکار کی زمین ہتھیا لی جائے گی۔ سنہری موقع وہ ہوتا ہے جب مالک بیرون ملک مقیم ہو۔ جب تک اسے علم ہوتا ہے جگہ پر ایک بلندوبالا عمارت تعمیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ملک میں نہ ہونے کے باعث کیس نہیں ہوتا۔ اگر ہو جائے تو پیروی نہیں ہوتی۔ یہ معاملات کس قدر پیچیدہ اور طویل ہوجاتے ہیں ‘اس کو سمجھنے کے لیے آپ یہ مشہور واقعہ جان لیں کہ جنرل ضیاالحق جب جوان تھے اور فوج میں کیپٹن تھے تو ان کے گھر پر قبضہ ہو گیا۔کیس عدالتوں میں چلتا رہا۔ کئی سال گزر گئے مگر کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ ضیاالحق صاحب ترقی کرتے ہوئے جنرل بن گئے اور پھر صدر پاکستان بھی بن گئے‘ جوانی سے بڑھاپا آ گیا لیکن قبضے کا فیصلہ نہ ہو سکا۔ جب وہ صدر پاکستان کی کرسی پر بیٹھے تھے تو قبضہ کرنے والا شخص ان کے دفتر میں آیا‘ معافی مانگی اور گھر کے کاغذات میز پر رکھ دیے۔ ضیا الحق صاحب نے کہا کہ مجھے اب اس کی ضرورت نہیں‘ میں نے آپ کو معاف کیا‘ آپ جائیں اور یہ فائل بھی لے جائیں۔ جس ملک میں جنرل اور صدر پاکستان قانونی طریقے سے اپنے گھر کا قبضہ نہ چھڑوا سکے وہاں عام لوگ کس کھیت کی مولی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک پاکستانی رئیل سٹیٹ میں پیسہ لگانے سے گھبراتے ہیں۔ جس سے ترسیلات ِزر متاثر ہوتی ہیں۔ ابھی تک کی رپورٹ کے مطابق روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سے جو سرمایہ پاکستان میں آ رہا ہے وہ رئیل اسٹیٹ میں انویسٹ نہیں ہو رہا بلکہ سیونگ سرٹیفکیٹس میں جا رہا ہے۔ اتنی پرکشش مراعات اور کنسٹرکشن ایمنسٹی سکیم متعارف کروانے کے باوجود بھی بیرون ملک پاکستانی زمین اور عمارت میں پیسہ نہیں لگا رہے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ ان کی عمر بھر کی کمائی پر کوئی مافیا قبضہ کر لے گا۔ سالہا سال قبضے چلنے کی وجہ سے کھربوں روپوں کی زمینوں کی خریدوفروخت رکی ہوئی ہے جس سے حکومت کی ٹیکس آمدن کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ قبضہ مافیا جب ایسی زمینوں کی آگے ٹرانزیکشن کرتا ہے تو کیش استعمال کیا جاتا ہے۔جو کہ کالا دھن ہوتا ہے اور سرکار کو کئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر یہ زمین اصل مالک کے پاس ہو تو وہ خریدوفروخت کے لیے لیگل چینل استعمال کرے گا‘بینکوں کے پاس پیسہ جائے گا جس سے ملک کی نیٹ ویلتھ بڑھے گی۔
پچھلی حکومتوں میں قبضہ مافیاز کو کھلی چھٹی دی گئی تھی ‘ عمران خان صاحب نے بھی بیان دیا ہے کہ پچھلی حکومتیں مافیاز کے ساتھ ملی ہوئی تھیں‘لیکن ان کا کہنا تھا کہ میری حکومت میں کسی قبضہ مافیا کو ریلیف نہیں ملے گا۔ وزیراعظم صاحب کا یہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور وہ اس پر عمل کرتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف جب سے حکومت میں آئی ہے لینڈ مافیاز کے خلاف آپریشن میں تیزی آئی ہے۔ اربوں روپے مالیت کی زمینیں سرکاری تحویل میں آئی ہیں جس کا معاشی فائدہ نہ صرف حکومت کو ہوا ہے بلکہ عام آدمی تک بھی اس کے اثرات پہنچتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر پنجاب کی بات کی جائے تو ایک سال قبل عثمان بزدار صاحب نے تمام ضلعوں میں سپیشل اینٹی لینڈ گریبنگ سیل قائم کیے تھے جہاں جائیداد پر قبضے کے خلاف آن لائن گھر بیٹھے درخواست جمع کروائی جا سکتی ہے۔ بی ایس 18 آفیسرز درخواست وصول کرتے ہیں۔ انکوائری کرتے ہیں اور فوری عمل کروا کر شہریوں کی مشکلات کم کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے جس میں ڈی جی ایل ڈی اے‘ سی سی پی او‘ ڈی آئی جی آپریشنز‘ ڈپٹی کمشنر لاہور اور چیف آفیسر لاہور میٹرو پولیٹن کارپوریشن شامل ہیں۔ حال ہی میں پنجاب حکومت نے ایک سو پچاسی ارب کی زمین قبضہ مافیا سے چھڑوائی۔ اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ نے بھی قبضہ گروپ کے خلاف کارروائی کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے جس کا کام روزانہ قبضہ مافیا کے خلاف شکایات پر کارروائی کرنا ہو گا‘جس کے تحت سرکاری اراضی پر قبضہ واگزار کروا کر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ابتدائی طور پر جن کے خلاف کارروائی کی گئی ان میں ترنول‘بارہ کہو اور جھنگی سیداں کے قبضہ گروپس شامل ہیں۔انہی کاوشوں کی بدولت پچھلے اڑھائی سال میں کھربوں روپے مالیت کی زمین قبضہ مافیا سے واپس لی گئی ہے اور بڑے مگر مچھوں کو جیل میں بھی ڈالا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کے یہ اقدامات قابلِ تحسین ہیں۔
تجاوزات اور قبضہ مافیا کے حوالے سے میں حکومت پاکستان کی نظر لاہور شہر کے ایک اہم مسئلے کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ زمینوں پر قبضے کے علاوہ تجاوزات نے بھی شہر کی خوبصورتی کو ماند اور سکون کو برباد کر دیا ہے۔ لاہور کی سڑکوں کی طرح رہائشی کالونیوں کی سڑکیں بھی تجاوزات اور قبضہ مافیا کی زد میں آ چکی ہیں اور 80‘ 80 فٹ چوڑی سڑکیں سکڑ کر 30 فٹ یا اس سے بھی کم رہ گئی ہیں۔ یہ سڑکیں رہائشی کالونیوں کے مکینوں کے پیسوں سے بنائی گئی ہے لیکن ان رہائشیوں کا وہاں سے گزرنا محال ہو چکا ہے۔ دکانداروں نے چھ سے سات فٹ کی تجاوزات بنا لی ہیں‘ ان کے آگے پھل فروشوں‘ کھانے کے اڈے اور پھیری والے بٹھا کر ان سے ماہانہ کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔ ابھی چند دن قبل کئی مقامات پر ایل ڈی اے نے کارروائی کر کے ناجائز تجاوزات کو ختم کیا ہے لیکن ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ وہ اس معاملے پر بھی توجہ دیں تا کہ شہریوں کی تکلیف کم ہو سکے۔ اس کے ساتھ وزیراعظم عمران خان صاحب سے بھی گزارش ہے کہ جس طرح وہ اڑھائی سال سے قبضہ مافیا کے خلاف متحرک ہیں اسی رفتار کو جاری رکھیں تا کہ سرمایہ کار بے دھڑک رئیل اسٹیٹ میں پیسہ لگا سکیں‘بیرون ملک پاکستانی بے خوف ہو کر پاکستان میں جائیدادیں خرید سکیں اور پاکستانی معیشت مضبوط ہو سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved